کانگو اور...حکومت

کانگو ایک جان لیوا مرض ہے جو نئی بیماری نہیں پاکستان میں اس کا وجود2002 میں آیا،سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک اس مرض سے 15 افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں جبکہ باخبر ذرائع کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد درجنوں میں ہے ،کانگو وائرس نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اس کا ڈر صرف عوام میں نہیں بلکہ ڈاکٹرز میں بھی ہے،دیکھا جائے تو کانگو وائرس کی 4 اقسام ہوتی ہیں مگر جو کانگو وائرس کا شکار ہو جائے اس کے جسم میں انفیکشن پیدا ہو جاتا ہے جس سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے اور خون اس قدر بہتا ہے کہ انسان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔کانگو وائرس زیادہ تر افریقی، جنوبی امریکہ ،مشرقی یورپ ،ایشیاء اور مشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔جیسا کہ عید الاضحی آنے کو ہے اس لئے ہمیں اب زیادہ سے زیادہ اختیاطی تدابیر اختیار کرنا ہونگی کیونکہ حکومتی توجہ زیادہ تر کانگو سے ہونے والی ہلاکتوں کی خبروں کو روکنے اور چند جانوروں پر سپرے کر کے تصاویر اخبارات میں لگانے پر ہے،حکومت کے اس دعوے میں کوئی صداقت نہیں کہ مویشی منڈی آنے والے ہر جانور پر کانگو بچاؤ سپرے کیا جا رہا ہے۔کانگو وائرس کے جراثیم جانوروں کی کھال پر پائے جاتے ہیں جو چپک کر خون چوستے رہتے ہیں اور اس طرح یہ بیماری یا وائرس پروان چڑھتا جاتا ہے،کانگو وائرس کو چھوت کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔اگر کانگوکا حملہ کسی انسان پر ہوجائے تو اسے تیز بخار ہوجاتا ہے ،سر درد،قے بھوک کی کمی،کمزوری ،غنودگی آنکھوں کی سوجن ہو جاتی ہے،وائٹ سیل بھی کم ہو جاتے ہیں،خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور آخر میں یہ وائرس پھیپھروں پر حملہ کرتا ہے جس کے بعد گردے اور جگر بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں،کانگو سے سب سے زیادہ ہلاکتیں بلوچستان میں ہوئیں۔میں تو یہی کہوں گا کہ کانگو سے ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ دار صرف اور صرف حکومت ہے کیونکہ حکومت نے عوام میں آگاہی بیدار ہی نہیں کی،آپ کا مویشی منڈی تو جانا ہو گا ہی تو وہاں ایک چیز ضرور نوٹ کیجئے گا وہ یہ کہہ کتنے جانوروں کو سپرے کیا جارہا ہے،کتنے جانوروں کی کھال صاف ہے،کتنے جانوروں کے پاس موجود چارہ کھانے اور پانی پینے کے قابل ہیاور جانور فروخت کرنے والوں کی کیا حالت ہے،اب جب درجنوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں حکومتی اقدامات بھی نہ ناکافی ہیں تو اس میں ہمیں چاہئے کہ خود بھی جتنا ہو سکے اس بیماری سے بچ سکیں ،جانوروں کے ایک ڈاکٹر سے بات ہو رہی تھی تو کانگو سے بچاؤ اور اختیاطی تدابیر پر بحث ہونے لگی ،ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ حکومت نے نہ پہلے کچھ کیا نہ آگے کچھ کرے گی،جہاں کہیں سپرے ہو بھی رہے ہیں وہ بھی نہ ہونے کے برابر ہے،عید قرباں قریب آتے ہی کانگو وائرس کا خطرہ بڑھ رہا ہے،مویشی منڈی میں جانوروں کی ویکسی نیشن اور کیڑے مکوڑے دور بھگانے والی ادویات کے ذریعے صفائی ستھرائی کی ضرورت بھی بڑھ رہی ہے،ساتھ ہی مویشی منڈی جانے والے شہریوں کو بھی غیر معمولی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے،بہاولپور میں کانگو وائرس سے متاثرہ شخص کا علاج کرتے ڈاکٹر کی ہلاکت کے بعد حکومت نے کچھ ہوش کے ناخن لئے مگر جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے حکومت کا اس طرف دھیان کم سے کم ہوتا جا رہا ہے ،شاید حکومت کی ترجیح سیاسی مخالفین سے نمٹنا ہے نا کہ عوام کو اس وبائی مرض سے چھٹکارہ دلانا،حکومت کو چاہئے کہ کانگو وائرس سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹے کہیں یہ نہ ہو لینے کے دینے پڑ جائیں،ڈینگی کی دفعہ تو سری لنکا سے ٹیمیں آگئی تھیں انہوں نے اچھی خاصی محنت کر کے مرض سے نجات بھی دلا دی تھی مگر اب کی بار تو حکومت نے یہ بھی نہیں سوچا کہ مرض نے شدت اختیار کی تو کس کو پکارنا ہے کس طرف جانا ہے،خیر حکومت تو اپنا فرض ادا کرنے میں مکمل ناکام ہو چکی ہے ہمیں بذات خود کچھ کرنا چاہئے بچوں ،بڑوں اردگرد رہنے والوں ،جاننے والوں کو آگاہی دینا ہوگی کہ کانگو جان لیوا مرض ہے ،جانوروں کو خریدتے وقت تھوڑی اختیاط کرنی چاہئے ،حکومت ایک لحاظ سے کامیاب بھی ہوئی ہے ایک تو حکومت نے اشتہارات دے کر میڈیا مالکان کو خاموش کروادیا ہے اگر کوئی خبر بنتی بھی ہے تو اسے رکوا دیا جاتا ہے اس کے باوجود اگر کوئی اخبار سچی خبر لگا دے تو اس اخبار کے اشتہار بند کر دیئے جاتے ہیں ،حکومت کو چاہئے کہ جتنا وقت اور پیسہ اشتہارات پر خرچ کرتی ہے اس سے زیادہ نہیں تو اتنا وقت اور پیسہ کانگو کے خاتمے پر لگا دیں تو حقیقت میں کانگو کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائیگا۔حکمرانوں نے چیک اپ بھی کرانا ہو تو بیرون ملک چلے جاتے ہیں مگر پاکستانی عوام کے ساتھ ہسپتالوں میں ایسا سلوک کیا جاتا ہے جیسا شاید تھانے میں مجرم کے ساتھ بھی نہیں ہوتا اس لئے حکمرانوں کو چاہئے کہ اور کسی کو تو نہیں اپنے ووٹرز کو اپنی فیملی سمجھیں اپنے بچے سمجھیں کیونکہ ہم عوام ہیں تو آپ ہیں،اﷲ پاک حکمرانوں کو نیکی پر چلنے کی ہدایت دے(آمین)
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ghulam Raza
About the Author: Ghulam Raza Read More Articles by Ghulam Raza: 19 Articles with 11438 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.