سیلوٹ ٹو پاک آرمی

ستمبر کی ایک خوشگوار صبح میں اپنی بیگم کے ساتھ سیرکرکے جب واپس آرہا تھا تو راستے میں فوج کے تین ٹرک دکھائی دیئے۔ فوجی جوانوں کو دیکھ کر یکدم میرا خون جوش مارنے لگا اور یہ دیکھے بغیر کہ میں بائیک چلا رہا ہوں ٗ میں فوجی بھائیوں کو سیلوٹ مارتا رہا ۔ بائیک پر پیچھے بیٹھی ہوئی بیگم نے حیرت سے پوچھا خیریت تو ہے آج فوجی بھائیوں کو بہت سیلوٹ مارے جارہے ہیں ۔میں نے کہامیں نے اپنے ان عظیم فوجیوں کو کیوں سیلوٹ نہ ماروں جو میری اور پاکستانی قوم کی خاطر اپنی جانوں پر کھیلتے ہیں ۔تمہیں یاد ہے کہ جب 1965ء کی پاک بھارت شروع ہوئی ۔ اس وقت میری عمر دس سال تھی اور میں لاہور کینٹ کے ریلوے کوارٹروں میں والدین کے ہمراہ رہائش پذیر تھا۔ سرحد پر جب توپیں چلنے کی آواز آتی ۔ نہ صرف ان کے شعلے ہمیں دکھائی دیتے بلکہ گھروں کے در دیوار ہلنے لگتے۔ اس لمحے جبکہ پاک فوج کے جوان دشمن کے سامنے سیہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے تھے ماں نے مجھے چارپائی کے نیچے چھپا رکھا تھا کہ مجھے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے ۔ خطرے کا سائرن بجتا تو ماں مجھے ڈبلیو نما مورچے میں چھپا دیتی لیکن شدید خطرے کے ان لمحات میں ہمارے فضائی سرفروش بھارتی جنگی طیاروں کا نہ صرف راستہ روکتے بلکہ انکا غرور خاک میں ملاتے۔ پھرجب والد صاحب کی ہدایت کے مطابق ہم بذریعہ ٹرین لاہور سے عارف والا ( جہاں میرا ننھیال تھا) جارہے تھے۔ گاڑی جب گنگن پور کے قریب پہنچی تو دو بھارتی طیاروں نے انتہائی نچلی پرواز کرکے ٹرین میں سوار تمام مسافروں کو خوفزدہ کردیا۔اس لمحے ہمیں سیٹوں کے نیچے چھپا کر ماں آیت الکرسی پڑھنے لگی اور کھڑکی سے گردن نکال کر بھارتی طیاروں پر پھونکیں مارنے لگیں ۔شاید ماں کی انہی پھونکوں کااثر تھا کہ چند ہی منٹوں بعد سرگودھا سے پاک فضائیہ کاایک شاہین اڑتا ہوا مدد کو آپہنچا اس نے دونوں بھارتی طیاروں کا کچھ اس طرح تعاقب کیا کہ وہ کوشش کے باوجود ٹرین پر بم نہ گرا سکے ۔بالاخر باری باری دونوں کو تباہ کرکے وہ شاہین مسافروں کے نعروں کی گونج میں واپس چلاگیا۔میں نے بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تمہیں اس بات کی خبر ہے جب1948ء میں بھارتی فوج نے وادی کشمیر پر زبردستی قبضہ کرلیا تھا یہ قبضہ ختم کروانے کے لیے پاک فوج کی بکھری ہوئی نفری نے کیپٹن راجہ محمد سرور کی قیادت میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے کشمیر کا کچھ حصہ آزاد کروالیا تھا جسے آج ہم آزادکشمیر کے نام سے پکارتے ہیں ۔تم نے نہیں دیکھا کہ 1958ء میں جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان کے سرحدی قصبے لکشمی پور پر رات کے اندھیرے میں قبضہ کرلیا تھا ۔پاک سرزمین کے اس حصے کو دشمن کے ناپاک وجود سے آزاد کروانے کے لیے میجر طفیل محمد کی قیادت میں ایک ایسا خونی معرکہ لڑاگیا جس میں میجر طفیل محمدنے چند ساتھیوں جام شہادت نوش کیا لیکن وطن عزیز کے اس گوشے کو دشمن سے آزاد کروا لیا تھا ۔

65 کی جنگ میں سیالکوٹ پر بھارتی فوج چھ سو ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہوئی تھی اور اتنی بڑی تعداد میں ٹینکوں سے لیس بھارتی فوج کو روکنا تقریبا ناممکن تھا ۔تم نے پھر دیکھا کہ پا ک فوج کے جوان ہی تھے جنہوں نے جسموں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے لیٹران کے پرخچے اڑادیئے کہ بھارتی فوج کو الٹے پاؤں بھگانا پڑا ۔ میں نے کہا تم نے نہیں دیکھا کہ جب بھارتی فوج اور لاہور کے درمیان صرف بی آر بی کی رکاوٹ ہی باقی رہ گئی تھی تو کس طرح میجر عزیز بھٹی کی قیادت میں پاک فوج کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر لاہور کی جانب بھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا۔ میں نے کہا شاید تمہیں یادہو جب 20 اگست 1971ء کو پاک فضائیہ کے ایک طیارے کو بھارتی ایجنٹ انسٹرکٹر کے روپ میں اغوا کرکے بھارت لے جانا چاہتا تھا تو راشد منہاس نے موت کے ڈر سے بے نیاز اس منصوبے کو کیسے ناکام بنایا تاکہ ملک کی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آنے پائے اور خود جام شہادت نوش کرلیا۔میں نے بیگم سے مخاطب ہوکر کہا تم میجر شبیر شریف کو جانتی ہو 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران دسمبر کے اس مہینے جبکہ سردی سے پانی بھی نہروں اور دریاؤں میں جم جاتا ہے پاک فوج کے اس شیر دل افسر نے اپنے ساتھیوں سمیت ہیڈسلیمانکی سیکٹر میں برف کی طرح ٹھنڈے پانی میں کود کر نہر کو اس لمحے عبور کیا جب بھارتی فوج شدید ترین گولہ باری کررہی تھی اور دس کلومیٹر بھارتی علاقہ فتح کرکے درجنوں دشمن فوجی جہنم واصل کیے ۔ میں نے کہا تم سوار محمد حسین کونہیں جانتی جس نے ڈرائیور ہونے کے باوجود ظفروال سیکٹر کے علاقے میں 1971ء کی جنگ میں اس قدر استقلال ٗ ثابت قدمی اور بہادری سے دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم روک رکھے کہ کوشش کے باوجود دشمن اس علاقے میں پیش قدمی نہ کرسکا۔محمد حسین کے بھی بیوی بچے تھے اس کا دل بھی چاہتا تھا کہ وہ بھی اپنی زندگی آرام سے گزارے پھر کس نے اس کو مجبور کیا کہ وہ اپنی فرائض منصبی سے بڑھ کر ملک و قوم کی سلامتی کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے ۔

میں نے مخاطب ہوکر پھر کہا آج کی نسل نے مشرقی پاکستان کا نام تو شاید سنا ہو گا لیکن مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے پاک فوج کے کتنے سرفروشوں نے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کیا ۔ میجر محمداکرم جنہیں بعد از شہادت پاک فوج کی جانب سے نشان حیدر دیاگیا وہ دیناج پور سیکٹر کے ہلی محاذ پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر نہ جانے کتنے دن دشمن کی پیش قدمی روک کر کھڑے رہے ۔دشمن نے اس وقت اس محاذ پر کامیابی حاصل کی جب میجر محمد اکرم اور ان کے ساتھیوں نے باری باری وطن عزیز کی خاطر جان قربان کردی ۔یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک میجر محمداکرم اور پاک فوج کے کتنے ہی شہید ہونے والے افسروں اور جوانوں کی میتیں بنگلہ دیش میں دفن ہیں ۔ جہاں پاکستان سے وفاداری کے
الزام میں بہاری اور جماعت اسلامی کے سابق رہنماؤں کو عدالتی دہشت گردی کانشانہ بنا کر پھانسی کے پھندے پر چڑھایا جارہا ہے وہاں نشان حیدر حاصل کرنے والے پاک فوج کے میجر محمد اکرم شہید کے مزار کی نہ جانے کیا حالت ہوگی ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہر سال جوش و خروش سے یوم دفاع تو منایا جاتا ہے لیکن وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے والے کتنے ہی پاک فوج کے افسر اور جوان آج بھی اپنی ارض وطن میں دفن ہونے کے منتظر ہیں ۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ 46 سال بعد شہیدوں کی میتیں خراب نہ ہوچکی ہوں ۔ اس حوالے سے ہمارے پیش نظر قرآن پاک کی وہ آیات ہونی چاہیئں جس میں واضح طور پر اﷲ تعالی ارشاد فرماتاہے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں جن کی زندگی کا ہمیں شعور نہیں ہے ۔ پاک فوج کے ان افسروں اور جوان کی شہادتوں میں کوئی شک نہیں ہے جنہوں نے دفاع وطن کے لیے اپنی جانیں قربان کیں ۔اﷲ تعالی کا یہ وعدہ ہے کہ مٹی شہید کے جسم کو چھو نہیں سکتی ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ لانس نائیک محمد محفوظ شہید (نشان حیدر )کی میت امانت کے طور پر ایک جگہ دفن کی گئی تھی ۔چھ ماہ بعد جب دوبارہ قبر کی کھدائی کی گئی تو شہید کا جسم مکمل طور پر ٹھیک حالت میں تھا بلکہ اس کے جسم سے پہلے کی طرح خون بھی رس رہا تھا ۔ شہادت کے وقت لانس نائیک محمد محفوظ کلین شیو تھے لیکن چھ ماہ بعد جب قبر کھودی گئی تو ان کے چہرے پر اچھی خاصی لمبی داڑھی اگ چکی تھی ۔اگر لانس نائیک محمد محفوظ کا جسم قبر میں چھ ماہ تک محفوظ رہ سکتا ہے تو میجر محمد اکرم شہید کے جسم کو مٹی کیسے کھا سکتی ہے ۔ میں سمجھتاہوں یہ پاکستانی قوم ٗ پاکستان آرمی اور حکومت پاکستان پر شہید کا قرض ہے کہ وہ ان کے جسد پاک کو ایک ایسے ملک سے واپس لائے جہاں ان کی قبر پر فاتحہ کہنے والا بھی کوئی نہیں آتا ہوگا
۔ گجرات کے مشہور قصبے "ڈنگہ" جہاں آپ کی پیدائش ہوئی وہاں ہی میجر محمداکرم شہید کا مزار بھی بننا چاہیے جس پر ہر روز نہیں تو کم از کم سال میں ایک مرتبہ 6 ستمبر کو قوم اور فوج کے افسر اور جوان گارڈ آف آنرتو دے سکتے ہیں اور درجات میں بلندی کی دعا کرسکتے ہیں ۔میجر محمداکرم شہید پاکستان قوم کے محسن تھے ان کی عزت اور تکریم کرنا ہمارا فرض اولین بنتا ہے۔

مغربی محاذ پر بھی شہادتوں کا سفر جاری تھا ۔ لاہور کے مشرق اور واہگہ کے جنوب میں سائفن کا سرحدی علاقہ ہے۔جنگ بندی کے باوجود بھارتی فوج نے حملہ بستی پل کنجری پر دوبارہ قبضہ کرلیا۔ اس قبضے کو ختم کرانے کا حکم لانس نائیک محمد محفوظ کی الفا کمپنی کو ملا۔ یہ 18 دسمبر1971ء کی صبح تھی ۔ بھارتی فوج کو یہ فائدہ تھا کہ وہ گاؤں میں چھپ کر پاک فوج کی پیش قدمی کو روک سکتی تھی ۔ بھارتی فوج مسلسل توپ خانے سے گولہ باری اور سٹین گنیں سے گولیاں برسا رہی تھی ۔ لانس نائیک محمد محفوظ زمین پر کہنیوں کے بل رینگتے ہوئے جب گاؤں کے قریب پہنچ گئے تو ان کے قریب ایک گولہ آکر گرا جس سے ان کی ٹانگیں بیکار ہوگئیں ٗ لیکن ان کے جذبہ ایمانی میں کوئی کمی نہ ہوئی وہ اس مورچے تک پہنچنا چاہتے تھے جہاں سے مسلسل ان پر فائر آرہا تھا ۔ جونہی انہوں نے مورچے تک رسائی حاصل کی تو گولیوں کی ایک بوچھاڑنے ان کے جسم کو چھلنی کرکے رکھ دیا۔ لیکن اس وقت تک ان کے مضبوط ہاتھ اس بھارتی فوجی کی گردن تک پہنچ چکے تھے جو سٹین گن سے مسلسل فائرنگ کررہا تھا ۔ اس کے باوجود کہ لانس نائیک محمد محفوظ کا سینہ گولیوں سے چھلنی ٗ کلیجہ سنگینوں سے چاک اور ٹانگیں جسم سے الگ ہوچکی تھیں پھر بھی انہوں نے بھارتی فوجی کی گردن کو نہ چھوڑا اور اسے جہنم واصل کرکے ہی شہادت کا مقام حاصل کیا ۔بھارتی فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل سریش پوری نے پاک فوج کے کمانڈر انچیف کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے کہا لانس نائیک محمد محفوظ شہید نے جس قدر بہادری کا مظاہرہ کیاہے اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔اس نے زخموں سے چور ہونے کے باوجود بھارتی فوج کے گنر کو گردن سے دبوچ کر ہلاک کردیا۔ دشمن فوج کی جانب سے یہ خراج تحسین بڑے اعزاز کی بات تھی۔جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے ۔

ضلع صوابی کے نواحی قصبے "نواں کلی" کے کیپٹن کرنل شیر خان کو کون نہیں جانتا جنہوں نے وادی کارگل کی برف پوش پہاڑی چوٹیوں میں بھارتی فوج کے چھکے چھڑا دیئے ۔ آج بھی دراس سیکٹر کا چپہ چپہ کیپٹن کرنل شیر خان شہید کی جرات و بہادری کی گواہی دے رہا ہے جنہوں نے دشمن کے کیمپ میں جاکر کیمپ کمانڈر سمیت درجنوں بھارتی فوجیوں کو جہنم واصل کرکے نشان حیدر حاصل کیا ۔اسی طرح حولدار لالک جان نے وادی کارگل کی ٹائیگر ہلز پر بھارتی قبضہ چھڑانے کے لیے جس قدر بہادری سے دشمن کے لہو سے برف پوش سفید وادیوں کو نہلا دیا اس کا ذکر ہمیشہ پاکستان کی عسکری تاریخ میں ہوتا رہے گا ۔شہادتوں کا سفر صرف نشان حیدر حاصل کرنے والوں تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ پاک فوج کے کتنے ہی افسروں اور جوانوں نے وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے ایسی انمٹ داستان شجاعت رقم کی ہیں جن کا ذکر تا قیامت دنیا کی عسکری تاریخ میں ہوتا رہے گا ۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر جو میرے مشاہدے میں ہے یہاں کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ کیا یہ سب پاکستانی قوم کے سیلوٹ کے مستحق نہیں ہیں ۔ میں بولتا جارہا تھا اور بیگم نہایت خاموشی سے سن رہی تھی .................

بریگیڈئر مسعود انوری شہید سیاچن میں دفاع وطن کے تقاضے پورے کررہے تھے ۔ یکم اگست 1992ء کو آپ کی قیادت میں بھارتی فوج کے خلاف ایک مشکل ترین آپریشن شروع کیاگیا ۔دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر جس ہیلی کاپٹر میں آپ اگلے مورچوں کی نگرانی کررہے تھے وہ ہیلی کاپٹربھارتی فوج کی فائرنگ سے تباہ ہوگیا۔ جس سے ہیلی کاپٹر میں سوار بریگیڈئر مسعود انوری سمیت تمام افسر اور جوان شہید ہوگئے ۔میجر عبدالوھاب شہید ( ستارہ جرات ) کا تعلق شمالی علاقہ جات کے ضلع دیامیر کے ایک گاؤں "پرشنگ"
سے تھا جنہوں نے وادی کارگل میں شروع ہونے والی مئی 1999ء کی معرکہ آرائی میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے وطن عزیز سے محبت کا حق ادا کردیا۔آپ اس سے پہلے دنیاکے بلند ترین محاذ سیاچن اور سندھ میں بدنام زمانہ ڈاکووں کے خلاف آپریشن میں بھی جرات اور بہادری کی کتنی ہی مثالیں قائم کرچکے تھے ۔ میجر محمد حنیف شہید (ستارہ جرات ) کا شمار ایک مشاق اور نڈر پائلٹوں میں ہوتا رہاہے ۔کتنی ہی بار خراب موسم اور بھارتی توپوں کی گولہ باری سے واسطہ پڑا لیکن ہر مرتبہ قدرت ان کی محافظ بنی رہی ۔ یہ 10 جون 1999ء کی رات تھی جب میجر محمد حنیف سکردو ٗ گلتری اور کارگل کے درمیان 9 گھنٹے پرواز کرکے تھک چکے تھے ۔وہ بریگیڈئر نصر ت سیال کے ہمراہ محاذ جنگ سے واپس سکردو کی طرف آرہے تھے کہ ان کا ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر گہرے بادلوں اور رات کے اندھیرے میں پہاڑ سے جاٹکرایا جس سے پائلٹ سمیت تمام افسر اور جوان شہید ہوگئے ۔کیپٹن عمار احمد شہید (ستارہ جرات )کا یوم شہاد ت 6 جولائی 1999ء تھا جب وہ ایک ایس ایس جی کمانڈو کی حیثیت سے وادی کارگل میں اپنے فرائض منصبی کی انجام دہی کے دوران بھارتی فوج کی زد میں آکر شہید ہوگئے ۔ کیپٹن احسن وسیم شہید کا تعلق بھی انہی سرفروشوں سے ہے جنہوں نے وادی کارگل میں جرات اور بہادری کا کارنامے انجام دیئے ۔20 جون 1999ء کو جب دشمن نے بوفرز توپوں سے پاکستانی مورچوں پر اندھا دھند گولہ باری کی تو کیپٹن احسن وسیم بھی اپنے ساتھیوں سمیت اس گولہ باری کی زد میں آگئے ۔لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن کا تعلق سیالکوٹ کے گھمن خاندان سے تھا ۔آپ کے والد میجر ضیا گھمن بھی پاک فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے ۔لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن 33 ایف ایف یونٹ کے ہمراہ اٹھارہ ہزار فٹ بلند چوٹیوں پر جا پہنچے ۔ نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر جوان ہونے والے لیفٹیننٹ فیصل ضیا گھمن کے لیے دشمن سے برسرپیکار ہونا ایک پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ بلندی کی وجہ سے آکسیجن کی کمی سے پھیھپڑوں میں سوزش آجاتی تھی ۔ جب عزم مضبوط ہو اور ارادہ بھی پختہ اور بھارت جیسا ازلی دشمن سامنے تو کسی بھی پاکستانی کے قدم نہیں رک سکتے ۔ان کی پوسٹنگ وادی کارگل کی ارشد پوسٹ پر ہوئی جس پر بار بار بھارتی فوج گولہ باری کر رہی تھی ۔16 جولائی 1999ء کی شام حسب معمول بھارتی توپوں نے شدید ترین گولہ باری شروع کردی ۔جس سے فیصل ضیا گھمن اپنے دو ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کرگئے ۔ اس جرات اور بہادری کے صلے میں انہیں بعد از شہادت ستارہ جرات عطا کیاگیا ۔ کیپٹن قاضی جواد اکرام پاک فوج کے وہ عظیم سرفروش تھے جنہیں شہادت سے پہلے خواب میں اپنی شہادت نظر آچکی تھی وہ تو فوج میں شامل ہوئے ہی شہادت کے لیے تھے ۔ پھر جب وہ 26 جولائی 1999ء کو وادی کارگل کی برف پوش بلند و بالا اور دشوار گزار پہاڑی چوٹیاں پر دفاع وطن کا فریضہ انجام دے رہے تھے اور مسلسل کئی دن سے بھارتی فوج کے یکے بعد دیگر ے جارحانہ حملہ ناکام بنا چکے تھے ۔اسی اثنا میں ہائی کمان کی جانب سے پسپائی کا حکم ملا تو قومی پرچم اتار کر جب وہ آسمان کو چھوتی ہوئی پہاڑی سے رسوں کی مدد سے نیچے اتر رہے تھے تو دشمن کی توپوں کاایک گولہ ان کے قریب آکرگرا جس کے ٹکڑے آپ کے جسم میں پیوست ہوگئے ۔زخموں سے زیادہ خون بہنے کی وجہ سے آپ نے اس مقام پر جام شہاد ت نوش کیا لیکن سبز ہلالی پرچم کواپنے دامن سے الگ نہ ہونے دیا ۔ پا ک فوج کا یہ واحد شہید ہے جس کے والد کو چند دن پہلے ہی مسجدنبوی میں منعقدہ ایک روحانی محفل میں نبی کریم ﷺ کے حکم پر سرخ دستار پہنائی گئی تھی ۔جو بیٹے کی شہادت کی شکل میں قاضی محمد ریاض کو نصیب ہوئی۔کیپٹن اعظم اقبال کا تعلق لاہور سے تھاایک رات شہید کی والدہ نے خواب دیکھا کہ آسمان سے ٹوٹا ہوا ستارہ ان کی جھولی میں آگرا ۔ اس خواب پر وہ بہت خوش تھیں کہ چند ہی دنوں بعد اعظم اقبال کی پیدائش ہوئی جو فوج میں بھرتی ہوکر کیپٹن کے عہدے تک جا پہنچے پھر وہ این ایل آئی کی جانب سے معرکہ کارگل میں شرکت کے لیے گلتری کا محاذ ان کی منزل جاٹھہرا ۔ جہاں وہ 26 ہزار فٹ بلند برف پوش چوٹیوں پر دشمن سے نبرد آزماہوئے اور 25 فروری 1999ء کو لینڈ سلائنڈنگ کی زد میں آکر میجر اسد سمیت پاک فوج کے گیارہ افسر اور جوان شہید ہوگئے ۔ کیپٹن علی روف مگسی یہ پاک فوج کے ایک ایسے بہادر ٗ جرات مند اور دلیر افسر تھے جن پر بلاشبہ نسلیں فخر کرتی ہیں ۔ انہوں نے والدگرامی کرنل (ر) عبدالرؤف مگسی کو کہہ کر اپنی ڈیوٹی سیاچن میں یہ کہتے ہوئے لگوائی کہ ابا جان میں تو فوج میں شامل اسی لیے ہوا ہوں کہ بھارت سے دو دو ہاتھ کروں اور بھارتی سورماؤں کو جہنم واصل کرکے ان پر پاک فوج اور پاکستان کا خوف طاری کروں ۔ باپ نے اپنے جذبات پر قابو رکھتے ہوئے بیٹے کے فیصلے پر رضامند ی کا اظہارکردیا ۔یہاں یہ عر ض کرتا چلوں کہ سیاچن ایسی سنگلاخ چٹانوں اور برفانی ڈھلوانوں کی سرزمین ہے جہاں دشمن سے زیادہ موسم بے رحم دشمن ہے جہاں جانے کی گارنٹی تو ہے لیکن واپس زندہ آنے کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ۔ کیپٹن علی روف مگسی کی رگوں میں ایک شیر دل اور بہادر فوجی افسر کا خون جوش مار رہا تھا اس نے کم بلندی کی پوسٹوں پر ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا بلکہ 26 ہزار فٹ بلند پوسٹ پر دفاع وطن کی جنگ لڑنے کو ترجیح دی ۔پھر جنگی مہم کے دوران ایک برفانی تودہ آگرا ۔اس پہاڑی تودے کی زد میں آکر کیپٹن علی روف مگسی سمیت پانچ ساتھیوں نے 26 جنوری 1999ء کو جام شہادت نو ش کیا ۔ 10 جون 1999ء کے دن گلتری محاذ پر دشمن کا حد سے زیادہ دباؤ کم کرنے کے لیے بریگیڈئر نصرت سیال کو خراب موسم کے باوجود بذریعہ ہیلی کاپٹر اگلے مورچوں تک جاناتھا ۔ جب بریگیڈئر نصرت سیال اپنے فرائض کی انجام دہی کے بعد واپس سکردو آ رہے تھے تو ان کا ہیلی کاپٹر رات کے اندھیرے اور خراب موسم کی وجہ سے ایک پہاڑی سے ٹکرا گیا جس سے بریگیڈئر نصرت سیال سمت ہیلی کاپٹر میں سوار پاک فوج کے تمام افسر اور جوان شہید ہوگئے ۔لیفٹیننٹ کرنل ساجد کاشمار پاک فوج کے بہادر اور دلیر افسروں میں ہوتا ہے انہیں جو بھی ٹارگٹ دیا گیا اس میں سو فیصد کامیابی حاصل کرکے خود کو بڑے معرکے کااہل ثابت کردیا ۔ وہ لیفٹیننٹ سے کیپٹن اور کیپٹن سے میجر اور پھر لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک جا پہنچے ۔ 2015ء کی ایک
شام انہیں اپنی یونٹ کے ہمراہ جنوبی وزیر ستان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لیے جانے کا حکم ملا ۔ وہ اپنی اس تعیناتی پر بہت خوش تھے کہ انہیں اب چھپے ہوئے دشمن کی شکل میں دہشت گردوں کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کا موقعہ میسر آئے گا ۔ وزیر ستان پہنچ کر جو مشن بھی انہیں سونپا گیا انہوں نے اس مشن کو باآسانی سر کرلیا ۔ پھر ایک صبح وہ ہائی کمان کی ہدایت کے مطابق دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر زمینی حملہ کرنے کے لیے نکلے ۔دہشت گرد پاک فوج کے اس جارحانہ حملے کے خوف سے اپنی پناہ گاہیں چھوڑ کر بھاگ گئے ۔ دہشت گردوں کا تعاقب کرتے ہوئے جب کرنل ساجد ایک کھنڈ ر نما مکان میں داخل ہوئے تو دشمن کی بارودی سرنگ پر ان کا پاؤں آگیا جس سے ایک زبردست دھماکہ ہوا اور کرنل ساجد نے موقع پر ہی جام شہادت نوش کیا ۔یہ کیپٹن جواد اکرام شہید کے بہنو ئی تھے ۔میری نظر میں یہ قوم کے حقیقی ہیروز ہیں جن کو سیلوٹ کرنا نہ صرف میرا بلکہ پوری قوم کا فرض ہے ۔

پاک فوج گزشتہ پندرہ سال سے چھپے ہوئے دشمن کے خلاف مصروف جنگ ہے یہ ایک ایسی جنگ ہے جس کولڑتے ہوئے روسی افواج ٗ امریکی افواج اوردنیا کے تمام طاقتور ممالک پر مشتمل اتحادی افواج کے افسر اور جوان نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اور کامیابی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی ۔ روسی فوج تو اپنی شکست قبول کرکے 30 سال پہلے افغانستان سے جاچکی ہے اور اس شکست نے اس کے چنگل سے چھ اسلامی ریاستوں کو آزاد کرنے کا فریضہ انجام دیا ۔ جبکہ امریکی اور اتحادی فوج بھی پہاڑیوں اور چھپے ہوئے دشمن سے ٹکرا ٹکرا کر نہ صرف لہولہان ہوچکی ہیں بلکہ ذہنی طور شکست خوردہ ہوچکی ہیں ۔ امریکہ اور اتحادی افواج کابل تک محدود ہوکر رہ گئی ہیں جبکہ 80 فیصد افغانی علاقہ ان کی دستبرد سے باہرہے ۔ ان حالات میں جبکہ برطانیہ بھی پاکستان کے زیر قبضہ قبائلی علاقوں کے دشوار گزار پہاڑوں سے سر ٹکرا کر واپس جانے پر مجبور ہوگیا تھا پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنے فولادی جذبوں اور قوت ایمانی کی بدولت ناممکن کو ممکن کردکھایا ہے ۔وہ لوگ جو کبھی کہا کرتے تھے کہ مارگلہ پہاڑی کے پیچھے طالبان پہنچ چکے ہیں جو کسی بھی وقت اسلام آباد پر حملہ آور ہوکر قبضہ کرسکتے ہیں ۔پاک فوج کی لامحدود قربانیوں کی بنا پراب دور دور تک بھی دکھائی نہیں دیتے ۔ دہشت گردوں کی پسپائی کا یہ سفر پاک فوج کے دلیر اور بہادر افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کے بعد ہی شروع ہوا ۔ اﷲ نے چاہا تو پاکستان بہت جلد پرامن اور خوشحال ملک بن جائے گا اور اس کامیابی کا سہرا بلاشبہ پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے ساتھ ساتھ جرات مند قیادت جنرل راحیل شریف اور ان کے رفقائے کار کے سر ہے ۔یہ سرفروش جو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ پر وطن عزیز کی حفاظت کررہے ہیں کیا ہمارا فرض نہیں بنتا کہ ہم ان کی حفاظت اور عزت کریں ۔ میرا تو یہ پختہ عزم ہے کہ میر ے ہوتے ہوئے کوئی ملک دشمن عناصر پاک فوج کے افسروں اور جوانوں پر حملہ آور نہیں ہوسکتا ۔ میں سمجھتا ہوں یہی عزم ہر محب وطن پاکستانی کا ہونا چاہیئے ۔

اس وقت بھارتی فوج سرحدوں پر یلغار کے لیے بالکل تیار کھڑی ہے تو ان کے سامنے سینہ تان کر یہی فوجی بھائی کھڑے ہیں اگر وہ بحیثیت قوم ہماری حفاظت کرتے ہیں تو بحیثیت شہری ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم ان پر حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کو اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ایسا سبق سکھائیں کہ وہ دوبارہ فوج کی وردی سے بھی خوف کھاکر سرزمین پاکستان سے دور بھاگ جائیں ۔ ان حالات میں ہمیں صرف نعرہ بازی تک محدود نہیں رہنا چاہیئے بلکہ آگے بڑھ کر پاک فوج کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے دشمن کی یلغار کو روکنا ہوگا ۔
 
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 665413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.