قربانی کی قبولیت کے شرائط

قربانی ایک اہم عبادت اور تقرب الی اللہ کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ جو سیدانا ابراہیم واسماعیل کی یاد تازہ کرتی اور نبی کائنات کی سنت مطہرہ پر چلنے کا ہنر سکھلاتی ہے ۔ لیکن اس اہم عبادت کو آج ہم نے نام ونموداور فخرومباہات کا ذریعہ بنا دیاہے ۔ عبدالباری شفیق السلفی ،ممبئی
قربانی رب کے تقرب اور خوشنودی کا ایک اہم ذریعہ اور سبب ہے یہ ہمارے جد امجد سید نا ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام کا وہ محبوب عمل ہے جو رب کی بارگاہ میں اتنا مقبول ہوا کہ تاقیامت اس کی مشروعیت کو دنیائے انسانیت کے لئے نافذکردیاگیا ۔ یہ اسلام کے ارکان خمسہ کے ایک عظیم رکن حج کا تتمہ بھی ہے جس کی ادائیگی پر ابراہیم g اور ان کے اہل وعیال کی جانفشانی وقربانی کی یاد تازہ ہوتی ہے ۔ اسی لئے اسے دین اسلام میں کافی اہمیت حاصل ہے چنانچہ اسی مقبولیت و اہمیت کے پیش نظر اللہ تبارک و تعالیٰ نےاپنے حبیب جناب محمد رسول اللہ ﷺ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :{’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر }( الکوثر :۲)ترجمہ :اے نبی ﷺ ! آپ اپنے رب کے لئے نماز ادا کیجئے اور قربانی کیجئے ۔ نیز اللہ کا فرمان : {قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِین لاَ شَرِیْکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَاْ أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ }( انعام :۱۶۲/۱۶۳) ترجمہ:آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میر ا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ۔

نیزاس کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس فرمان سے بھی لگا سکتے ہیںکہ’’ یاایھا الناس ! إن علیٰ اھل کل بیت فی کل عام أضحیۃ (سنن أبی داؤد ۔کتاب الضحایا۔باب ماجاء فی ایجاب الأضاحی(۲۷۸۸)قال الالبانی حسن) ترجمہ : اے لوگو! ہر گھر پرہر سال قربانی ہے ۔

مذکورہ تمام نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قربانی مشروع ہے اور اس کی مشروعیت پر اجماع ہے جیساکہ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’ و اجمع المسلمون علی مشروعیتہ الاضحیۃ‘‘ ( المغنی :۸؍۶۱۲) یعنی مسلمانوں کا قربانی کی مشروعیت پر اجماع ہے ۔ لیکن اس کے حکم کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ واجب ہے یا سنت ؟جب کہ کچھ لوگ اس کے وجوب کے قائل ہیں ۔لیکن جمہور کا واضح مسلک یہ ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میںباب باندھا ہے ۔باب سنۃ الأضحیۃ وقال ابن عمر :ھی سنۃ و معروف ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام بخاری کے تبویب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔وکأنہ ترجم بالسنۃ إشارۃ إلی مخالفۃ من قال بوجوبھا۔امام بخاریkنے سنت کہہ کر اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ وجوب کے قائلین کے مخالف ہیں ۔ابن حجرk مزید لکھتے ہیں:قال ابن حزم :لایصح عن أحد من الصحابۃ أنھا واجبۃ ،وصح أنھا غیر واجبۃ عن الجمھور(فتح الباری : ۱؍۳ ) ترجمہ : صحابہ میں سے کسی سے بھی وجوب ثابت نہیں ہے،بلکہ جمہور سے عدم وجوب ہی ثابت ہے۔

امام ترمذی ؒ اس سلسلے میں رقمطراز ہیں کہ’’و العمل علی ھذا عند اہل العلم ان الاضحیۃ لیست بواجبۃ و لکنھا سنۃ من سنن النبیﷺیستحب ان یعمل وھو قول سفیان الثوری وابن المبارک ‘‘ (سنن ترمذی تحت کتاب الأضاحی۔با ب الدلیل علی أن الأضحیۃ سنۃ۔ :۱؍۱۸۲) یعنی اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ قربانی واجب نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ تاہم یہ مطلق سنت نہیں ہے بلکہ سنت مؤکدہ ہے ، جبکہ استطاعت ہونے پر اکثرعلماء اس کے وجوب کے قائل ہیں کیونکہ نبی محترمﷺ نے اس عمل ممدوح پر ہمیشگی اور مداومت برتی ہے اور اپنے جانثار صحابہ کو اس پر ابھارا اور اس کی ترغیب دی ہے اور نہ کرنے والوں کی زجر و توبیخ کرتے ہوئے ارشاد فرمایاہے کہ ’’ من وجد سعۃ فلم یضح فلا یحضر مصلانا‘‘( ابودائود :۲۴۹۱)

محترم قارئین! یہ تو رہی قربانی کی مشروعیت کی دلیلیں۔اب آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر ہم ذی الحجہ کے مبارک ایام یوم النحراور یام التشریق ( ۱۰؍۱۱؍۱۲ ؍۱۳ )میں اپنے جانور وں کا خون بہاتے ہیں لاکھوں کروڑوں روپیہ جانوروں کی قربانی اور اس کے لوازمات پر خرچ کرتے ہیں لیکن کیاہم اپنے مقصد حقیقی میں کامیاب ہوپاتے ہیں یا نہیں ؟یا صرف ہمارے پیسےیوں ہی ضائع وبرباد ہو جاتے ہیں ؟

جبکہ ہماری قربانیوں کا حقیقی مقصدصرف یہ ہونا چاہئے کہ ہمارا رب ہم سے ان کے بدلے راضی اور خوش ہو جائے اور ہم اپنے حقیقی مقصد میں کامیاب اور امتحان میں پاس ہو جائیں ۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے اعمال ہیں جن کی وجہ سے ہماری قربانیاں رب کی بار گاہ میںمقبول نہیں ہو پاتی ہیں۔

(۱)اخلاص نیت: ہمیںمعلوم ہونا چاہیے کہ کوئی بھی عبادت خواہ بدنی ہو یا مالی جو اخلاص سے عاری ہوںگی وہ رب کی بارگاہ میںشرف قبولیت حاصل نہیں کر سکتیں،چاہےاس کا معاملہ قربانی اور حج سے ہویا کسی اور عبادت سے ۔ اگر کوئی انسان ہر سال حج کرتا ہے اور دسویں بکرے ذبح کرتا ہے خود اسکا گوشت کھاتا اور غریبوں ،بیواؤں ،یتیموں اور مسافروں ،مانگنے والوں کو کھلاتا ہے ، لیکن اگر اس کی قربانی میں خلوص و للہیت نہیںہے بلکہ اس کا مقصد ریا کاری ،شہرت و نمود اور گوشت خوری ہے تو یقینا وہ اپنے مقصد میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتاہے ۔جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ{وما أُمِرُوا إِلَّا لِیَعْبُدُوا اللَّہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْن } ( البینہ : ۹۸: آیت :۵) ۔ترجمہ ـ :انہیںاس کے سواء کوئی حکم نہیںدیاگیا کہ صرف اللہ کی عبادت کریںاسی کے لیے دین کو خالص رکھیں ۔ اور فرمایا کہ{ لن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ } ( الحج : ۲۲؍۳۷)اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے اورنہ ان کے خون بلکہ اسے تو صرف تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے، اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ’’انما الاعمال بالنیات‘‘(متفق علیہ )یعنی تمام اعمال کا دارومدار نیت پرہے ۔جس طرح نیت ہوگی ہے اسی طرح انسان کو بدلہ ملے گا ، اگر بندے کی نیت میںکھوٹ اور فتور ہےتو انسان کو اس کا کچھ بدلہ نہیںملے گابلکہ وہ خسارہ اٹھانے والوںمیںسے ہوگا ۔ اور اس کے تمام اعمال ضائع ہو جائیں گے ۔

(۲): رزق حلال : حلا ل کمائی تمام اعمال کی مقبولیت کی اہم شرط ہے اگر انسان اکل حلال کا اہتمام نہیں کرتا تو اس کی تمام عبادتیںو ریاضتیں مردود قرار دی جاتی ہیں۔ کتاب وسنت میںجا بجا اس کی تعلیم دی گئی ہے اور حلال کمائی پر کافی زور دیا گیا اور حرام خوری سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اللہ نے جہاںبندوں کو حلا ل کمانے ،کھانے اور کھلانے کا حکم دیا وہیںانبیاء و رسل کو بھی اس کی زبردست تعلیم دی ہے ۔ اللہ کا فرمان{ یاا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُلُواْمِن طَیِّبَاتِ مَارَزَقْنَاکُم}(بقرہ :۱۷۲) وہیں{یَا أَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحاً إِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیْمٌ }( مؤمنون:۵۱ ) کہہ کر انبیاء و رسل کو خطاب کیا ہے ،اور ہمارے پیارے نبی ﷺنے فرمایا کہ ’’یاایھاا لناس !ان اللہ طیب لا یقبل الاطیبا و ان اللہ امرالمومنین بما امر بہ المرسلین ــ ‘‘ کہ اے لوگو اللہ پاک ہے اور صرف پاک ہی چیزوں کو پسند فرماتاہے اور اس نے جو حکم مومنوںکو دیا ہے وہی حکم رسولوں کو بھی دیا ۔اس کے بعد آپ نے اپنے ساتھیوںکو ایک مثال کے ذریعہ سمجھایااور ایک مسافر کے واقعے کو بیان فرمایاکہ ’’یطیل السفر،اشعث ،اغبر،یمدیدیہ الی السماء یارب یارب و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و غذی بالحرام،فانی یستجاب لذلک ‘‘(صحیح مسلم :کتاب الزکاۃ باب قبول الصدقہ من الکسب الطیب،۷؍۱۰۰)۔ایک مسافرہے (حاجی ہو یا مجاہدیا کوئی دوسرا) لمبا سفر کرتاہے جس کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ اور چہر اغبار آلود ہے ایسا انسان اپنے دونوںہاتھوںکو اٹھاکر رب سے فریاد کرتاہے اس کے سامنے روتا اور گڑگڑاتا ہے (کہ اے بارالہ تو ہماری دعائوں، حج و عمرہ یاقربانیوں کو قبول کرلے ) لیکن اللہ تعالیٰ ایسے مسافر کی دعاکو ٹھکرادیتاہے اس کی ایک خاص وجہ یہ ہوتی ہےکہ اس کا کھانا پینا حرام کمائی کا ہوتا ہے اس کے جسم پر جو لباس ہوتاہے وہ حرام کمائی کا ہوتا ہے اور اس کی پرورش بھی حرام طریقے سے ہوتی ہے ’’فانی یستجا ب لذلک ‘‘ تو اللہ اس کی دعا کو کیسے قبول کرلے۔ جبکہ ایک حدیث میںہے کہ اللہ تعالیٰ مسافر کی دعا،مظلوم کی اور والد کی دعاجب وہ اپنے اولاد کے حق میں کرے تو اس کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس میں سے کوئی حرام نہ کھاتاہو ۔

مذکورہ احادیث کو اگر ہم سامنے رکھ کر اپنے حالات کا جائزہ لیں،اپنے گریبان میںجھانک کر دیکھیںاور معاشرے و سماج پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ آج ہماری قربانیاںکیوں قبول نہیں ہوتیں ؟ہمارے روز مرہ کے حالات تبدیل کیوں نہیں ہوتے ؟ہماری اولا د ہماری بات کیوںنہیںمانتی ہمارے سماج کا حال اتنا بتر کیوںہے ؟ توا سکی ایک خاص وجہ یہ بھی ہےکہ آج ہم اپنی تجارت کاروباراور لین دین میںجن ذرائع و وسائل کا استعمال کرتے ہیں و ہ سراسر غیر قانونی ،ناجائز اور حرام ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری دعائیںحج و عمرہ اورقربانیاںرب کے دربار سے رد کردی جاتی ہیں ۔

جیسا کہ نبی محترم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ومطعمہ حرام و مشربہ حرام و غذی بالحرام،فانی یستجاب لذلک ‘‘۔

مذکورہ قرآنی آیات و احادیث نبویہ سے درس عبرت لو اور ان ناجائز امور و تجارت ،سودی کاروبار اور لین دین سے اجتناب کرو۔ ورنہ ہماری تمام قربانیا ں،حج و عمرہ،زکوٰۃ و خیرات اور دیگر اعمال حسنہ ضائع و برباد ہوجائیںگے ۔

تیسری شرط سنت کی مطابقت ہے : حج و قربانی کی قبولیت کی تیسری شرط سنت کی مطابقت بھی ہے ، اس لئے کہ اگر قربانی نبی کریم ﷺکے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نہیںہوگی تو وہ قبولیت کے درجے کو نہیں پہنچ سکتی ۔ اس کی بہت ساری مثالیںاحادیث میں موجود ہیں ۔ ام المومنین صدیقہ عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ’’ من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد ‘‘(صحیح مسلم :کتاب الأدب ۔باب النھی عن الیکنی بابی القاسم وبیان مایستحب من ألاسماء)یعنی کوئی بھی عمل جو نبی کی سنت کے مخالف ہو مردود اور ناقابل قبول ہوگا ۔اسی طرح قربانی کے تعلق سے ایک حدیث ہے کہ ایک صحابی رسول نے عید الاضحیٰ کی نماز سے پہلے اپنے جانور کو ذبح کردیاتو آپ نے فرمایا’’ من ذبح قبل أن یصلی فلیعد مکانھا اخریٰ ومن لم یذبح فلیذبح ‘‘ (صحیح بخاری :کتاب الأضاحی باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد ،5562،من حدیث جندب بن سفیان البجلی)جس نے عید الاضحی کی نماز سے پہلے قربانی کی تووہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے بعد میں کیا وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ۔اسی طرح بخاری کی دوسری روایت براء بن عازب سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ’’ من ذبح قبل الصلوٰۃ فانماذبح لنفسہ ومن ذبح بعد الصلوٰۃ فقد تم نسکہ و اصاب سنۃ المسلمین‘‘(صحیح بخاری:کتاب ألاضاحی۔باب قول النبیﷺ لأبی بردۃ :ضح بالجذع من المعز،۵۵۵۶، من حدیث البراء بن عازب رضی اللہ عنہ) یعنی جس نے نماز عید سے پہلے ہی قربانی کرلی تووہ خود (گوشت کھانے) کے لئے ذبح کرتا ہے (ایسا شخص سنت کی مخالفت کی وجہ سے قربانی کے اجر سے محروم رہے گا ) اور جس نے نماز عید کے بعد قربانی کی اس نے اپنی قربانی پوری کرلی اور مسلمانوںکے طریقے کو اپنالیا ، اور وہ اجر عظیم کا مستحق ہوگا ۔

مذکورہ تمام دلائل و براہین سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نبی کی سنت کی خلاف ورزی کی صورت میںہماری تمام قربانیاںاور اعمال صالحہ ضائع و برباد ہوجائیںگے ، جیساکہ اللہ کا فرمان ہے کہ ’ ’ وما ارسلناک من رسول الا لیطاع باذن اللہ ‘‘اور فرمایا{یاأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا أَطِیْعُوا اللہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَکُمْ }( محمد :۳۳ ) یعنی اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو ۔

لہٰذا ہمیںان تمام امور کا خاص خیال رکھناچاہیے تاکہ ہماری نیکیاں، اعمال صالحہ اور قربانیاںاللہ کے یہاںمقبول ہوسکیں۔ اللہ ہماری اصلاح فرمائے اورہماری نیتوںمیںخلوص و للہیت پیدا فرما،اکل حلال کی تو فیق دے نیز سنت مطہرہ کی روشنی میںزندگی گذارنے کی توفیق بخشے ۔ آمین !
Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 134669 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.