ایران اور سعودی عرب کی کشمکش اور مسلمانوں کی ذمہ داری

"مسلم امہ حج پر سعودی اختیارات ختم کرنے کا سوچے"یہ بیان ہے ایران کے صدر اور روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای کا۔انہوں نے سعودی انتظامیہ کو مزید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حجاج کو سعودی انتظامیہ بہتر سہولیات فراہم نہیں کرتیں۔یہی بیان ایک سال پہلے بھی خامنہ آئی دہراچکے ہیں۔سعودی عرب کی طرف سے خامنہ آئی کے اس بیان کی شدید مذمت کی گئی۔سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف نے کہا خامنہ آئی نہ صرف مسلم امہ میں انتشار پھیلانا چاہتے ہیں،بلکہ اپنے نفرت انگیز بیانات سے ایرانی حجاج کے لیے بھی مشکلات پیداکررہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں جوسہولیات عام حجاج کو دی گئیں وہی ایرانی حجاج کو بھی دی گئیں۔ایران کی شدت پسندی کی وجہ سے اس سال ایران سے حاجی حج نہیں کررہے۔جب کہ دیگر ممالک سے پھر بھی ایرانی حجاج حج کررہے ہیں۔سعودی انتظامیہ نے اس کا ذمہ دار بھی ایران کو ٹھہرایا ہے۔

جہاں تک سعودی عرب کی طرف سے حجاج کو دی جانے والے سہولیات کی بات ہے تو نہ صرف حجاج بلکہ پوری دنیا کے مسلمان حج انتظامات کو سراہتے ہیں۔تاریخ میں پہلی مرتبہ حرمین شریفین کو وسیع کرنے میں سعودی انتظامیہ نے گراں قدر خدمات انجام دیں اور اب تک یہ توسیعی کام جاری ہے۔ اگر ایران کے ماضی اور حال کا مطالعہ کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایران ہمیشہ سے ایسے اقدامات کرتارہا ہے جس سے امت مسلمہ کی وحدت کو سخت نقصان ہوا۔ماضی میں حج کے موقع پر کئی دفعہ ایران کی طرف سے محض سعودی انتظامیہ کو آڑ بناکر حرمین شریفین میں دراندازی کی کوششیں کی گئیں،پھر فلسطین،لبنان،کویت،عراق میں ایران نے کھل کر سازش کی۔چند دن پہلے عراق میں سعودی سفیر کے قتل کی سازش بھی ایران نے کی۔بظاہر دنیا کو یہ باور کراویا جاتاہے کہ ایران اسرائیل اور امریکہ کا دشمن ہے اور مرگ بر امریکہ اور مرگ براسرائیل کے فلگ شگاف نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔لیکن پوری دنیا جانتی ہے 80ء کی دہائی میں عراق کویت جنگ میں ایران نے امریکہ اور اسرائیل سے اسلحہ خریدا۔ابھی حال ہی میں یہ انکشاف ہوا کہ ایران اسرائیل سے ایسے مسافر طیارے خرید رہا ہے جس میں جنگجو بھر بھر کر شام بھیجے جائیں گے،یہ انکشاف بھی حیران کن ہے ایران پاکستان سے بھی لوگوں کو اپنے ملک بلا بلاکر نیشنلٹی دیتا ہے اور پھر انہیں شام بھیج کر لڑواتاہے۔شام کی حالیہ خون ریزی میں اب تک سینکڑوں ایرانی اورپاکستانی جنگجو مارے گئے ہیں،بلکہ ایرانی فوج کے دو سو سے زیادہ بڑے بڑے جرنیل بھی مارے گئے ہیں۔پچھلے سال حج انتظامات میں بھگدڑ کے پیچھے بھی ایرانی سازش سامنے آئی،اور پھر ایران میں سعودی عرب کے سفارتخانہ جلانے کے بعد ایران کھل کر سعودی عرب کے خلاف میدان میں آگیا۔

اگر مشرق وسطی کی صورتحال کا بغورجائزہ لیا جائے،تو ایران نہ صرف سعودی عرب بلکہ یمن،عراق،شام،بحرین،قطر،کویت اور ترکی کے خلاف بھی منظم طریقے سے پراکسی وار شروع کیے ہوئے ہے۔بلکہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان میں بھی ایران کی دارندازیاں سامنے آنے لگی ہیں۔ایران کی یہ پراکسی وار ایرانیت یا وطنیت یا قومیت کے نام پر نہیں ہے بلکہ اس مخصوص فکر کے نام پر ہے جس کی منادی کرانے پر وہ پوری دنیا کی شیعیت کو اپنے گرداکٹھا کرلیتی ہے۔آج دنیا میں سب سے اہم وطن اور قومیت کو سمجھاجاتاہے۔اسے کے دفاع کی بات کی جاتی ہے اور اسے کے لیے قربانیاں دینے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں،لیکن اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قومیت(مومنین سارے بھائی ہیں) میں مسلمانوں کو پرویا تھا اس کو مسلمان بھول گئے،اس کے لیے کوئی جان دیتا ہے،نہ اس کے دفاع کے لیے کسی کا خون گرم ہوتاہے۔یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ جاہلیت کے جس تعصب اور وطنیت کو اللہ کے محبوب نے ختم کیا تھا، آج پھر دنیا میں مسلمان محض لسانی،فکری،صوبائی اور قومی عصبیت کے نام پر ایک دوسرے کے حریف ہوگئے۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان دشمنون کے لیے ترنوالہ ثابت ہورہے ہیں اور دشمن کبھی عراق کی اینٹ سے اینٹ بجاتا ہے تو کبھی افغانستان،لیبیا،شام اور یمن کو باہمی لسانی،وطنی گروہی جھگڑوں میں الجھا کر خون ریزی کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔

مذہبی اور فقہی اختلافات شروع سے امت میں چلتے آرہے ہیں۔لیکن جس مذہبی فکر کے نام پر ایران کی طرف سے امت مسلمہ میں انتشار پیدا کیا جارہاہے وہ قابل غور ہے۔عالم اسلام بالخصوص پاکستان کے عوام کو اس سلسلے میں غور وفکر کرنا ہوگا۔سعودی عرب اور ایران کی حالیہ کشمکش محض سیاسی نہیں ہے،یہ دراصل اس فکر کو وسیع کرنے کا ایک سیاسی حربہ ہے جس کی ترویج ایران آج اسلحے کے زور پر بڑی ڈھٹائی سے کررہاہے۔بھلا شام اور یمن میں ایرانی کمانڈرز کا مارا جانا آخر کس مقصد کے لیے ہے؟امت مسلمہ کو محض اپنی مخصوص فکر کی بھینٹ چڑھا کر خون ریز آگ میں جھونکنا قطعا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔جس طرح چند شدت پسند اسلام کا نام لے کر محض اپنی مخصوص فکر کے لیے بے گناہوں کا قتل کرتے ہیں،غیرمسلموں کو پکڑ پکڑ مارتے ہیں،بالکل اسی طرح ایران بھی اپنی مخصوص فکر کے لیے نہ صرف امت مسلمہ کو باہم لڑارہاہے بلکہ دنیا کے امن وامان کو بھی پارہ پارہ کررہاہے۔ایک مسلمان کے لیے سب سے پہلے ترکی ہے،نہ پاکستان،نہ سعودی عرب،نہ ایران اور نہ افغانستان،مسلمان کا اولین ہدف اسلام اور ایمان ہے۔یہی معیار ہے سب مسلمانوں کا،یہی ہماری پہچان ہے اور یہی ہمارا ماٹو ہے۔پوری امت مسلمہ کو وطنیت،قومیت،لسانیت،اور عصبیت سے بالا تر ہوکر اپنی اس پہچان اور ماٹو کو زندہ کرنا ہوگا۔اس کے لیے متحد ہوکر لڑنا ہوگا،اس پہچنان اور ماٹو کو بدلنے والے لوگوں کو کیفرکردار تک پہچنانا ہوگا۔کیوں کہ اللہ نے ہماری پہچان اسی نام سے کروائی کہ اسلام کے سارے فالورز مسلمان ہیں،پھر سارے مسلمان باہمی طور پر بھائی بھائی ہیں۔اور اس بھائی چارگی کے قیام اور دفاع کا درس رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔اس لیے ہمیں اپنا معیار اور ہدف اسلام کو بنانا ہوگا،اسی کے لیے ہمیں جدوجہد کرنا ہوگی اور اسی کے دفاع کے لیے قربانیاں دینی ہوں گی۔لیکن یادرہےجوبھی اسلام کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرے چاہے وہ ایران ہو یا کوئی اور اس کے خلاف یک جا ہوکر لڑنا ہوگا۔ہمارا اول وآخر نعرہ صرف اسلام اور مسلمان ہو۔کونسا اسلام اور کونسے مسلمان ؟؟؟وہی جس کی پہچان ہادی عالم نے بتائی "ماانا علیہ واصحابی"کہ ہدایت کا راستہ وہی ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے۔
 
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32219 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.