بکرا عید اور ۔ازدواجی ٹوٹکے

میرے دوست شیخ مرید نے پچھلے سال ہی سوچ لیا تھا کہ وہ ازدواجی مراسم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگلی عید پر ٹوڈ مارنے والا بکرا خریدے گا۔ ازدواجی خوشحالی کے لئے وہ سال بھرخود قربانی کا بکرا بنا تھا۔قربانی سے پہلے کئی بار قربانی دی تھی۔مرید اور نصیبو تھے تو میاں بیوی لیکن ان میں سوکنوں والا پیار تھا۔ وہی پیار جو ۔بھیڑ اور بھیڑئیے میں ہوتا ہے۔ڈوئی ، کڑچھی، بیلنا، چمٹا، کفگیر وغیرہ ۔اکثر شیخ ہاوس میں اڑن کھٹولے بنے رہتے ۔محلے دار بھی اکثر اُن کی لڑائی میں ٹپک پڑتے کیونکہ ’’چل دی لڑائی پاک ہوندی اے‘‘۔

مار خور بکرا کی تصویر

میرے دوست شیخ مرید نے پچھلے سال ہی سوچ لیا تھا کہ وہ ازدواجی مراسم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اگلی عید پر ٹوڈ مارنے والا بکرا خریدے گا۔ ازدواجی خوشحالی کے لئے وہ سال بھرخود قربانی کا بکرا بنا تھا۔قربانی سے پہلے کئی بار قربانی دی تھی۔مرید اور نصیبو تھے تو میاں بیوی لیکن ان میں سوکنوں والا پیار تھا۔ وہی پیار جو ۔بھیڑ اور بھیڑئیے میں ہوتا ہے۔ڈوئی ، کڑچھی، بیلنا، چمٹا، کفگیر وغیرہ ۔اکثر شیخ ہاوس میں اڑن کھٹولے بنے رہتے ۔محلے دار بھی اکثر اُن کی لڑائی میں ٹپک پڑتے کیونکہ ’’چل دی لڑائی پاک ہوندی اے‘‘۔ نصیبو شادی کے بعد کافی موٹی ہوگئی تھی ۔ اور مریدکی صحت پرویز خٹکی تھی ۔ چونکہ وہ اچانک اینمل لور تھا۔ اس لئے جانتا تھاکہ جانورپالنے والےلوگ لِسے (کمزور) ہی ہوتے ہیں ۔بیوی اور بچے ہی اس کی دنیا تھے ۔لیکن دنیا میں سکون نہ تھا۔اُس کا عقیدہ ۔ان شاستروں جیسا تھا جو سمجھتے ہیں دنیا گائے کے سینگوں پر قائم ہے۔ وہ سر ہلاتی ہے تو بھونچا ل آتے ہیں۔گھر میں کئی زلزلے آ چکے تھے ۔ نصیبو میں یہ دوسری’’چرندی‘‘ صفت تھی۔ گائے اوپر بیٹھ جائے ۔تو کوئی رستم بھی نیچے سے نہیں نکل سکتا۔دشمن کئی خانگی جنگوں میں یہ ہتھیار بھی چلا چکا تھا۔یوں گائے اور قربان شدہ بکرا پہلے سے گھر میں موجود تھے۔لیکن قربانی کے لئے مرید کا ٹارگٹ بڑی ٹوڈ ۔والا جانور تھا۔مار خور یا اڑیال جیسا۔جسے دیکھتے ہی دشمن کانپنے لگے ۔

مار خور ۔پاکستان کی خفیہ ایجنسی(آئی ایس آئی ) کا نشان ہے۔دشمن کو گُپھا سے نکال کر دانت کھٹے کرنے کی ذمہ داری۔اسی ایجنسی کے پاس ہے۔ مار خور ۔دنیا کا سب سے بڑا پہاڑی بکرا ہے۔پانچ فٹ تک لمبے سینگوں والا۔یہ پاکستان کا قومی جانور بھی ہے۔کہتے ہیں کہ سانپ۔مار خور کی مرغوب غذا ہے۔ سانپ کھا کے وہ جگالی کرتا ہے۔ جھاگ زمین پر گرِ کے سیاہ رنگ کا سخت پتھر بن جاتی ہے۔ جسے منکا کہتے ہیں۔جوگی اسی منکے سے سانپ ڈسے کا علاج کرتا ہے۔ مارخور گلگت بلتستان، چترال، نیلم اور وادئ ہنزا میں پایا جاتا ہے۔ اس کا شکار کرنا ہو تو ایک پرمٹ تقریبا ایک کروڑ روپے میں بنتا ہے۔مرید کی مشکل یہ تھی کہ مارخورمنڈیوں میں بکتا نہیں تھا اور پرمٹ پر وہ کنجوس کروڑوں خرچ نہیں سکتا تھا۔
ایک کنجوس نےخوش ہو کر نوکر کو انعام دینے کاوعدہ کیا۔ لیکن مکر گیا۔ نوکر جب سامنے آتامالک گردن گھما لیتا ۔ایک دن دونوں قربانی خریدنے چلے گئے۔مالک:شرفو ۔ اس اونٹ نے گردن کیوں موڑ رکھی ہے ۔؟

شرفو:مالک۔شائد اس نے کسی کو انعام دینے کا وعدہ کررکھاہو۔؟
مرید بھی بکرا ۔خریدنے کاوعدہ کرکے گھر سے نکلا تھا ۔ پچھلی عید پر وہ کنجوس بیل لینے گیا تو فریج لے آیا تھا تاکہ گوشت کو ٹھکانے لگا سکے۔پھر بیل خرید کر لا یا تو نصیبو روٹھ کر میکے چلی گئی۔ کیونکہ مرید چاہتا تھا کہ پٹہ، گانی، نتھ اور جھانجھرپہلے نصیبو پہن کر دکھائے ۔اس بار تونصیبو نے حلف لیا تھا کہ’’وہ جو لینے جا رہا ہے ۔ وہی لائے گا‘‘۔ اور مرید حلف کیوں نہ دیتا وہ تو شادی کے بعد سے کٹہرے میں ہی کھڑا تھا۔ محلے میں نکلا تو وہاں ملباری بربری، بیتل، ڈیرہ دین پناہ اورٹیڈی بکرے ۔کجلے ،چھترے، مینڈھےاوردُنبے ۔ ساہیوال، چکوال،تلہ گنگ ، پوٹھوہار اور فارمی نسل کے بیل سمیت کئی جانور کھڑے تھے۔لیکن بیمار بیمار۔روڈے روڈے۔مرید نے ہردوندے،چوگے،چھگے کو۔ٹوڈ ۔آفر کی ۔ منہ سے پُچ، پُچ اور پھررر،بھررر کی آوازیں نکالیں ۔ماتھے پر ہاتھ مار ما ر کے کئی بارریورس کیا ۔لیکن مایوس رہا۔فائٹر بُل جیسا بکرا ساشے پیک میں دستیاب نہیں تھا۔ پنج کلیانہ کوئی نہ نکلا۔بدلہ لینے کا یہ سالانہ موقع تھا ۔شکست کے خوف سے اس کے دانت کھٹے ہو رہے تھے ۔ اسی پریشانی میں وہ بکرامنڈی پہنچ گیا۔ منڈی میں تگڑے جانوراس کی خرید سے باہر تھے۔اور کمزوربکرے ٹچ موبائل کی طرح ہاتھ لگاتے ہی ہلنے لگتے ۔

امجد اسلام امجد لکھتے ہیں کہ ’’ایک صاحب نے کافی کوشش کے بعد بکرا منتخب کیا۔ بکرے کی نسل، شکل و صورت، خاندان اور ماضی ومستقبل کے بارے میں اتنے سوال کئے جو لوگ ہونے والے داماد کے بارےمیں بھی نہیں پوچھتے۔ بیوپاری ہر سوال کا جواب دیتا رہا۔ تمام انکوائری کے بعد خریداربولا۔’’میاں۔ سب ٹھیک ہے مگر اس کے سینگ بہت چھوٹے ہیں ‘‘۔ توبیوپاری جل کے بولا۔ معاف کیجئے گا۔ آپ کو قربانی کرنی ہے یا اس پر کپڑے لٹکانے ہیں‘‘۔۔۔مرید کو اچانک ایک دھلائی کے برابر کپڑے سکھانے والا بکرا مل گیا تھا۔منہ سے دونداور سینگوں سے پورا چھگا ۔گھر میں نصیبو کو دونوں بکروں کا شدت سےانتظار تھا۔اچانک اسے کچھ یاد آیا۔ پیٹی سے نویں نکوربیڈ شیٹ نکالی۔جس کے غلاف پرگلاب رنگی دھاگےسے’خوش آمدید‘اور چادر پر میچنگ رنگ سے دل کاڑھا ہو ا تھا۔مرید کے لئے سر پرائز۔بستر تیارتھا۔لیکن ایک سرپرائزمرید کے پاس بھی تھا۔اسے ساشے پیک میں بُل ۔مل گیا تھا۔نصیبو خوشی میں بکرا ۔آگیا۔بکرا ۔ آگیا۔چلا رہی تھی۔ لیکن بکرے نے نصیبوکو ایسی ٹوڈ۔ماری کہ سواگت ادھورا۔ رہ گیا۔ دم ۔ پُخت ہوچکاتھا ۔مرید اسے طفل تسلیاں دے رہا تھا کہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔

اللہ کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز وقف کر دینا ہی قربانی ہے۔پیار کامفہوم نکل جائے تو قربانی سارا فلسفہ بے معنی ہے۔ برائلر کو ہم سارا سال قربان کرتے ہیں لیکن اسے عیدالالضحی جتنی عزت نہیں دیتے۔بکرا چند روز میں جنت میں چلا جائے گا۔پھر ہم اسے یاد کرتے رہیں گے لیکن نصیبوکہاں بہلنے والی تھی اسے تو صرف ٹکریاد تھی۔مُنے کی پیدائش کے بعد سے ربڑی بوتل الماری میں بے کار پڑی تھی۔ نصیبونے بوتل میں کھولتا پانی ڈالا۔پہلو سے جوڑی اورخوش آمدید والے تکئیے پرلیٹ رہی۔رات بھر اس نے اوکھے اوکھے ساہ لئے اور مرید نے سوکھے سوکھے۔محنت رنگ لے آئی تھی۔تیر نشانے پر لگا تھا۔بکرا ۔اسےپیار ا لگنے لگا تھا۔وہ ابھی تک کلہ توڑ توڑ کےیوں بھاگ رہا تھا۔گویا ہفتوں واپس نہیں لوٹے گا۔مرید بکرےکی پیٹھ سہلاتا ، اسے توڑ توڑکر شٹالا اور لُوسن کھلاتا۔ لیکن بکرا تھوڑی دیر بعد ہی ممیانے لگتا ۔اسی پیار کی وجہ سےمریدنےبچپن کے بعد اب بکرے کی چانپوں پر مہندی سے عید مبارک لکھا تھا۔ اورسوچنے لگا۔یہ پیارا۔ بکرا ذبحہ ہو گیا تو قربانی کی اصل روح ۔زندہ ہوجائے گی۔لیکن اگلے سال کیا ہوگا۔ مرید کو چھریاں نظر آ رہی تھیں۔

نصیبو کے بچپن میں اُس کے ابا ایک بار بہاولپوری نسل کے ناچے بکرے لائے تھے۔ رونق بھی لگی رہی اور قربانی بھی ہو گئی تھی۔ ناچے۔ چاروُ ۔ ہوتے ہیں گلے میں پٹہ لپیٹ کر چھوڑ بھی دو۔پھر بھی دور نہیں جاتے۔ اُسےتو ناچوں کاہی انتظار تھا۔لیکن مریدسے شکوہ بھی کیسا۔؟ اب باری تو مرید کے ناچنے کی تھی۔ ۔قصائی ہمیشہ نصیبو کے میکے سے آتا تھا ۔اس نےاماں کوفون کرکے کہا کہ قصائی کو میری طرف بھجوا دیں۔کچھ سمجھانا ہے ۔پچھلی عید پر گوشت خراب کر گیا تھا۔قصائی آیا تو نصیبو نے اسےایڈوانس معاوضہ پکڑا یا اور بولی :مرید سے الگ رقم بھی ملے گی۔
قصائی:لیکن باجی کرنا کیا ہے۔ ؟
نصیبو: تم بس بکرے کی رسی کھول دینا۔ مرید اور بکرا۔ سڑکوں پر بھاگتے پھریں تو مزا آجائے۔
ajmal malik
About the Author: ajmal malik Read More Articles by ajmal malik: 76 Articles with 95173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.