تیسرا دن!

 عید ابھی گزری نہیں تھی کہ بھاگ دوڑ سی مچ گئی، وجہ اس ہنگامہ آرائی کی یہ ہوئی کہ اس مرتبہ حکومت نے عید کی تین چھٹیاں تو دے دیں،مگر کیا کیجئے کہ بڑی عید بذاتِ خود تین دن تک ہوتی ہے، عید سے قبل ایک چھٹی فطری بات ہے، کہ دور دراز سے لوگوں نے گھر پہنچنا ہوتا ہے، یہ سفر بارہ گھنٹے سے زیادہ تک بھی ہے، اگر کوئی سرکاری ملازم اسلام آباد سے جنوبی پنجاب جائے گا تو یقینا بارہ گھنٹے سے زیادہ سفر کرکے آئے گا، اسلام آباد میں تو ملازمت کرنے والے پورے پاکستان سے آتے ہیں، وہاں سے بلوچستان اور سندھ کے علاقوں میں جانے والوں کا سفر اس سے بھی زیادہ ہے۔ حکومت نے عید کے دوسرے روز تو چھٹی کردی، مگر تیسرے دن دفاتر میں حاضر ہونے کا حکم تھا۔ اس جلدی کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ اگر تین روز تک چھٹی دی گئی توپورا ہفتہ چھٹیاں ہو جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت نہایت ذمہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے، کہ قوم کا زیادہ وقت ضائع نہ ہو، عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے حکومت کو مزید وقت میسر آسکے، حکومت کا یہ جذبہ قابلِ قدر ہے، مگر بعض اوقات حالات ساز گار نہیں ہوتے۔

حکومت کو اچھی طرح علم ہے کہ اس عید کو تین روز تک منایا جاتا ہے، بہت سے لوگ قربانی بھی تیسرے روز کرتے ہیں۔ اگر حکومت تین روز چھٹی کرتی تو آگے صرف جمعۃ المبارک بچتا ، جبکہ وفاقی اداروں اور بہت سے تعلیمی اداروں میں ہفتہ کے روز چھٹی ہوتی ہے، اس سے عجیب صورت حال سی بن جاتی ، گویا جمعہ ہی کام کا دن رہتا ۔ مگر چھٹی نہ کرنے سے اس سے بھی عجیب بلکہ غریب صورت پیدا ہوگئی۔ ہوا یوں کہ لوگوں کو عید کے دوسرے روز ہی واپس لوٹناتھا، کیونکہ تیسرے دن دفتر میں حاضری لازمی تھی۔ اس طرح عید کے دوسرے دن دوبارہ مسافر نکل کھڑے ہوئے، نہ سڑکون پر ٹریفک، نہ پبلک ٹرانسپورٹ۔ ہاں البتہ اسلام آباد یا لاہور سے سرکاری گاڑیوں پر اپنے آبائی علاقوں میں عید منانے جانے والوں کی دہری عید تھی، ایک تو گاڑی سرکارکی، اوپر سے پٹرول بھی مفت۔ سرکارکے کھاتے میں عیاشی کا یہ کلچر بہت پھیل چکا ہے اور حکومت اس عمل کا برا نہیں مناتی، حکمران چونکہ خود بے تحاشا مراعات حاصل کر رہے ہوتے ہیں، اس لئے اپنے سرکاری افسران وغیرہ کی عیاشیوں میں دخل اندازی نہیں کرتے، اس معاملے میں کسی حد تک مل کر کھانے کا رجحان موجود ہے۔

عید کے تیسرے روز سرکاری دفاتر اور سکول وغیرہ کھولنے سے حکومت کا زیادہ چھٹیاں نہ کرنے کا خواب پورا نہ ہوا۔ پہلے روز حاضری نہ ہونے کے برابر رہی، بعض سکولوں میں تو بچے سرے سے آئے ہی نہیں، باقیوں میں بھی اتنے آئے جن کا شمار انگلیوں پر کیا جاسکتا ہے۔ سرکاری دفتروں میں مقامی لوگ تو کسی حد تک پہنچ گئے، مگر دوروالوں کی بہت کم تعداد دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر پہنچی۔ جن دفتروں کا تعلق عوامی معاملات ومسائل سے ہے، وہاں سائلوں نے بھی قدم نہیں رکھا، وہ جانتے ہیں کہ متعلقہ افسران واہلکاران موجود ہی نہیں ہونگے، یا تمام لوگ نہیں ہوں گے۔ یوں اگر دور دراز والے حکومت کے خوف سے واپس پہنچ بھی گئے تو وہ سخت پریشانی میں مبتلا رہے ، حکومت کو کوستے رہے، کُڑھتے رہے، جہاں دوسرے نہیں آئے وہاں ہم بھی نہ آتے تو کونسا پہاڑ گر جانا تھا۔ اگلے روز جمعہ ہے اور ہفتہ کو پھر بہت سے ادارے اپنی چھٹی کرتے ہیں۔ یوں جمعرات، جمعہ اور ہفتہ دفاتر اور سکولوں میں حاضری نہایت کم رہے گی، جس سے کوئی کام سرے نہیں چڑھے گا، نہ کسی سائل کا مسئلہ حل ہوگا اور سکولوں میں بہت ہی کم تعداد کی وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جاسکے گا۔ ایسے میں حکومت کو غیر فطری اور سخت فیصلے نہیں کرنے چاہیئں۔ اپنی قوم میں اس قدر احساسِ ذمہ داری موجود نہیں کہ جب دفاتر یا سکول کھل جائیں تو پہلے ہی روز حاضری پوری ہو جائے، یہاں تو اگر دو چار چھٹیاں بھی اکٹھی مل جائیں تو اس کے بعد کئی روز تک حاضری پوری ہوتے لگ جاتے ہیں۔ چونکہ اپنے ہاں ذمہ داری کا مکمل طور پر فقدان ہے، اس لئے لوگوں کو مایوس اور پریشان کرنے کی بجائے بہتر ہوتا ہے کہ چھٹیاں دے دی جائیں، تاکہ لوگ یکسوئی اور خوشی کے ساتھ اپنی عید مناتے ، گھروں کو لوٹنے والے پردیسی اپنے عزیز واقارب سے ملتے ۔ مگر یہاں یہ ہوا کہ نہ عید منائی اور نہ ہی دفاتر میں حاضری ہوئی۔ آئندہ ایسے فیصلے کرتے وقت حکومت کو فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیئے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431675 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.