سیاسی قیادت کیوں بلوچستان نہیں جاتی ؟

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے یوم آزادی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بلوچستان ٗ آزادکشمیر اور گلگت کے عوام اپنی آزادی کے لیے ہم سے مدد کے طلب گار ہیں۔اس سے قطع نظر کہ بھارتی وزیر اعظم نے اپنی یوم آزاد ی کے موقع پر یہ ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کتنا بڑا جھوٹ بولا ۔اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت بلوچستان ٗ گلگت اور آزادکشمیر میں بھی اپنی خفیہ ایجنسی "را " کے ذریعے مداخلت کررہا ہے اور وہاں دہشت گردی کے جتنے بھی واقعات ہورہے ہیں ان کے پیچھے بھارت کاہی ہاتھ ہے ۔

بھارتی وزیر اعظم کی اس ہرزہ سرائی نے ہر پاکستانی کے دل پر گہرا زخم لگا یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ٗ کشمیر اور گلگت سمیت تمام پاکستانیوں نے مودی کی بکواس کو یکسر مسترد کردیا۔ بطور خاص بلوچستان کے بارے میں چندضمیر فروش افراد پیسوں کے لالچ میں غیر ملکی ایجنسیوں کے آلہ کار بن کے زہر اگلتے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بلوچی عوام نے پہلے پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر گوادر سمیت بلوچستان کے تمام شہروں سے طویل ترین ریلیاں نکال کر یہ ثابت کیاتھا کہ ہر بلوچ نہ صرف محب وطن ہے بلکہ پاکستان کی سلامتی اور بقا ء کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے ۔ دوسرے دن بھارتی وزیراعظم کے بیان کے ردعمل میں بلوچ عوام کی بڑی اکثریت نے ڈیرہ مراد جمالی ٗ نوشکی ٗ ڈیرہ بگٹی ٗ قلات ٗپنجگور سمیت کتنے ہی شہروں میں ریلیاں نکالیں ٗ دھرنے دیئے اور بھارتی پرچم نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ مودی کے خلاف نعرے بازی بھی کی ۔ مظاہرین کی جانب سے ہر جگہ یہی نعرہ سنا گیا "مودی کا جو یار ہے ٗغدار ہے غدار ہے "۔یہ ریلیاں گوادر سے ژوب ٗ چمن تا نصیر آباد تک بھی نکالی گئیں ۔ ایک ریلی سے وزیر اعلی بلوچستان نواب ثنا ء اﷲ زہری نے خطاب بھی کیا اور کہا کہ یہ ریلیاں نام نہاد آزادی کی تحریک اور بلوچستان کی نمائندگی کادعوی کرنے والے باہر بیٹھے بلوچ قوم کے باغیوں کے خلاف ریفرنڈم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔انہوں نے مزید کہا ۔آزادی بہت بڑی نعمت ہے پاکستان میں بلوچ عوام کو زندگی کی تمام سہولتیں اور شخصی و مذہبی آزادی حاصل ہے بلوچستان پر ہمیشہ بلوچ عوام کے ووٹوں سے ہی چنا ہوا شخص منصب وزارت اعلی اور گورنر شپ پر فائزہوتا ہے ۔جبکہ ایران بلوچ اس سہولت سے محروم ہیں ۔ یہ نام نہاد آزادی پسند خود ساختہ لیڈر بلوچستان کوہندو کی غلامی میں دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو مخاطب کرکے کہا کہ برہان وانی کی شہادت کے بعد 35 دنوں سے وادی کشمیر سے کرفیو تو تم نہیں اٹھا سکے اور تم کیا کرسکتے ہوں۔ بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑرہی ہے ۔جس پر ہر پاکستانی کی طرح ہر بلوچ بھی سراپا احتجاج ہے ۔ وزیر اعلی بلوچستان کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کو آئینہ دکھاکر یہ ثابت کردیاہے کہ جو چند لوگ بلوچ عوام کی نمائندگی کا دعوی کررہے ہیں ان کے دعووں میں کوئی حقیقت نہیں ۔

وزیر اعلی بلوچستان ثنا اﷲ زہری اپنے بھائی بیٹے اور بھتیجے کی قربانی دینے کے باوجود بلوچستان میں پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں ان کو بھی پاکستانی حکمرانوں اور قومی سیاسی قیادت کی حمایت کی اشد ضرورت ہے ۔میں سمجھتا ہوں ہماری سیاسی قیادت کے لیے یہ بہترین موقعہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھول کر بلوچستان جائیں اور تمام شہروں میں جاکر بلوچ عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرکے انہیں ہمیشہ کے لیے قومی دھارے میں شریک کرلیں ۔عمران خان ٗ بلاول زرداری ٗ مولانا فضل الرحمان اور میاں محمدنوازشریف بلوچستان جائیں اور بلوچ عوام کو قومی دھارے میں لاکر ان کے مسائل حل کریں ۔بطور خاص عمران خان اور بلاول زرداری پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ انتشار پھیلانے کی بجائے حکومت مخالفانہ بیانت سے پرہیز کرتے ہوئے قومی یکجہتی کو فروغ دیں ۔ اﷲ پاکستان کو تاقیامت سلامت رکھے ۔ یہ ملک رہے گا تو جتنا چاہیں احتجاج کرتے پھریں ۔ لیکن وقت کی نزاکت کااحساس کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم اور ان چند سر پھیرے باغی بلوچ افراد کومنہ توڑ جواب دینا بہت ضروری ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کی بنا پر وہ گوادر کو دنیا کی سب سے اہم بندرگار بنانے اور اقتصادی راہداری پراجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں سب سے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ۔وہ اس بات کااعتراف بھی کرتے ہیں کہ سانحہ کوئٹہ اقتصادی راہداری کے خلاف غیر ملکی طاقتوں کی سازش تھی تو پھر ا ن پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ غیرملکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے نہ صرف فوج کو فری ہینڈ دیں بلکہ بلوچ عوام کے پاس جا کر ان کے مسائل کا جائزہ لیں۔ وہاں میعاری تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ تمام جدید سہولتوں سے آراستہ ہسپتال بنائے ۔صنعتی زون بنائیں ٗ پانی کی کمی کو دورکرنے کے لیے ڈیم تعمیر کرکے بلوچستان میں زراعت کے فروغ کے لیے کام کریں۔بلوچستان کی سرزمین میں دفن قیمتی معدنی خزانے نکال کر وہاں خوشحالی کے چراغ گھر گھر روشن کریں ۔

اس میں شک نہیں کہ بلوچی عوام پاکستان کو دل و جان سے محبت کرتے ہیں ۔ہزاروں بلوچ نوجوان پاک فوج میں دفاع وطن کے تقاضے پر پورے کررہے ہیں ۔ میجر شفقت بلوچ جنہیں 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں محافظ لاہور کا خطاب ملا ۔جن کی خدمات کااعتراف کرتے ہوئے پاک فوج کی جانب سے انہیں دو مرتبہ ستارہ جرات عطا کیاگیا ۔ان کاتعلق بلوچستان ہی سے تھا۔ کرنل سردار عبدالرؤف خان مگسی جو 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگوں کے ہیرو اور غازی ہیں وہ اپنے عظیم عسکری کارناموں کی بدولت ہمیشہ پاک فوج کے لیے قابل احترام رہے ہیں ۔ ان کے صاحبزادے کیپٹن علی روف مگسی جنہوں نے دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ "سیاچن"وطن عزیز کادفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ۔ میجرمحمد علی حیدری نے معرکہ کارگل میں دشمن سے برسرپیکار ہوکر شہادت پائی ۔ ان تمام کا تعلق بلوچستان کے مختلف علاقوں سے تھا۔ ان کے علاوہ ہزاروں بلوچ نوجوان پاک فوج میں افسر اور دیگر تمام رینکوں میں اب بھی اپنے دوسرے ہم وطنوں کے ساتھ دفاع وطن کے تقاضے پورے کررہے ہیں۔ کراچی ٗ لاہور اور پشاور سمیت ملک بھر میں بلوچ قوم کے افراد وسیع پیمانے پر نہ صرف آباد ہیں بلکہ پنجابی ٗ سندھی ٗ مہاجر اور پشتون بھائیوں کے ساتھ کاروبارمیں بھی شریک ہیں اور دیگر صوبوں کی یونیورسٹیوں میں ہزاروں بلوچ نوجوان زیر تعلیم بھی ہیں ۔ لیکن ان تمام باتوں کو شیئر کرنے اور قومی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے ہماری فوجی وسیاسی قیادت کو بشمول میاں نواز شریف اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا ۔اس طرح نہ صرف بلوچ عوام قائدین کو اپنے پاس دیکھ کر قومی سرگرمیوں میں زیادہ پرجوش طریقے سے کردار ادا کریں گے بلکہ اقتصادی راہداری منصوبے میں حائل رکاوٹیں خود بخود دور ہوجائیں گی ۔سب سے تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور افغانستان کی جانب سے بھارتی موقف کی حمایت معنی خیز ہے ۔ بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات حسن الحق جو ان دنوں بھارت کے دورے پر ہیں ٗ کہا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے موضوع پر ان کاملک بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ ہے ۔جبکہ افغانستان کی جانب سے چمن پر باب دوستی کے قریب افغانستان سے چند شرپسندوں نے نہ صرف ردعمل کااظہار کرتے ہوئے نعرے بازی کی بلکہ پتھراؤ بھی کیا ۔ یہ وہ دوممالک ہیں جن سے ہمارے حکمران دوستی کی پینگیں بڑھانے میں ہمیشہ پیش پیش دکھائی دیتے ہیں اور ان کے ناز و نخرے اٹھانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے لیکن ہر آزمائش کی گھڑی میں یہ دونوں ملک پاکستان کے خلاف زہر اگلتے سنائی دیتے ہیں ۔

ایک جانب تو بھارت اور افغانستان دشمنی کی تمام حدیں عبور کرتے جارہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان میں آستین کے سانپ بھی چھپے بیٹھے ہیں ۔ان میں پہلا سانپ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمسایہ ممالک میں مداخلت ختم کرنے سے ہی پاکستان میں حالات ٹھیک ہوں گے ۔مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجنا درست نہیں ہے ۔ بطور خاص محمود خان اچکزئی ایک سانپ کی شکل میں کچھ عرصے سے مسلسل پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ۔انہیں پاکستان کی فکر نہیں صرف افغانستان کا غم زیادہ کھائے جارہا ہے لیکن جس ملک نے انہیں عزت ٗشہرت اور مقام دیا۔ اس کے خلاف وہ ہمیشہ سے سازشیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔عوامی نیشنل پارٹی کے بانی خان عبدالغفار خان اور ان کے خاندان کے لوگ جوآج بھی بھارت اور افغانستان کے پے رول پر موجود ہیں۔ بطور خاص خان عبدالغفار خان نے پاکستان کی سرزمین پر دفن ہونے کی بجائے کابل میں دفن ہونا ضروری سمجھا لیکن افسوس کہ اس کے نام سے پشاور ائیرپورٹ کومنسوب کرکے محب وطن پاکستانیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا جاچکا ہے ۔ بہرکیف بلوچستان کے بغیر پاکستان نہ تو مکمل ہوسکتا ہے اور نہ ہی بلوچی عوام کے بغیر باقی صوبوں کے عوام زندہ رہ سکتے ہیں ۔ اس لیے کہ ہم بلوچی ٗسندھی ٗ گلگتی ٗ کشمیری ٗ مہاجر ٗ پنجاب اور پٹھان سب ایک ہی ماں کے بیٹے اور ایک ہی باپ کے فرزند ہیں ہمارا رہن سہن ٗ تہذیب و ثقافت اور رابطے کی زبان ایک ہے۔ ایک اﷲ ٗ ایک ہی رسول ﷺ اور ایک مقدس کتاب" قرآن پاک" کو ہم سب ماننے والے ہیں ۔ایک شخص محمد علی جناح ہمارا قومی لیڈر ہے ۔

بلوچستان میں سب ایک جیسے ہی مسلمان ہیں ۔ بھارتی وزیراعظم جس کے ملک میں مسلمانوں اور نچلی ذات کے ہندووں کو گائے ماتا کا بہانہ بناکر قتل کیا جارہا ہے وہ کس منہ سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں ۔وادی کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلسل 68 سال سے انسانی حقوق پامال نہیں ہورہے ۔ افسوس تو اس بات کاہے کہ نہ اقوام متحدہ کا ضمیر جاگا ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کی تنظیموں کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی کھلی ہے ۔ وہ امریکہ جو ایک امریکی کے مرنے پر بھی پوری دنیا کو تہس نہس کرنے سے نہیں چوکتا وہ 1948ء سے آج تک لاکھوں کشمیریوں کی شہادت پر بھی خامو ش ہے اورسلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کرنے میں پرجوش دکھائی نہیں دیتا جس کابہانہ بنا کر پہلے اس نے عراق پھر افغانستان میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی ۔امریکہ یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لیتا ہے کہ یہ دو ملکوں کا آپس کا معاملہ ہے ۔ حالانکہ یہ پاکستان بھارت کا معاملہ نہیں یہ عالمی ایشو ہے یہ سلامتی کونسل کی قرار برائے استصواب رائے پر عمل کامعاملہ ہے ۔ مذاکرات کا ڈھونگ رچانے کی بجائے اقوام متحدہ کی فوج کی نگرانی میں مشرقی تیمور کی طرح وادی کشمیر میں بھی ریفرنڈم کروایا جائے اور کشمیری عوام کے فیصلے کو پاکستان اور بھارت دونوں خلوص دل سے قبول کریں ۔بہرکیف وزیر اعظم نواز شریف جنہوں نے اپنے تین سالہ دور حکومت میں 65 کروڑ کے غیر ملکی دورے کرکے ریکارڈ قائم کیاہے انہیں چاہیئے کہ وہ بلوچستان بھی جائیں اور سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے دورے پر جائیں اور انہیں کشمیر ی مسلمانوں کے چہروں پر بھاتی گنوں کے زخموں کے نشان دکھائیں ۔انہیں دکھائیں کہ بھارتی فوج انسانوں کو شہید کرنے کے بعد کس طرح ان کی بے حرمتی کررہی ہے ۔مذاکرات کا ڈھونگ رچانے اور راگ مسلسل الاپنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ بات صرف اور صرف سلامتی کونسل کی قرار داد کے مطابق استصواب رائے پر ہونی چاہیئے جس پر بھارت نے جنگ بندی کرنے سے پہلے رضامندی ظاہر کی تھی ۔ نواز شریف جس پر بھارت سے دوستی کاالزام ہر چھوٹا بڑا لگارہا ہے ۔وقت آگیا ہے کہ وہ خود پر لگنے والے اس الزام کو یکسر ختم کرتے ہوئے نہ صرف عالمی برداری کے سامنے بھارت کا اصلی چہرہ دکھائیں بلکہ سلامتی کونسل کے ارکان کو وادی کشمیر کی اصل صورت حال سے آگاہ کرکے اقوام متحدہ کی فوج کے زیر انتظام وہاں استصواب رائے کا اہتمام کریں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 670751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.