مصائب کے نزول کے اسباب

مصیبتیں کیوں آتی ہیں اور انسان مشکلات سے کیوں دوچار کیا جاتا ہے یہ جاننے کے لئے اس مضمون کا ضرور مطالعہ کریں

حافظ خلیل الرحمٰن سنابلی

یوں تو انسانی زندگی روزمرہ کے حساب سے کسی نہ کسی مشکل میں پھنس جاتی ہے اور یہ زندگی یوں بھی مشکلات سے عبارت ہے، پریشانیاں ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ ہیں... لیکن یہ جب یہی پریشانیاں بڑی یا اجتماعی ہو جائیں یا آنے والی مصیبت آسمانی یا زمینی ہو جائے تو ذہن مختلف اندیشوں میں گِھر جاتا ہے اور یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ آخر ان مصائب کے نزول کے اسباب کیا ہیں؟ آخر مصیبتیں کیوں آتی ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں...

محترم قارئین! اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور نہ یہ اس کی ذات کے لائق ہے، وہ کسی کو یونہی مفت میں بلا کسی گناہ کے گرفتارِ مصیبت نہیں کرتا، اللہ نے قرآن میں مختلف مقامات پر ہمیں اس بات سے آگاہ کیا ہے کہ مصائب جو بھی آتے ہیں وہ انسانوں کے اپنے اعمال کا انجام ہے... کبھی تو یہ مصیبت تنہا شخص کے لئے نازل ہو کر اس کا خاتمہ کر دیتی ہے اور کبھی نازل شدہ مصیبت کا ٹارگٹ پوری قوم ہوا کرتی ہے... آئیے اب اسباب پر نظر ڈال لیتے ہیں:

سبب نمبر 1: اللہ اور اس کے رسول کی معصیت: آپ پورا قرآن پڑھ جائیں، جہاں بھی قوموں کی ہلاکت کا تذکرہ کیا گیا ہے وہاں اسباب بھی مذکور ہیں اور ان اسباب میں بنیادی سبب جو اللہ نے بیان کیا وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی نافرمانی ہے، قوم نوح سے لے کر قوم موسی و عیسی علیہم السلام تک ساری قوموں پر نازل ہونے والی آفت و مصیبت کا مرکزی سبب اللہ اور رسول کی معصیت ہے... ہم بھی روزانہ نہ جانے کتنی بار ان دونوں کی نافرمانی کرتے ہیں اور پھر مصیبت آ جانے پر واویلا کرنا شروع کر دیتے ہیں...

سبب نمبر 2: ناپ تول میں کمی کرنا: انسان ناپ تول میں کمی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس نے کوئی گناہ نہیں کیا، شعیب علیک السلام کی قوم اہل مدین میں یہ بیماری موجود تھی، انہیں ان کے اس غلط عمل سے منع کیا گیا لیکن وہ باز نہیں آئے، نتیجتاً اللہ نے زلزلے کے شدید جھٹکوں سے ان کو اور ان کے گھروں کو برباد کر دیا... اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنا شروع کر دیتی ہے تو ایسی قوم پر قحط سالی، مہنگائی اور حکمرانوں کے جور و ظلم جیسی مصیبتیں اللہ مسلط کر دیتا ہے" (ابن ماجہ، حسن، 3246) اس حدیث کے بعد اب یہ کہنے کی ضرورت نہیں قحط سالی کیوں، مہنگائی کی مار کیوں اور کیوں ہم ظلم و ستم کا شکار ہیں؟

سبب نمبر 3: نیکی کا حکم نہ دینا اور برائی سے نہ روکنا: جب پوری قوم برائی میں ملوث ہو جائے، کوئی نیکی کا حکم دینے والا اور برائی کو برائی جانتے ہوئے بھی اس سے روکنے والا نہ ہو تو بھی مصائب کا نزول ہوتا ہے، اللہ نے قرآن میں بنی اسرائیل کے متعلق بیان کیا:" ہم نے ان کو نجات دی جو برائی سے روکتے تھے اور ان کو برے عذاب میں مبتلا کر دیا جنہوں نے ظلم کیا اس لئے کہ وہ نا فرمان تھے" (الأعراف:165)...اور دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا کہ :" اصحاب السبت" کو اس لئے مصائب میں مبتلا کیا گیا کیونکہ وہ برائی سے روکتے نہ تھے" (المائدۃ:79)... ویسے بھی "خیر امت" کا وصف ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتی ہے اور برائی سے روکتی ہے، ہم اپنی ذمہ داری نبھائیں تو مصیبت ہمارے قریب نہیں آئے گی...

سبب نمبر 4: زبان کا صحیح استعمال نہ کرنا: زبان بظاہر ایک چھوٹا سا انسانی عضو ہے لیکن یہ ایسی چیز ہے کہ جس کا درست استعمال بندے کو اللہ کا مقرب بنا دیتا اور غلط استعمال اللہ سے دور کر دیتا ہے، ترمذی کی ایک روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جب انسان صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء انسانی تعظیما زبان کے سامنے جھک جاتے ہیں اور اس سے عرض کرتے ہیں کہ تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر، ہم تیرے ساتھ ہیں، اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے" (حسن 2407) لہذا انسان کو اپنی زبان کنٹرول میں رکھنی چاہیئے کیونکہ بسا اوقات یہی چھوٹی چیز بہت بھاری مالی و جسمانی نقصان کا باعث بن جاتی ہے.....

سبب نمبر 5: زکوۃ ادا نہ کرنا: زکوۃ اسلام کا ایک اہم رکن ہے جو ہر صاحب نصاب پر فرض ہے، لیکن اگر کوئی زکوۃ ادا نہیں کرتا ہے یا پورے مال کی زکوۃ نہیں نکالتا ہے تو اسے عذاب الہی کا منتظر رہنا چاہیئے، ابن ماجہ کی روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جب لوگ زکوۃ کا مال روک لیتے ہیں (ادا نہیں کرتے ہیں) تو آسمانوں والا ان پر سے بارش کے قطرات کو روک لیتا ہے اور اگر جانور نہ ہوتے تو بارش ہی نہ ہوتی" (حسن 3246) آج ملک کے مختلف علاقوں میں بارش کے نہ ہونے کا ایک سبب زکوۃ ادا نہ کرنا ہے اور یہ ایسی مصیبت ہے جس کے چپیٹ میں پوری قوم ہے...

سبب نمبر 6: آپسی اختلاف کا شکار ہو جانا: اختلاف کیسا بھی ہو بہرحال زحمت ہے، اختلاف کسی بھی اعتبار سے رحمت کا سبب نہیں بن سکتا، آج خصوصاً مسلمانوں پر اغیار کی جانب سے جو مصائب آ رہے ہیں یا مسلمان جن پریشانیوں کا شکار ہے اس کا ایک بنیادی سبب آپسی اختلاف ہے، اللہ نے قرآن میں جا بجا اختلاف سے بچنے اور اختلاف کے خطرناک عواقب کا تذکرہ کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں کو آپسی انتشار سے بچتے ہوئے متحد ہو کر رہنے کی تلقین کی ہے...

سبب نمبر 7: جہاد سے اعراض: ماضی میں مسلمانوں کی کامیابی اور فتح و سر بلندی کا ایک سبب جہاد سے محبت تھا مگر جب رفتہ رفتہ مسلمانوں نے جہاد سے اعراض کرنا شروع کیا، سستی و کاہلی کا شکار ہو گئے، اللہ کے راستے میں قربان ہو جانے کا جذبہ انہوں نے ختم کر لیا تو ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، ہر چہار جانب سے انہیں مصائب نے جکڑ لیا اور دنیا میں ان کا عروج ماضی کی داستان بن گیا...

سبب نمبر 8: دنیا سے حد درجہ محبت: یہ دنیا فانی ہے اور سراسر دھوکے کا سامان ہے، قرآن نے بے شمار مقامات پر دنیا کی حقیقت کو اجاگر کیا ہے اور مسلمانوں کو یہ بتلایا گیا ہے کہ دنیا کی محبت کو اپنے دلوں میں جگہ نہ دیں، ساتھ ہی یہ بات بھی مذکور ہے کہ جب کوئی قوم اللہ کو بھول کر دنیا میں مست ہو جاتی ہے، دنیا کی لذتوں میں پڑ کر اپنی اہمیت اور مقام کو فراموش کر دیتی ہے تو اللہ ایسی قوم کو کسی مصیبت میں مبتلا کر کے ہلاک و برباد کر دیتا ہے...

سبب نمبر 9: نعمتوں کی نا شکری: اللہ نے حضرت انسان کو ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے، انسان کا فرض تو یہ ہے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرے تاکہ اس کا رب خوش ہو کر اسے مزید عطا کرے، مگر جب انسان شکر کے بجائے نا شکری کرنی شروع کر دیتا ہے تو اللہ ایسے انسان کو بھوک کے عذاب میں گرفتار کر لیتا ہے پھر وہ بندہ رب کی موجود نعمتوں سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے جیسا کہ اللہ نے سورۃ النحل آیت نمبر 112 میں اسی کی جانب اشارہ کیا ہے...

محترم قارئین! یہ کچھ اسباب اور ان کے علاوہ بھی کچھ اسباب ہو سکتے ہیں جن کی بنا پر انسانوں پر مصیبتیں نازل کی جاتی ہیں، ہمیں چاہیئے کہ ہم ان اسباب سے دور رہیں اور ہر حال میں اللہ کا حقیقی اور محبوب بندہ بننے کی کوشش کریں تاکہ ہمارا رب ہم سے ہمیشہ خوش رہے اور خوش ہو کر ہمیں اپنی رحمت سے جنت میں داخل کر دے....

Khalil Shahid
About the Author: Khalil Shahid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.