مودی کی ہرزہ سرائی کے خلاف بلوچ عوام کا ردّ عمل

گزشتہ دنوں صوبۂ بلوچستان کے متعلق بھارتی وزیر اعظم نرینددمودی کے اشتعال انگیز بیان نے پورے صوبے میں ایک ہنگامہ برپا کردیا تھا ، جس کے ردّ عمل میں مؤرخہ ۱۸/ اگست بروز جمعرات کو اس صوبہ کے تمام عوام مودی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ، شہر شہر ریلیاں نکالیں ، احتجاجی مظاہرے کیے ، جگہ جگہ ترنگا اور مودی کے پتلے نذرِ آتش کیے، ڈیرہ مراد جمالی میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے احتجاجی ریلیاں نکالیں ، مظاہرے کیے ۔ سبی میں بھی بھارتی مداخلت کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ،ان ریلیوں میں ہندو برادری نے بھی بھر پور شرکت کی ،اور ان ریلیوں میں شریک مظاہرین نے ببانگ دہل یہ نعرے لگائے ’’ مودی کا جو یار ہے ٗ غدار ہے غدار ہے ‘‘ ۔

اس میں شک نہیں کہ بلوچستان اپنے وسیع ترین رقبے کے لحاظ سے وطن عزیز پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ٗ اور بے انتہاء قدرتی معدنیات سے مالا مال خطہ ہے ۔ لیکن بایں ہمہ اوصاف و کمالات یہ صوبہ اتنی ترقی نہیں کرسکا جتنی ترقی پاکستان کے دوسرے صوبوں نے کی ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ صوبہ ماضی کی طرح اب تک ارباب اقتدار کی شفقت بھری نظروں سے مسلسل اوجھل رہا ہے اور ارباب اقتدار نے اس کی طرف وہ توجہ نہیں کی جس کا یہ مستحق تھا ۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب کہ صوبۂ بلوچستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرانا اور اس میں قومی ترانہ پڑھنا تک محال اور ناممکن ہوگیا ۔ لیکن پھر جب حکمرانوں کو اس کا خیال آیا اور انہوں نے اس کی طرف توجہ دینی شروع کی تو پھریہی صوبہ دوبارہ سے پھلنے پھولنے لگ گیا ۔

چنانچہ مشرف کے دورِ حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور (۲۰۰۸؁ء/ ۲۰۱۳؁ء) میں اس صوبہ کی تعمیر و ترقی کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور ’’آغازِ حقوقِ بلوچستان‘‘ کے عنوان سے باقاعدہ ایک پیکج متعارف کروایا گیا ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت نے اس کی رٹ قبول کرنے والے عسکریت پسندوں کے لئے عام معافی کا اعلان کیا اور قومی دھارے میں شامل ہونے والوں کو اپنی کاروباری زندگی پھر سے شروع کرنے کے لئے رقوم بھی فراہم کیں ۔ جس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور عسکریت پسند گروہ دھڑا دھڑحکومتی رٹ قبول کرنے لگے۔

لیکن دوسری طرف صوبۂ بلوچستان کے دشمنوں کو اس کا امن کا گہوارہ بننا کسی طرح بھی راس نہ آیا ، اور انہوں نے وہاں دہشت گردی کا بپھرا ہوا عفریت چھوڑ دیا جن میں ’’را‘‘ کا نام پیش پیش ہے ۔ جس کے ٹھوس اور مضبوط دلائل پاکستان کے پاس خوب اچھی طرح محفوظ ہیں ۔ نیزحال ہی میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جو اس صوبہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے ٗ اس سے اس صوبہ کو فساد زدہ اور شورش زدہ بنانے کی بھارتی خفیہ سازش کا پول مزید کھل کر سامنے آگیا ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھل کر مداخلت کرنے کے حوالہ سے جو ایک انتہائی متنازع فیہ بیان دیا ہے، اس سے نہ صرف یہ کہ پاکستان میں بلکہ بھارت میں اضطراب کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے ، جس کے باعث مودی سرکار کو بھارت میں بھی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ بلا شبہ مودی نے اپنے اس حالیہ بیان میں پاکستان کے داخلی معاملات میں بے جا مداخلت کرکے ریڈ لائن عبور کی ہے ، جس صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ مودی کے بلوچستان میں عسکریت پسندوں سے مسلسل رابطے ہیں۔ چنانچہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ثناء اﷲ زہری نے کہا ہے کہ : ’’ غریب خاندانوں کو فنڈنگ کرکے پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیاہے ، سانحہ کوئٹہ اور بلوچستان میں کار روائیوں میں ’’را ‘‘ کا ہاتھ ملوث ہے ۔‘‘ اس تناظر میں بھارتی حکومت کے عسکریت پسندوں سے ان باہمی روابط کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا بلا شبہ حکومت پاکستان کی اوّلیں ذمہ داری ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بھارت آج سے ٹھیک 45 برس قبل’’ مکتی با ہنی ‘‘ کی تحریک چلاکر وطن عزیز ملک پاکستان کو دو لخت کرچکا ہے ۔اور اب اس کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کے اس صوبہ میں علیحدگی پسندوں کی فنڈنگ کرکے پاکستان پر دوسری کاری ضرب لگائی جائے ۔ تاہم بلوچستان کے زندہ دل اور محب وطن عوام نے اپ نے ردّ عمل سے بھارتی حکومت کے سامنے یہ بات خوب اچھی طرح واضح کردی ہے کہ اب کی بار ایسی کوئی بھی مذموم کوشش ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔

بہر حال بلوچ عوام کی یہ ریلیاں ، یہ مظاہرے اور ان کا یہ ردّ عمل اس امرکا بین ثبوت ہیں کہ بلوچ عوام کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور وہ اس سے علیحدگی کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ بلاشبہ بلوچ عوام کا یہ تاریخی ردّ عمل بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کا خواب دیکھنے والوں کے منہ ایک ایسا زناٹے دار طمانچہ ہے کہ جس کی گونج صدیوں تک سنی جائے گی ۔ یہ ان لوگوں کے لئے بھی ایک تازیانہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اب غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والی عسکریت پسندی کی ہیبت بلوچ عوام کے دلوں میں راج کرے گی اور وہ اس کے خلاف کسی بھی قسم کے ردّ عمل کی کوشش نہیں کرسکیں گے ۔ لیکن ۱۸ / اگست بروز جمعرات کو بلوچستان کی زندہ دل عوام نے ان سوچوں کو ناکام ثابت کردیا اور ان عناصر کی بھی آنکھیں وا کردیں جو اس غلط فہمی میں بڑی اچھی طرح مبتلا تھے کہ بلوچ عوام کی حب الوطنی کو دولت کے ذریعہ خریدا جاسکتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرنے کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ بیان کے نتیجہ میں جو ردّ عمل دیکھنے کو ملا کہ پورا صوبۂ بلوچستان ٗکوئٹہ ، سبی، ڈیرہ بگٹی ، ہرنائی ، قلات ، تفتان ، چمن ، ڈیرہ مراد جمالی ، لسبیلہ ، دالبندین ، پشین ، چاغی ، نصیر آباد ، بولان ، مستونگ ، مچھ ، ژوب ۔ لورا لائی ، نوشکی اور دیگر کئی ایک شہروں اور قصبوں میں عوام بھارتی پالیسیوں ، اقدامات اور مودی کے بیان کے خلاف سراپا احتجاج بنی رہی ٗ وہ تو تھا ہی تھا ، تاہم اگر مودی سرکار کی اس ہر زہ سرائی کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں محض صوبۂ بلوچستان کے بجائے پورے ملک پاکستان میں منعقد کی جاتیں تو اس کے زیادہ اچھے اور مثبت نتائج دیکھنے اور سننے کو ملتے ، اور مودی اینڈ کمپنی کو یہ تاثر ملتا کہ پاکستان کے باقی تینوں صوبوں کو بھی بلوچستان اسی طرح عزیز ہے جس طرح کہ اس کے اپنے عوام کو عزیز ہے ، نیزیہ تاثر بھی ملتا کہ پاکستان کے باقی تینوں صوبے اپنے اس صوبے کے بھائیوں کو کسی بھی صورت اپنے سے جدا نہیں ہونے دیں گے بلکہ ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ انہیں اپنے سینوں سے لگاکر رکھیں گے۔
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 256827 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.