ایوان صدر کا اصطبل

میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ’’دو گھوڑا بوسکی سے قمیض کے بجائے شلوار بنانی چاہیے کیونکہ ٹانگیں بھی دو ہوتی ہیں۔ بوسکی کی شلوار پہن کر مرد کی چال بھی دُلکی(دوٹانگوں) سے سرپٹ(چار ٹانگوں والی) ہو سکتی ہے‘‘ ۔وہ تو کہتا ہے کہ ایوان صدر میں اصطبل کا قیام ہی غیر آئینی ہے۔کیونکہ پارلیمانی نظام حکومت میں ساری ہارس ٹریڈنگ وزیر اعظم کرتا ہے اس لئے اصطبل وزیر اعظم ہاوس میں ہونا چاہیے۔میں مرید سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچناچاہیے۔

ایک اصطبل کی تصویر

دو گھوڑا بوسکی کریم رنگ کا کپڑا ہے۔جس کی قمیض لٹھے کی شلوارکے ساتھ پہنی جاتی ہے۔یہ لباس عموما تہواروں پرزعفرانی اور کیسری پگڑی کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔لیکن میرا دوست شیخ مرید کہتا ہے کہ’’دو گھوڑا بوسکی سے قمیض کے بجائے شلوار بنانی چاہیے کیونکہ ٹانگیں بھی دو ہوتی ہیں۔ بوسکی کی شلوار پہن کر مرد کی چال بھی دُلکی(دوٹانگوں) سے سرپٹ(چار ٹانگوں والی) ہو سکتی ہے‘‘ ۔میں تانگے کے علاوہ جب بھی گھوڑ ے کا سوچتا ہوں تو میرے دماغ میں پہلے گھوڑا گلی آتی ہے اوربعد میں دو گھوڑا بوسکی۔بوسکی اور گلی کی درمیانی مسافت میں ایوانِ صدر،ایوب خان،آصف زرداری، محموداچکزئی اورسرتاج عزیز ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ جیسے کچے بھنے قیمے میں موٹا موٹا ادرک نظر آتا ہے۔گھوڑا گلی کوشہرت تب ملی جب کشمیر جاتے ہوئے انگریز فوجیوں کے گھوڑے یہاں تازہ دم ہونے لگے لیکن یہ گلی بدنام تب سے ہے ۔ جب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ’’حلال‘‘شراب یہاں بنتی ہے ۔ انگریز کے باقیات پر آج ہمارا قبضہ ہے۔

ایک انگریز نے معروف صوفی ادیب خواجہ حسن نظامی سے پوچھا ’’ انگریزوں کا رنگ ایک ساہوتا ہے۔لیکن ہندوستانیوں کا رنگ الگ الگ کیوں ہوتا ہے۔‘‘۔؟۔آپ بولے۔ ’’گھوڑوں کے رنگ مختلف ہوتے ہیں مگرگدھوں کے ایک سے ہوتے ہیں ‘‘۔

انگر یزوں نے بر صغیر میں گھوڑوں کی کمی پوری کر نے کے لئے گھوڑی پال سکیم شروع کی تھی۔تب لوگوں کو ایک گھوڑی دی جاتی اور اس کی خاطرکے لئےایک مربع ز مین الاٹ کی جاتی ۔بدلے میں انگریزتین سال میں گھوڑے کے دو بچے لیتے تھے۔یہ سکیم بھی ثبوت ہے کہ یہاں گدھوں کو گھوڑے ملتے رہے ہیں۔لیکن آج کل گدھے اورگھوڑے برابر ہیں۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم گھوڑا گلی کو گدھا گلی کہنا شروع کر دیں۔گھوڑے میل جول اور دوستی کے شوقین ہوتے ہیں ۔وہ ہنہنا کرباتیں کرتے ہیں۔برطانوی یونیورسٹی سُوسیکس کے ماہرین کا دعوی ہے کہ گھوڑا۔ انسان کی خوشی اور غم کوسمجھ سکتا ہے۔شائد اسی لئے ارسطو نےانسان کو سماجی جانورکہا ہو۔

کہتے ہیں کہ جانور پالنے کے لئے انسان کو خود جانور بننا پڑتا ہے۔یہ سچ ہے تو ارسطو بھی سچا ہے۔ورجینیا میوزیم کی ریکارڈ بُک بھی ارسطو کی سچائی کی گواہ ہے۔جس میں لکھا ہے کہ ایک بیماری کی وجہ سےسابق امریکی صدر جارج واشنگٹن کے تمام دانت جھڑ گئے۔توڈاکٹرز نے انہیں گھوڑے کے دانت لگادئیے۔شائد امریکی صدر کینڈی کی اہلیہ جیکوین کوبھی یہی بیماری ہو کیونکہ فیلڈ مارشل ایوب خان نےانہیں گھوڑاگفٹ کیا تھا۔گھوڑا تحفہ میں دینا کوئی اچنبا نہیں ہے۔مشیر خارجہ سرتاج عزیز کومنگولیاسے گھوڑا مل چکا ہے۔سابق ضلع ناظم گجرات چوہدری شفاعت نے دو خاندانوں میں صلح کروائی تو گھوڑاملا۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کو لاڑکانہ میں گھوڑا گفٹ ہوا ۔ لیکن انہوں نےمنع کر دیا ۔ وزیر اعلی پنجاب نے ترک وزیر اعظم کو گھوڑا بھیجا ہے۔

گھوڑا ہمارے ہاں 1500 ق م میں آریہ لے کرآئےوگرنہ ہڑپہ اور موہنجو داڑومیں تو بیل ہی تھا۔اس کے بعد یونانی، ایرانی، افغانی اور منگول سب گھوڑوں پر ہی آئے۔اورگئے بھی گھوڑوں پر ہی۔یوں برصغیر میں دگڑدگڑ ہی ہوتی رہی۔لیکن مشتاق احمد یوسفی نے گھوڑے کا ایک اور ۔راز بھی بتایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’محبوبہ کو اغوا کے لئے بھی گھوڑے استعمال ہوتے ہیں‘‘۔

گھوڑا تانبے کے دور سے جنگوں میں استعمال ہورہاتھا۔آج بھی دنیا پِتل دی ہے۔انسان نے جانوروں کو سدھانے کے فن میں مہارت پائی تو کُتوں نےہمارے پیچھے دم ہلا ئی اور گھوڑے دوٹانگوں پر ناچنے لگے۔آج کل تو گھوڑے ڈھول پر آئیٹم سانگ بھی کرتے ہیں۔لیکن مرید کہتا ہے کہ جنگ کا خطرہ آج بھی موجود ہے۔اسی لئے دلہا گھوڑے پر ہوتا ہے۔اور دشمن کے گھر کی طرف جاتے ہوئے طبل جنگ بجایا جاتا ہے ۔ دشمن جب زیر ہو جاتا ہے تو وہ باقی جنگ سسرال میں لڑتا ہے۔

ایک تانگہ تھوڑی دیر چل کر رک جاتا تو ۔ کوچوان نیچے اتر کر گھوڑے کو گانا سناتا ۔ اور وہ دوڑنے لگتا۔ سواری نے پوچھا۔ بھئی یہ کیا قصہ ہے۔

کوچوان:بابو میرا گھوڑا بیمار تھا۔ آج میں بگھی والا گھوڑا لے آیا ہوں۔

گھوڑے کے بچے کو سرل کہتے ہیں۔دوک (دو سال کا) گھوڑاناچنے لگتا ہے۔جبکہ تین سال کا گھوڑا ۔سُر بھی سمجھتا ہے۔گھوڑا جب پپو سمراٹ جتنا ماسٹر ہو جاتا ہے تو وہ جھومر ، لنگوری، ریڑھ اور دھمال۔ چار ٹائپ کا ڈانس کرتا ہےاور اس کی چالیں بھی چار ہی ہوتی ہیں۔ پہلی چال میں ہر پاؤں الگ الگ زمین پر پڑتا ہے۔ دُلکی چال میں دائیں اور بائیں کے دونوں پاؤں اکھٹے اٹھتے ہیں۔ تیسری چال میں تین آوازیں اور چوتھی چال سرپٹ ہوتی ہے۔لیکن مرید کہتا ہے کہ گھوڑے کی پانچویں چال بھی ہوتی ہے۔ شطرنجی چال ۔’’ شطرنج دنیا کی واحد گیم ہے جوریاست میں شوہر کی حیثیت واضح کرتی ہے۔ بیچارہ بادشاہ صرف ایک چال چلتا ہے اور ملکہ ۔ہاتھی، توپ، پیادے اور گھوڑے سمیت ساری چالیں چلتی ہے‘‘۔

شادی کی سلور جوبلی پر ایک دوست نے شوہر سے پوچھا آپ کی خوشحال زندگی کا راز کیا ہے۔؟

شوہر : ہم ہنی مون پر گئے اورتمہاری بھابھی گھڑ سواری کرنے لگی۔ گھوڑا تھوڑا نخریلا تھا ۔اس نے گرا دیا۔بھابھی نے گھوڑے کو تھپکی دی اور کہا یہ پہلی بار ہے۔وہ دوبارہ سوار ہوئی پھر گر گئی۔ اور بولی ۔یہ دوسری بار ہے۔گھوڑے نے تیسری بارپھر گرا دیا۔ تو تمہاری بھابھی بولی کچھ نہیں۔ میرا پستول نکالا اور گھوڑے کو گولی مار دی۔ میں نے اسے بہت بر ا بھلا کہا لیکن اس نے صرف اتنا کہا : یہ پہلی بار ہے۔

خبر یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار’’ایوان صدر میں 50کروڑ روپے کی لاگت سے اصطبل بنایا جا رہا ہے جہاں گھوڑوں کوپُرسکون ماحول دیا جائے گا ۔ان کی کثرت کے لئے تربیت یافتہ عملہ ہو گا اورڈاکٹرز ہوں گے ۔100 سے زائد گھوڑوں کے لئے گرم اور سرد موسم کا الگ الگ انتظام ہو گا‘‘۔ایوان صدر میں بے لگام فنڈز خرچ کرکے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی جا رہی ہے۔اپوزیشن گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے۔اسے تو یہ بھی نہیں پتہ کہ ایوان صدر کے گھوڑے ٹھمکے مارنے والے ہیں یاسکیورٹی والے۔اور گھڑ سوار کون ہیں۔
ايک پینڈو اور انگريز فلم ديکھ رہے تھے ۔اچانک ہیرو کی اینٹری ہو گئی۔ انگریز بولا :‌ يہ گھوڑے سے گرجائے گا۔
ديہاتی: تمہارا وہم ہے یہ نہیں گرے گا۔۔۔لیکن ہيرو گر گيا۔
انگريز: تمہیں کہا تھا ناں کہ یہ گرے گا۔
ديہاتی: ميں نے کل بھی یہ فلم ديکھی تھی اور کل بھی یہ گرا تھا۔ ميں سمجھاتھا آج محتاط ہوگا۔

ملک میں صدارتی نظام حکومت ہوتا تو ہیرو گھوڑے سے کبھی نہ گرتا۔کیونکہ اصطبل ایوان صدر میں ہے۔ملک کے ہرصدر نے وہاں گھوڑے رکھے ہیں ۔انہیں جب اجازت ملتی تو ہنہناتے بھی ہیں۔ گھوڑے کی سننے اور دیکھنے کی حس کافی تیز ہوتی ہیں۔شائد انہیں وہاں رکھنے کا مقصد 58 ٹوبی پر نظر رکھنا ہو۔لیکن مرید کہتاہے کہ ایوان صدر میں اصطبل کا قیام ہی غیر آئینی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت ساری ہارس ٹریڈنگ وزیر اعظم کرتا ہے اس لئے اصطبل وزیر اعظم ہاوس میں ہونا چاہیے۔اسےتوشک ہے کہ گھوڑے دہی بھلے کھا۔کھا کے بیمار ہو جائیں گے۔میں مرید سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ حاکم کی اگاڑی اور گھوڑے کی پچھاڑی سے بچناچاہیے۔
 
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 95468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.