زیارتِ روضۂ رسول ﷺ کے آداب

سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، تاجدار مدینہ، سیدنا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کے روضہ کی زیارت بالاجماع اعظم قربات اور افضل طاعات میں سے ہے اور درجات کے لیے سب وسائل سے بڑا وسیلہ ہے۔ بعض علماء نے زسے اہلِ وسعت کے لیے قریب واجب کے لکھا ہے اور صحیح یہ ہے کہ عورتوں کے لیے بھی روضۂ اطہر کی زیارت بلاکراہت مستحب ہے، جب کہ اس کے شرائط کے ساتھ ہو۔

زیارت کے فضائل
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارتِ کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔

ایک روایت میں ہے:
جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی، جو مکّہ یا مدینہ میں وفات پاگیا تو وہ قیامت میں عذاب سے بے خوف ہوکر اٹھے گا۔

مدینہ منوّ رہ کا سفر
جب مدینہ منوّ رہ کی طرف روانہ ہوتو تمام راستے میں کثر ت سے درود شریف پڑھتا رہے اور خوب ذوق و شوق پیدا کرلے اوراظہارِ محبت میں کوئی کمی نہ کرے، حتیٰ کہ اگر خود یہ کیفیت پیدا نہ ہو توبہ تکلف پیدا کرے۔ راستے میں آنے والے متبرک مقامات و مقابر وغیرہ کی بھی زیارت حتی المقدور کرتا چلے، خصوصاً مسجدِ حرام سے ۶۱؍ کلو میٹر کے فاصلےپر مقامِ سرف میں واقع اُمّ المؤمنین حضرت میمونہؓ کی قبر پر ایصالِ ثواب کرتا ہوا گزرے۔

جب مدینہ منوّ رہ کے قریب پہنچے تو یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھَمَّ ھٰذَا حَرَمُ رَسُوْلِکَ، فَاجْعَلْ دُخَوْلِیْ وِقَایَۃً مِنَ النَّارِ، وَاَمَانًا مِّنَ الْعَذَابِ وَسُوْءِ اْلحِسَابِ۔

مدینہ منوّ رہ میں داخل ہونے سے قبل اگر ممکن ہو تو غسل کرلے، ورنہ وضو کرلے اور نئے یا دُھلے ہوئے کپڑے پہن لے اور جب داخل ہونے لگے تو یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللہِ، مَا شَآءَ اللہ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ، رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَصِیْرًا، اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ، وَارْ زُقْنِیْ مِنْ زِیَارَۃِ رَسُوْلِکَ صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمْ، مَارَزَقْتَ اَوْلِیَآءِکَ وَاَھْلِ طَاعَتِکَ، وَانْقِذِیْ مِنَ النَّارِ وَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَا خَیْرَ مَسْئُوْلٍ، اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لَنَا فِیْھَا قَرَاْرًا وَّرِزْقاً حَسَناً۔

نمازوں کا ثواب
مدینہ میں قیام کو غنیمت جانے اور جب تک وہاں کی حاضری مقدر ہواس کا اکثر وقت مسجدِ نبویﷺ میں بہ نیتِ اعتکاف گزارے اور پنج گانہ نمازیں جماعت کے ساتھ بلکہ تکبیر ِاولیٰ اور اوّل صف کے اہتمام کے ساتھ ادا کرے، مسجدِ نبویﷺ میں نماز ادا کرنے پر بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: میری مسجد میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ۵۰۰۰۰؍نمازوں کے برابر ہے۔

ایک حدیث میں ہے:
جو شخص مسجد نبویﷺ میں مسلسل ۴۰؍ فرض نمازیں پڑھے اس کے لیے جہنم سے چھٹکارا اور عذاب سے نجات لکھ دی جاتی ہے اور وہ نفاق سے بری ہوجاتا ہے۔

مسجدِ نبوی ﷺ میں حاضری کی نیت
جب مدینہ منورہ میں جانا ہو تو بہتر یہ ہے کہ نیت زیارتِ قبر مطہرہ کی کرے، تاکہ مصداق اس حدیث کا ہوجائے کہ جو شخص میری زیارت کو آئے، مجھ پر اس کی شفاعت واجب ہے۔

جب مدینہ منورہ میں داخل ہوجائے تو حتی المقدور، سب سے پہلے مسجدِ نبوی میں حاضر ہو البتہ عورتوں کے حق میں،مَردوں کی کثرت سے بچنے کی غرض سے، رات میں جانا بہتر ہے۔

داخلے کے وقت یہ دعا پڑھے:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَّ صَحْبِہٖ وَسَلِّمْ، الَلَّھُمَّ اغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ، وَافْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ۔
اس دعا کو نہایت خشوع وخضوع، عاجزی وانکساری کے ساتھ پڑھتے ہوئے، داہنے پاؤں سے مسجد میں داخل ہو، اگر ممکن ہو تو بابِ جبریل سے اندر داخل ہو، یہ زیادہ بہتر ہے۔

ریاض الجنہ میں
مسجد میں داخل ہونے کے بعد اِدھر اُدھر دیواروں وغیرہ کو نہ دیکھتا رہےبلکہ خوب ادب کا لحاظ رکھے اور فرض نماز کی جماعت کا وقت ہو تو اس میں شریک ہو جائے، ورنہ ریاض الجنہ میں ۲؍رکعت تحیہ المسجد پڑھ کر دعا کرے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے گھر (یعنی موجودہ قبرِ اطہر کا مقام) اور میرے مبنر کے درمیان کا حصہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ۔

اگر ریاض الجنۃ میں نماز کا موقع نہ ہو تو پھر روضے میں جہاں جگہ ملے نفل پڑھ لے اور سلام پھیر کر خدا کی حمد و ثنا اور شکر ادا کرے اور زیارت کے قبول ہونے کی دعا کرے اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ سجدۂ شکر بھی کرلے کہ حق تعالیٰ نے اس نعمتِ عظمیٰ سے نوازا۔ مگر بہتر یہ ہے کہ دو رکعت شکرانہ کی نیت سے پڑھ لے صرف سجدہ نہ کرے، گوجائز ہے۔

روضۂ اطہر ﷺ پر
ریاض الجنۃ میں نماز و دعا سے فراغت پر نہایت ادب کے ساتھ مرقدِ اطہر ﷺ پر آئے اور دل کو تمام دنیوی خیالات سے فارغ کرکے، قِبلے کی طرف سے پشت کرے اور ذرا بائیں جانب مائل ہو، تاکہ روئے انور ﷺ کے سامنے ہوجائے۔ پھر یہ تصوّ ر کرے کہ حضرت محمدﷺ قبرِ مبارک میں قِبلے کی طرف چہرۂ مبارک کیے ہو ئے لیٹے ہیں اور جان رہے ہیں کہ فلاں شخص حاضر ہوا ہے، پھر درمیانی آواز سے یوں درود وسلام کا نذرانہ پیش کرے۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلْقِ اللہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَۃَ اللہِ مِنْ خَلْقِ اللہِ، اَلسّلَامُ عَلَیْکَ یَا حَبِیْبَ اللہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ وُلِدَ آدَمَ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرْکَاتُہٗ، یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنِّیْ اَشْھَدُ اَنَّ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْھَدُ اَنَّکَ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، اَشْھَدُ اَنَّکَ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ، وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ،وَ نَصَحْتَ الْاُمّۃَ، وَکَشَفْتَ الْغُمَّۃَ، فَجَزَاکَ اللہُ خَیْراً،جَزَاکَ اللہُ عَنَّا اَفْضَلَ مَاجَزیٰ نَبِیّاً عَنْ اُمَّتِہٖ، اَللّٰھُمَّ اَعْطِ لِسَیِّدِنَا عَبْدِکَ وَرَسُوْلِکَ،مُحَمَّدَ الْوَسِیْلَۃَ وَالْفَضِیْلَۃَ وَالدَّرْجَۃَ الرَّفِیْعَۃَ، وَابْعَثْہُ مَقَاماً مَحْمَودَ الَّذِیْ وَعَدْتَّہٗ، اِنَّکَ لاَتُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، وَاَنْزِلْہُ الْمَنْزِلَ الْمُقَرَّبَ عِنْدَکَ، اِنَّکَ سُبْحَانَکَ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔

اس کے بعد آپ کے وسیلےسے اللہ تعالیٰ کے حضور خوب دعائیں کرے اور آپﷺ سے شفاعت کی درخواست ان الفاظ میں کرے:
یَا رَسُوْلَ اللہِ اَسْئَلُکَ الشَّفَاعَۃَ، وَاَتَوَسَّلُ بِکَ اِلَی اللہِ فِیْ اَنْ اَمُوْتَ مُسْلِماً عَلٰی مِلَّتِکَ وَسُنَّتِکَ۔

سلام کے الفاظ میں جس قدر چاہے زیادتی کر سکتا ہے، مگر سلف کا معمول اختصار تھا اور اختصار ہی کو مستحسن سمجھتے تھے، اگر کسی کو یہ پورے الفاظ یاد نہ ہوں تو کم از کم اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ کہے۔
کسی اور کا سلام پیش کرنا

اس کے بعد جس عزیز کا سلام کہنا ہو، یوں عرض کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ مِنْ فُلَانِ ابْنِ فُلَانٍ یَسْتَشْفِعُ بِکَ اِلٰی رَبِّکَ۔
اگر بہت سے لوگوں نے سلام عرض کرنے کو کہا ہے اوران کے نام یاد نہ رہیں، تو سب کی طرف سے اس طرح سلام عرض کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہِ مِنْ جَمِیْعِ مَنْ اَوْصَانِیْ بِالسَّلَامِ عَلَیْکَ۔

حضرت ابو بکرؓ پر سلام
سرکارِ دو عالم ﷺ کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے بعد ایک ہاتھ کے بقدر، داہنی طرف کو ہٹ کر سیدنا حضرت صدیق اکبرؓ پریوں سلام پیش کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا خَلِیْفَۃَ رَسُوْلِ اللہِ، وَثَانِیَہٗ فِی الْغَارِ، وَرَفِیْقَہٗ فِی الْاَسْفَارِ، وَاَمِیْنَہٗ عَلَی الْاَسْرَارِ، اَبَا بَکْرِ الصِّدِّیْقِ، جَزَاکَ اللہُ، عَنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْراً۔
یہاں بھی الفاظ میں کمی زیادتی کا اختیار ہے۔

حضرت عمرؓ پر سلام
حضرت صدیق اکبرؓ پر سلام پیش کرکے ایک ہاتھ مزید داہنی طرف کو ہٹ کر سیدنا حضرت فاروق اعظمؓ پر سلام پیش کرے:
اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا اَمِیْرَ الْمَؤْمِنِیْنَ عُمَرَ الْفَاَرُوْقَ الَّذِیْ اَعَزَّاللہُ بِہِ الْاِسْلَامَ، اِمَامَ الْمُسْلِمِیْنَ، مَرْضِیّاً حَیّاً وَمَیِّتاً، جَزَاکَ اللہُ عَنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ صَلَی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْراً۔

اگر روضۂ اطہر ﷺ تک بھیڑ کی وجہ سے پہنچ سکناممکن نہ ہو تو مسجد نبویﷺ کے کسی بھی حصّے میں کھڑا ہو کر سلام پیش کرسکتا ہے۔

اس موقع پراپنی ذات سے کسی کو تکلیف دے اور نہ خود بہت تکلیف برداشت کرے۔

مکرّر حاضری
درود و سلام سے فراغت پر دوبارہ بارگاہ سرورِ کائنات ﷺ کے سامنے حاضر ہوکر اللہ تعالیٰ کی خوب حمد و ثنا کرے اور آپ ﷺ پر درود شریف پڑھے اور آپ کے توسل سے دعا کرے اور شفاعت کی درخواست کرے اور ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے، اپنے والدین، اساتذہ، مشائخ، احباب، اقارب اور سب مسلمانوں کے لیے خوب خوب دعائیں کرے۔

یاد آجائے تو اس گنہ گار راقم الحروف(ندیم احمد) کی جانب سے بھی سلام پیش کرکے دعا فرمائیں، اس سیاہ کار پر بڑا احسان ہوگا، اللہ پاک اس کا بہترین بدلہ آپ کو دونوں جہاں میں نصیب فرمائیں۔ھل جزاء إلاحسان إلا إلاحسان!

دو رکعت
درودو سلام اور دعا کے بعد اُستوانہ ابولُبابہؓ کے پاس آکر دو رکعت نفل پڑھ کر دعائیں مانگے، اس جگہ پر توبہ کی قبولیت قرآنِ کریم سے ثابت ہے، پھر روضۂ رسول میں آکر نفل پڑھے اور نماز و دعا جس قدر ہوسکے کرے، پھر منبر کے پاس آکر اور اس کے بعد حنانہ اور باقی ستونوں کے پاس دعا و استغفار کرے۔

قابلِ زیارت مقامات
جنت ا لبقیع اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی زیارت بھی مستحب ہے، حسبِ موقعہ ان کی زیارت سے بھی ضرور استفادہ کرے۔
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 308630 views (M.A., Journalist).. View More