ذرا نم ہو تو ،،،،،،،،،،،،،

آج اقبال کا شعر ،،میراث میں آئی ہے انہیں مسند ارشاد،،،زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن، بے طرح یاد آیا، انسان جب کچھ کرنے کی ٹھان لے تو کچھ بھی اس کے سامنے نا ممکن نہیں رہتا،وہ فرہاد ہو تو پہاڑ کاٹ ڈالتا ہے ،ابن بطوطہ ہو تو دنیا کھنگال مارتا ہے کولمبس ہو تو وہ مملکت کھوج مارتا ہے جو بعد میں ساری دنیا پہ حکمرانی کر تی ہے،عقل شعور اور دماغ ہر کسی کو عطا کیا جاتا ہے بس کوئی اسے استعمال کر کے ارسطو اور سقراط بن جاتا ہے اور کوئی ہلاکو اور چنگیز خان، اور بعض بہادر شاہ ظفر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں اگر یہی بات قوموں اور ملکوں کی زندگی پہ منطبق ہو تو ایک ہی سال میں آزاد ہونے والے ملکوں میں سے ایک انڈیا بنتا ہے ایک پاکستان اور ایک چائینہ،بات عزم ہمت اور جہد مسلسل کی ہے،کوئی بھی شخص ادارہ قوم اور ملک اس وقت تک ترقی یافتہ دنیا کہ صف میں شامل نہیں ہو سکتاجب تک وہ بھرپور محنت اور ہمت کا عزم اور مظاہرہ نہیں کرتا،بات یہاں قوم یا ملک کی نہیں انسانوں کی ہے اور میرا موضوع بھی آج ایک انسان بلکہ عام لوگوں کی نظر میں بہت ہی عام معاشرے کے دھتکارے اور بظاہر قابل نفرت انسان ہے، حالانکہ اﷲ نے کسی کو کسی پر سوائے تقوٰی کے کوئی فوقیت نہیں دی، یہ بھی ایک المیہ ہے کہ یہاں تقسیم آج بھی انسان اور انسانیت کہ بجائے ذات پات رنگ و نسل اور خاندان کی بنیاد پہ کی جاتی ہے،اور جو بھی بظاہر اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں وہ سی بھی چھوٹے شخص کو برداشت کرنے کو تیار نہیں حالانکہ کہ اگر ان اعلیٰ خاندانوں کی تاریخ کھنگالی جائے تو وہ بڑی بھیانک ہے کیوں کہ یہ جو وراثتی سردار جاگیردار اور وڈیرے ہیں یہ آئے کدھر سے جبکہ پاکستان کی عمر ستر سال سے زیادہ نہیں،مگر یہ موضوع پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں،آج میر ا موضوع نرگس گل ہے،یہ نرگس گل کون ہے یہ نرگس بھی ہے اور گل بھی کیوں کہ اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ گل نرگس ہے،اس کا باپ قمر عباس تلخی حیات سے گھبرا کر اس کی پیدائش سے چند ماہ قبل گھبرا کر کہیں دور نکل گیا اور آج تک واپس نہیں آیا، بہت بعد میں پتہ چلا کہ اس نے کہیں جہلم جا کے شادی کر لی،باپ کی شفقت سے محروم نرگس نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو ایک جگھی میں پایا،جس میں نہ کوئی مناسب روشنی تھی ،گیس ، پانی نہ پنکھا،چند میلے کچیلے کپڑے اور ٹوٹے پھوٹے برتنوں اور ایک کچے گھڑے کے علاوہ جھگی میں کوئی چیز بھی نہ تھی،یہ جو کچھ تھا یہی ان دونوں ماں بیٹی کی کل کائنات تھی اور یہی ان کی زندگی کا سرمایہ،نرگس کی ماں کا تعلق بنجارو ں کے خاندان سے تھااور ان لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ گاؤں دیہاتوں اور ان کے مکینوں کی طرف سے دیا گیا کھانا ہوتا ہے اکثر و بیشتر وہی ان کے حصے میں آتا ہے جسے عام لوگ کھا نہیں سکتے یا بچ جاتا ہے مگر کہیں نہ کہیں سے کبھی نہ کبھی تازہ کھانا بھی مل ہی جاتا ہے،مگر مسئلہ صرف کھانا نہیں تن پہ پہننے کے لیے کپڑے بھی چاہیے ہوتے ہیں جو بھی اکثر و بیشتر استعمال شدہ یا جسے اترن کہا جاتا ہے ان کو مل جا تا ہے،یہ جگھی واس لوگ سردی گرمی اسی ایک جگھی میں گذارتے ہیں اور سورج کے ساتھ ساتھ اپنے بستر ساری جگھی میں گھسیٹتے ہیں،جدھر سایہ جاتا ہے تھوڑی دیر بعد ان کا بستر اسی کونے کھدرے میں گھسٹ جاتا ہے،ذیادہ گرمی یا سردی میں ان لوگوں کا امتحان ہو تا ہے جس پہ یہ پورے اترتے ہیں مگر بارش اور لگاتا بارش ان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتی اور سردی کے موسم میں تو میں اور آپ ان کی زندگی کے شب و روز کا تصور بھی نہیں کر سکتے،نرگس کی ماں نے پیدائش کے بعد اپنی نومولود بیٹی کو دیکھا اس کے نصیبوں کے لیے دعا کی اور ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا اور وہ فیصلہ یہ تھا کہ اس کی بیٹی بنجارن نہیں بنے گی بلکہ پڑھ لکھ کے ڈاکٹر بنے گی اور دوسرے لوگوں کے لیے مثال قائم کرے گی،نرگس گل کی ماں نے اپنی یہ خواہش جب دوسری جگھیوں کے مکینوں کے سامنے رکھی تو ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہر طرف سے تعن و تشنیع کے تیر آنے لگے کہ تیرا دماغ خراب ہے ہم فقیر اور بھکاری ہیں ہمارے بچے بھیک مانگتے ہوتے ہیں ڈاکٹر بننا تو کیا ڈاکٹروں کے گھروں کے سامنے سے نہیں گذر سکتے تیری بیٹی کی تعلیم کا خرچ کون برداشت کرے گا اور سب سے بڑھ کریہ کہ تیری بیٹی کو داخلہ کون دے گا تو پاگل مت بن اور اس کو بھی اسی طرح اچھی بھکارن بنا چار پیسے کما لائے گی تیرا اور اس کا پیٹ بھرتا رہے گا،نرگس کی ماں نے چپ کر کے اپنے بزرگوں کی یہ بات سنی مگر اپنے اندر جو عزم وہ کر چکی تھی اس پر ڈٹ گئی،اس کے اس عزم میں نرگس کے نانا نے ملازم حسین نے نرگس کی ماں آسیہ بیگم کے سامنے ہتھیا ر ڈال دیے،نرگس کی ماں نے ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل کرنے کی ٹھان لی،نرگس کی ماں کی نیت شاید قدرت کو بھی یوں پسند آئی کہ جھگیوں کے بلکل ساتھ ہی گاؤں کا گرلز اسکول واقع تھا ،نرگس چار سال کی عمر کی ہوئی تو اس کی ماں اسے ساتھ لیکر اسکول جا پہنچی اول تو ٹیچرز نے ٹال مٹول کی مگر ماں کا شوق اور بیٹی کی آنکھوں میں علم کی لگن دیکھ کر اسے اسکول میں داخل کر لیا گیا،نرگس نے داخل ہو تے ہی باقاعدگی سے اسکول جانا اور وقت پر اپنا کام مکمل کرنا وطیرہ بنا لیا،نرگس کی ماں نے لوگوں کے گھروں میں کام کاج کر کے بیٹی کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا،نرگس پہلے سال ہی اپنے اسکول میں پوزیشن ہولڈر بن گئی،ماں کا عزم اور جوان ہوا اور تعلیم کا سلسلہ رہا،پرائمری کے بعد مڈل اور اس کے بعد ہائی کے لیے نرگس کو اسکی ماں نے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول نمبر 1میں داخل کروا دیا،اب ٹیوشن کا مسئلہ بنا تو گاؤں کے ہی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نیک دل نوجوان شکیل جس کی اپنی اکیڈمی ہے نے نرگس کو بلا معاوضہ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا یہ سارا سلسلہ یونہی جاری رہتا اور کبھی نرگس کی یہ اسٹوری سامنے نہ آتی اگر میٹرک کا رزلٹ نہ آتا،میٹر ک کا رزلٹ آیا تو بہت سے تو نرگس کا رزلٹ دیکھ کر بہت سے اعلیٰ خاندانوں اور گھروں کے بچے بچیوں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں جی ہاں نرگس نے کل 1100میں سے 1004نمبر حاصل کر لیے،یہ رزلٹ لیکر جب وہ گھر پہنچی تو ایک لمحے کے لیے اس کی ماں پہ بھی سکتہ طاری ہو گیا اور بعد میں خوشی کے آنسو یوں نکلے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے ماں بیٹی دیر تک ایک دوسرے سے لپٹی رہیں،نرگس نے اپنی ماں کو اس کی محنت کا صلہ دے دیا تھا،نرگس کی ماں سے جب بات ہوئی تو اس کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے محدود وسائل میں جو کچھ ممکن تھا کر دیا اس سے زیادہ اب میری بساط نہیں دیکھ لیں میری بیٹی کسی سے کم نہیں اب یہ میری نہیں قوم کی بیٹی ہے اور اب قوم جانے اور اس کی بیٹی،میں کسی سے کچھ نہیں مانگوں گی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف جو ہر لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھتے ہیں اپنی بیٹی کو سنبھالیں اور اس کی تعلیم کا ذمہ لیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ نرگس کی ماں نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی اور گیند اب قوم اور حکمرانوں کی کورٹ میں ڈال دی دیکھئے قوم،ریاست اور خادم اعلیٰ اپنی ذمہ داری کب اور کیسے نبھاتے ہیں تاہم خبر میڈیا میں آنے کے بعد بہت سے مخیر حضرات نے مجھ سمیت بہت سے میڈیا پرسنز سے رابطہ کر ک اس بچی کی کفالت اور مدد کی حامی بھری ہے،مجھے جن لوگوں نے کال کی ان میں ایک نئے شروع ہونے والے ٹی وی چینل کے مالک،سابق ایم ڈی بیت المال چوہدری زمرد اور سابق ضلعی ناظم سردار غلام عباس شامل ہیں،ان لوگوں نے کال کر کے اس غریب بچی کی مدد اور کفالت کا وعدہ کیا ہے ان تمام لوگوں کا جذبہ یقینا قابل تحسین ہے اس کا صلہ اور ان کی نیت کا پھل اﷲ ان کو ضرور دے گا،،،،،،،،،،اﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو،،