بُوڑھا إبرین

إبرِین اسحاق، عیل ادّو کا قدیم باشندہ، محلے کے سستے ہوٹل ‘حسنو’ کی ایک بینچ پر آکر بیٹھا۔ یہ ہوٹل عام شاہراہ پر واقع ہے اوراس کی آمدنی کا تمام تر ذریعہ صرف مسافر ہوتے ہیں، جب سے قبائلیوں میں آپسی خانہ جنگی شروع ہوئی تھی تب سے اس کا کاروبار کافی مندا چل رہا تھا۔اِس وقت ہوٹل کا عملہ بالکل فری تھا اور انہیں کم از کم اتنا اندازہ ضرور تھا کہ اگلے تین گھنٹوں تک کوئی مسافر نہیں آنے والا۔ سورج تقریباً غروب ہونے جارہا تھا، اس کی سنہری کرنیں پورے قصبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ایک ملازم ہوٹل کے بیرونی دروازے پر پانی کا چھڑکاؤ کررہا تھا۔بوڑھے شخص نے اپنی چھڑی گود میں رکھی اور دور خلا میں گھورنے لگا۔اس کے ہونٹ خشک تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔اس نے نصف آستین کی سفید قمیض پہنی ہوئی تھی اور بنا سلا تہبند باندھ رکھا تھا۔

‘‘یوسف! ذرا ادھر آنا۔ اور ہاں ! کاغذ قلم بھی لیتے آنا’’ اس نے کیشئر کو آواز دی۔

کیشئر ایک جواں سال لڑکا تھا،جو بمشکل تمام بیس سال کا رہا ہوگا، وہ اس وقت اپنی کرسی پر بیٹھا روپئے گننے میں مصروف تھا۔اس نے روپئے دراز میں رکھے، اسے مقفل کیا اور بوڑھے شخص کی جانب بڑھ گیا۔ ‘‘تم اپنے لوگوں کے لئے بھلا کس کام کے؟وہ لوگ بھی کتنے بے وقوف تھے جنہوں نے تمہیں اسکول بھیجا۔ چلو، میرے بیٹے رشید کے نام خط لکھو۔ تمہاری پڑھائی لکھائی آخر کسی کام تو آئے’’ بوڑھا شخص مسکرایا۔

یوسف نے سفید رنگ کا ایک کورا کاغذ نکالا اور بوڑھے شخص کے پہلو میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ ‘‘جو میں کہوں اور جس طرح کہوں، وہی اور اسی طرح لکھو۔ تم سن رہے ہو نا؟’’

‘‘جی’’ یوسف نے حامی بھری۔

بوڑھے شخص نے بولنا شروع کیا: ‘‘السلام علیکم ، کیسے ہو میرے لاڈلے؟میں یہاں بالکل ٹھیک ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تم بھی اسی طرح ٹھیک ہو گے۔تمہاری امی تمہیں سلام کہہ رہی ہیں، وہ تمہیں بہت یاد کرتی ہیں۔آخر تمہیں گئے ہوئے چار سال بھی تو ہوگئے ہیں۔ہم تمہارے بارے میں جتنے فکر مند رہتے ہیں، شاید تم ہمارے بارے میں اتنے فکر مند نہیں رہتے۔یہاں لوگوں میں ایک کہاوت ہے:‘‘ وہ جس کو آپ جنتے ہیں، وہ آپ کو نہیں جنتا’’میرے پیارے بیٹے ! ہمارے اور تمہارے درمیان بھی بالکل یہی نسبت ہے۔ یقینا ًہم تمہیں بہت یاد کرتے ہیں، اس سے کہیں زیادہ جتنا تم ہمیں یاد کرتے ہو یا کرسکتے ہو۔

اللہ تمہیں سلامت رکھے۔ شاید ہی کوئی خوش نصیب باپ ایسا ہوگا جسے تمہارے جیسا سعادت مند بیٹا ملا ہو۔تم نے گزشتہ عید پر جو رقم بھیجی تھی، ہم اس کے لیے ممنون ہیں۔اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔ہم نے اس رقم سے ایک بکری خرید کر ذبح کی تھی اور محلے کے لوگوں کو دعوت ولیمہ پر بلایا تھا۔

تمہارا چھوٹا بھائی شمّو اگلے چند ہفتوں میں سالانہ امتحان دینے جارہا ہے۔فی الحال وہ ہمارے ساتھ گھر پر ہی ہے۔ اب سے پانچ دن قبل اس کے اساتذہ نے اسے اسکول سے نکال دیا تھا۔دراصل،اس کی یونیفارم بہت پرانی ہوگئی ہے، خاص کر قمیض جب وہ نئی تھی تو اس کا رنگ گہرا نیلا اور چمکیلا تھا مگر وہ اب سفید دکھائی دیتی ہے۔ جب تک اس کو نئی قمیض نہیں دلوائی جاتی اسے اسکول نہیں بھیجا جاسکتا۔ مجھے تو سمجھ ہی نہیں آتا کہ آخر اس میں ایسی کونسی بات ہوگئی، آخر ان لوگوں نے قمیض کے رنگ کو اتنا بڑا مسئلہ کیوں بنا لیا ہے۔تاہم تمہاری امی مطمئین ہیں کہ وہ امتحان سے پہلے پہلے اپنے یومیہ اخراجات سے پس انداز کرکے اتنی رقم جمع کرلیں گی جس سےایک عدد قمیض خریدی جاسکے۔اور تب تک تمہارے بھائی کو گھر پر ہی رہنا ہوگا۔ہم اس حال میں اس کو اسکول جانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔گزشتہ دنوں انہوں نے اس کو اتنی بری طرح پیٹا تھا کہ جب وہ گھر لوٹا تو اس کے دونوں کولہے بری طرح سوجے ہوئے تھے اور جا بجا خون چھنک آیا تھا۔

پیارے بیٹے! اطلاعا ًعرض ہے کہ ہم سب بخیر وعافیت ہیں۔ ہاں! تمہاری امی کل اسپتال گئی تھیں، ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ ان کے جسم میں خون کی کمی ہے۔یہاں مچھر جو زیادہ ہیں نا اسی لئے۔اس کے علاوہ باقی سب ٹھیک ٹھاک ہے ، ہمیں کسی طرح کی کوئی شکایت نہیں۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔

پتہ نہیں، تمہیں یہ اطلاع ملی یا نہیں کہ ہمارے سات اونٹ دوسرے قبیلے کے لوگ ہانک لے گئے۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ کون لوگ ہوسکتے ہیں، اس لیے میں ان کے نام لینے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔ا ُس شام ،میں اونٹوں کے باڑے میں اکیلا ہی تھا،کہ اچانک تین مسلح نوجوان آتے ہوئے دکھائی دئیے۔انہوں نے کئی ہوائی فائر کئے تاکہ یہ معلوم کرسکیں کہ اونٹوں کی حفاظت پر مامور لوگ بھی مسلح ہیں یا نہیں۔ میں اکیلا تھا اور وہ تین، اس لیے ان سے مقابلے کی جرات نہ کرسکا اور قریب کی ایک جھونپڑی میں چھپ گیا۔ فائرنگ کی وجہ سے چند اونٹ بدک کر بھاگ کھڑے ہوئے، جنہیں وہ اپنی طرف ہانک لے گئے۔ اور اس طرح ہمارے پاس کل بارہ اونٹوں میں سے صرف پانچ ہی باقی بچے ہیں۔البتہ یہ خبر تو تمہیں مل ہی چکی ہوگی کہ پچھلے دنوں آرمی کےا ٓدمی میری بندوق ضبط کر کے لے گئے۔ میں نے اس کو زمین میں دبا دیا تھا۔میں کسی قیمت پر بھی بندوق ان کے حوالے کرنے کو تیار نہیں تھا پر انہوں نے مجھے بہت بری طرح مارا پیٹا اور مجھے ناچار بندوق ان کے حوالے کرنا پڑی۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ یہ میرے لیے کتنا مشکل تھا۔ شاید تمہیں یاد ہو کہ وہ کتنی قیمتی تھی۔

میں نے اس کو صرف ایک بار استعمال کیا تھا۔ یہ اونٹوں کی چوری کے چند روز بعد کی بات ہے۔ میں نے اس سے دوسرے قبیلے کے لوگوں پر فائر کئے تھے۔اور سردار سے کہہ دیا تھا کہ وہ مسلح تھے، حالانکہ وہ مسلح نہیں تھے۔ یہ شاید کوئی خاندانی کارواں تھا۔ مجھے نہیں معلوم میں نے کتنے لوگوں کو مار ڈالا تھا۔ پھر بھی دو تین تو ضرور مرے ہوں گے۔بیٹا ! جب یہ لوگ ہمارے جان ومال نہیں چھوڑتے تو ہم کیوں ان کو بخش دیں۔ اور ہاں! اسے راز ہی رکھنا، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔

بیٹا حالات ابھی بھی ناسازگار ہیں۔ مجھے ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ گزشتہ رات ایک بس جو تمہارے شہر سے آرہی تھی اس پر کچھ نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ سننے میں آیا ہے کہ ہمارے قبیلے کا ایک نوجوان شہید ہوگیا اور باقی دو افراد شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ابھی کچھ ہی دیر میں یہاں سے ایک ریلیف کار روانہ ہورہی ہے۔جو آدمی اس بس کو ڈرائیو کررہا تھا وہی اس کو بھی ڈرائیو کرے گا۔اور ہاں! یہی وہ آدمی ہے جس نے ہمیں مذکورہ سانحہ کی اطلاع دی ہے۔مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ زخمیوں کو تمہارے شہر کے کسی اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔اگر ممکن ہو تو ان کی تیمار داری کرو۔بیٹا !میرا دل کہتا ہے کہ تم باعافیت ہو گے۔دو ہفتے قبل میں نے لگاتار دو رات ایک ہی خواب دیکھا۔میں نے دیکھا کہ تم پروں والے گھوڑے پر سوار ہو اور ہماری ملاقات کو آرہے ہو۔

پیارے بیٹے! بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے، بنا کسی اشد ضرورت ادھر ادھر مت جایا کرو۔ زمانہ بہت خراب ہے ’’ بوڑھا شخص ذرا دیر کے لیے رکا اور خیالات کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔چار سال پہلے کا رشید اس کے ذہن کے کینوس پر اتر آیا۔وہ اس وقت کتنا دبلا پتلا سا تھا اور کتنے کم نشانات سے اس نے ہائی اسکول پاس کیا تھا۔اس کی زندگی میں وہ وقت بھی آیا جب وہ بالکل نا امید ہو چلا تھا اور افسردہ خاطر رہنے لگا تھا یہاں تک کہ اسے بہت ساری بری عادتوں کی لت بھی لگ گئی تھی، سگریٹ، تمباکو اور دیگر نشہ آور چیزیں بھی لینے لگا تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس نے عین وقت پر اس کی رہنمائی فرمائی اور اس کی قسمت کا ستارہ جگمگا اٹھا۔ اس وقت عیل ادّو میں ایک رفاہی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور رشید کے دل میں ملازمت کرنے کا خیال پیدا ہوا۔حالانکہ اس نے ہائی اسکول بھی بمشکل تمام پاس کیا تھا۔ اس سیٹ کے لیے سخت مقابلہ بھی تھا، دوسرے قبیلوں کے لڑکے بھی اپنی قسمت آزما رہے تھے۔اور رشید باوجود اس کے کہ اپنے قبیلے کی طرف سے تنہا نمائندگی کررہا تھا ،اللہ کا شکر ہے کہ اسی کو کامیابی نصیب ہوئی۔اور اس کو منتخب کرلیا گیا۔

‘‘میرے پیارے بچے! پچھلے خط میں جس لڑکی کا میں نے تذکرہ کیا تھا اب اس کی شادی ہو چکی ہے’’ بوڑے شخص نے پھر سے کہنا شروع کیا: ‘‘وہ واقعتاً بہت خوبصورت تھی،مجھے یقین تھا کہ تم اس کے ساتھ بہت خوش رہتے۔ خیر جو ہوا سو ہوا، شاید وہ تمہارے نصیب میں نہیں تھی۔تم نے کہا تھا کہ مجھے تمہاری مرضی کا خیال رکھنا چاہئے، یقیناً میں ایسا ہی کروں گا۔پھر بھی میری یہ نصیحت ہے ۔خدا کے لیے !کسی دوسرے قبیلے کی لڑکی کا انتخاب نہ کرنا۔تم تو جانتے ہی ہو کہ حالات کس قدر خراب ہیں۔ابھی سال دوسال ہی کی تو بات ہے کہ ہمارے پڑوسی کے بیٹے اسماعیل نے اپنے بزرگوں کی مرضی کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے قبیلے کی لڑکی سے شادی کرلی تھی، اس سے اس کا ایک بچہ بھی ہوا۔مگر ابھی چند ماہ پیشتر،یہ دل دہلانے دینے والا واقعہ پیش آیا کہ وہ لڑکی اپنے دودھ پیتے بچے کے ساتھ میکے گئی تھی، اسی دن رات کے وقت جس دن وہ اپنے میکے پہنچی تھی ، اس کے اپنے سگے بھائی نے اس کو برا بھلا کہا اور بچہ کو اس کی گود سے چھین لیا اور ظالم نے اس کو قتل کر ڈالا۔محض اس لیے کہ وہ معصوم ہمارے قبیلے سے منسوب تھا۔اس لیے بیٹے عافیت اسی میں ہے کہ تم اپنے لوگوں ہی میں رشتے ناتے جوڑو۔

میں اکثر یہ بتانا بھول جاتا ہوں کہ تمہاری امی کی خوراک دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔انہیں تقریبا ًہر رات قے ہوتی ہے،ڈاکٹر کہتے ہیں کہ انہیں بکری کی کلیجی کھلاؤ، لیکن ہم ہر روز کلیجی کہاں سے لائیں۔ہمارے پاس تو وہی ایک بکری تھی جو ہم نے تمہارے بھیجے ہوئے پیسوں سے خریدی تھی۔میرے نیک دل بیٹے ! اگر تمہارے پاس کچھ زائد رقم ہو تو برائے مہربانی جلدی سے بھیج دو۔ اور اپنی ماں کو موت کے منہ میں جانے سے بچالو۔مجھے اس کے لیے معاف کر دینا بیٹا۔مگر اس سچائی سے تمہیں واقف کرانا بھی ضروری تھا۔ آج صبح میں اس کو چٹائی پر لیٹے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں،وہ بہت کمزور ہوگئیں ہیں اور بےرونق بھی۔۔۔۔ ’’ بوڑھے شخص کی آواز بھرّا گئی اور وہ سسکیاں بھرنے لگا۔پھر اس نے سر اٹھایا، ایک طرف کو ہلکاسا جھٹکا دیا اور پھر کہنا شروع کیا: ‘‘بیٹا !اسے روزانہ تازہ دودھ کی ضرورت ہے،مگر ہمارے پاس اتنا دودھ کہاں۔میں بھلا کیا کرسکتا ہوں۔آج مجھے پھر سے وہ وقت یاد آرہا ہے جب پچھلی مرتبہ موت کے فرشتے نے ہمارا گھر دیکھا تھا۔میں تمہاری دادی جان کی موت کو بھلا کیسے بھول سکتا ہوں۔وہ ہر دن دودھ مانگا کرتی تھیں، مگر ہم ہر روز دودھ کہاں سے لاتے۔، یہاں تک کہ وہ دودھ مانگتے مانگتے ہمیشہ کے لیے ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، تم ہی کچھ کرو بیٹا۔میں تمہارے لیے دعا گو ہوں اور میری نیک تمنائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ تم فطرتاً نیک دل ہو۔

میں نے بیت الخلا کے گڈھے کھودنے کا کام چھوڑ دیا ہے اور اب جانوروں کے بازار میں دلالی کرنے لگا ہوں۔ پر یہاں تجارت کے لحاظ سے بکرے بکریاں اتنے زیادہ اچھے نہیں ہیں۔اور جیسا کہ تمہیں پتہ ہی ہے کہ یہاں پچھلے ایک سال سے بالکل بھی بارش نہیں ہوئی۔ بیٹا! اگر تمہارے پاس زائد روپئے نہ ہوں تو تمہیں اپنا دل کالا کرنے کی ضرورت نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیشہ ہی سے ہمارے پاس ہے، یقیناً وہ ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑ سکتا’’

وہ ایک بار پھر تھوڑی دیر کے لیے رکا اور ہوٹل کے دروازے کے باہر دیکھنے لگا جہاں ایک بلی پانی کے کین سے اپنا منہ نکالنے کی جدو جہد کررہی تھی۔ اس کا دھیان اپنے بیٹے رشید کی طرف چلا گیا۔

رشید جب چودہ پندرہ سال کا تھا تو اسے ایک ایسی قسم کا دماغی بخار ہوا تھا جس سے آدمی پاگل پن کا شکار ہوجاتا ہے۔بس یہ اللہ کی مہربانی ہی تھی کہ اس سال بارش خوب ہوئی تھی، لہٰذا دودھ اور دیگر چیزیں بہت سستی تھیں اور رشید کو ہر وہ چیز بروقت مل جایا کرتی تھی جو وہ مانگا کرتا تھا۔ وہ بہت تھوڑے عرصے میں پوری طرح صحت یاب ہوگیا تھا۔یہ اس سال کی بات ہے جب رشید نے علاقائی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا تھا۔وہ نوجوانوں کو مختلف مقاص کے تحت ایک دوسرے سے مربوط کررہا تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ آنے والے آٹھ دس برسوں میں ہمیں اس سے بڑا فائدہ ہوگا۔ مگر کچھ نوجوان اس کے خیالات کے مخالف ہوگئے ،تاہم رشید نے ہمت نہیں ہاری،البتہ اس مخالفت نے رشید کا حوصلہ اور زیادہ بڑھا دیا اور وہ پہلے سے کہیں زیادہ سرگرم ہوگیا۔لیکن پھر اللہ جانے کیا ہوا کہ اس نے بنا کسی پیشگی اطلاع یا وضاحت کے اس طرح چپ سادھ لی کہ پھر کبھی اپنے ان خیالات کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔

‘‘لکھتے رہو برخوردار!’’ ابرین اسحاق نے یوسف سے کہا۔


ایک آخری بات اور یہ ہے کہ تم نے اپنے گزشتہ آخری خط میں لکھا تھا کہ تم اس ہفتے آنے والے ہو۔ ایسا کیا ہوا کہ تم نہ آسکے؟ ہمیں یقین ہے کہ تم عنقریب ہمارے پاس ہو گے۔ بیٹا تمہیں ڈھیر ساری دعائیں اور بہت سارا پیار۔ جتنی جلدی ہوسکے آجاؤ اور ہماری خبر لو۔
تمہارا والد
ابرین اسحاق۔

بوڑھے شخص نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا تڑا مڑا لفافہ نکالا۔ یوسف سے خط لیا،اسے تہہ کیا، لفافے میں رکھ کر سیل بند کیا اور واپس یوسف کو دیتے ہوئے کہا: ‘‘اس پر رشید ابرین اسحاق کا پتہ لکھو’’ یوسف نے اس کے حکم کی پیروی کی۔ ‘‘اللہ تمہیں خوش رکھے’’ بوڑھے شخص نے یوسف سے لفافہ لیا اور اس کو دعائیں دیتا ہوا اپنی راہ چلا گیا۔ بوڑھا شخص سڑک پار کر کے امدادی گاڑی کے پاس پہنچا جس پر زخمیوں کے لیے بعض دوائیں اور دیگر چیزیں لادی جارہی تھیں۔ ڈرائیور کی کھڑکی کے پاس آیا۔اور پوچھا: ‘‘عیل دانا ؟’’ ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلایا۔ ‘‘یہ میرے بیٹے کو دیدینا۔بڑی مہربانی ہوگی۔وہ اسپتال ہی میں کام کرتا ہے اور امدادی کارکن بھی ہے’’ اس نے مذکورہ لفافہ اور بارہ شلنگ اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ڈرائیور نے لفافے پر ایک نظر ڈالی اور بوڑھے شخص کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ ‘‘کیا بات ہے ؟ ’’بوڑھے شخص کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ ‘‘یہ نام کچھ جانا پہچانا لگ رہا ہے’’ ڈرائیور کچھ یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ‘‘ دیکھئے؛ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ گزشتہ رات جس بس پر حملہ کیا گیا تھا اسے میں ہی ڈرائیو کررہا تھا۔اس میں جو ایک نوجوان فوت ہوا تھا،وہاں عیل دانا میں کوئی بھی اس کی شناخت نہیں کرسکا تھا۔ البتہ اس کے بعض ذاتی کاغذات سے معلوم ہوا کہ وہ یہیں عیل ادّو کا رہنے والا تھا۔ میں وہ کاغذات اپنے ساتھ لایا تھا، وہ میں نے مقامی تھانے میں جمع کردئے ہیں۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے نام کا آخری جز اسحاق بھی تھا البتہ اتنا یاد ہے کہ رشید ابرین اس کے نام کا حصہ ضرور تھا۔’’ ‘‘ اگر وہ میر بیٹا رشید تھا۔۔۔’’ رات ڈھل رہی تھی اور بوڑھا ابرین یہ سب سوچتے ہوئے دھیرے دھیرے اپنے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔‘‘۔۔۔ اگر وہ رشید ہی تھا تو مجھے اسی وقت معلوم ہوجانا چاہئے تھا جب میں نے اس کو خواب میں پروں والے گھوڑے پر سواری کرتے ہوئے دیکھا تھا’’۔

اس کہانی کے بارے میں
یہ کہانی ایک افریقی نوجوان بشیر عبدالعدن کے قلم سے ہے۔ بشیر صومالیہ میں 1986 میں پیدا ہوئے ۔ جب وہ صرف چار سال کے تھے تو ان کے والد مع اہل وعیال کینیا منتقل ہوگئے۔ یہیں پر بشیر نے ابتدائی اور ثانوی درجات کی تعلیم حاصل کی ۔اور اسی دوران انگریزی،عربی اور سواحلی زبانیں سیکھیں۔ لیکن جب صومالیہ میں مہاجرین پر حملے بڑھنے لگے تو ان کا خاندان 2006 میں یو ایس اے جاکر قیام پذیر ہوگیا۔ بشیر فی الحال St Louis community college CT میں انگریزی ادب کے طالب علم ہیں۔ یہ کہانی سب سے پہلے افریقن رائٹرس آن لائن www.african-writing.com پر شائع ہوئی ، اس کے بعد عرب ولڈ بکس .com Arabworldbooksنے اپنی سائٹ پر شائع کیا ۔ یہ کہانی اصلاً انگریزی میں لکھی گئی ہے۔ اس کا عربی ترجمہ زہرہ سلطان نے کیا ہےجو عرب ولڈبکس سے وابسطہ ہیں۔ان کا عربی ترجمہ بھی عرب ولڈبک ڈاٹ کام پر انگریزی کہانی کے ساتھ منسلک ہے۔

میں نے یہ کہانی یہیں سے لی ہے۔ اور اس کو اردو میں منتقل کرتے وقت انگریزی اور عربی دونوں نسخوں کو سامنے رکھا ہے۔ یہ کہانی مشرق وسطیٰ کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔اور زندگی کے عام مسائل سے بحث کرتی ہے، اس میں ادبیت کے ساتھ ساتھ والدین کے دلوں میں اپنی اولاد کے لئے کیا جذبات ہوتے ہیں۔ نیز ایک عام آدمی پر کیا کچھ گزرتی ہے اور وہ ان سب کو کس طرح انگیز کرتا ہے،یہ سب بھی اس کہانی میں بحسن وخوبی آگیا ہے۔یہ کہانی سو فیصدی زمینی حقائق سے مربوط ہے اور عام انسانی زندگی کی کشاکس سے پردہ اٹھاتی ہے۔محبت اور ضروریات کس طرح تمناؤں اور امیدوں کو جنم دیتی ہیں اور پھر وقت کا ستم ظریف ہاتھ کس طرح ان کا جنازہ نکال دیتا ہے۔آپ جب اس کہانی کو پڑھیں گے تو یقیناً یہ سب محسوس کئے بنا نہیں رہ سکیں گے۔
mohammad ilyas Rampuri
About the Author: mohammad ilyas Rampuri Read More Articles by mohammad ilyas Rampuri: 22 Articles with 20739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.