پیر سید محمد مظہر قیوم شاہ مشہد ی

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زندگی تمام انسانیت کے لیے نمونہ ہے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ ﷺ
خیال و فکر کی سچائیاں بھی شامل ہیں
میرے لہو میں میرے شجرہ نسب کی طرح
حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز سے وابستہ ابتدائی یادوں کے کئی گوشے حضرت اقدس حضرت پیر سید محمد مظہر قیوم مشہدی حضرت ثانی صاحب سے منسلک ہیں۔ �آپ بڑے نفیس الطبع منکسر المزاج جلیل القدر شخصیت کے حامل تھے مجھے زمانہ طالب علمی اور بعد میں سفر و حضر میں آپ کی سنگت اور صحبت کا بہت وقت ملا۔ وہ طویل زمانہ جب آپ کو ’’وڈّے بھا جی ‘‘کہا جاتاتھاوہ بھی میرے سامنے ہے اور وہ عہد جس میں آپ کو قبلہ حضرت صاحب کہہ کر ذکر کیا جاتاتھا وہ بھی میرے مشاہدے میں ہے آپ کی زندگی کے چند گوشے ایسے بھی ہیں۔ جن کا صرف میں ہی گواہ ہوں ۔وہ وقت بھی میرے احاطہ خیال میں ہے جب میں ابھی جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف کے شعبہ حفظ میں بھی داخل نہیں ہواتھا مگر اس سے کافی پہلے حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کی صحبت میں بیٹھنے چلا جاتا تھا۔ اور حضرت ثانی صاحب نے مجھے کسی کام کے لیے بلانا ہوتا تھا تو کسی سے کہتے تھے کہ’’ ایتھو صوفی سرورصاحب دے چھورے نوں بلائیں ‘‘ میں ابھی سکول میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا جب نماز تراویح کے لیے روزانہ ابا جی کے ساتھ محلہ عقلانہ سے چل کر حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کی مسجد میں جایا کرتے تھے اور آپ کی معیت میں استاذ محترم قاری نذر حسین جلالی کی امامت میں نماز تراویح ادا کرتے تھے یہ معمول کئی سالوں کے رمضان کے مہینوں میں جاری رہا۔ جون ،جولائی کی گرمی ہوتی تھی، جب حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز نماز سے فارغ ہو جاتے تو چند احباب پاس بیٹھ جاتے اور آدھے پونے گھنٹے تک محفل جمی رہتی ۔حضرت ثانی صاحب بھی اکثر تھوڑے سے فاصلے پر قریب ہی بیٹھے ہوتے تھے اس طرح آپ سے بھی اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔( میری حضرت ثانی صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ کئی حصوں پر مشتمل ہے ۔سب سے پہلے جب آپ مجھے حضرت حافظ الحدیث ایک مخلص مرید کے بیٹے کے لحاظ سے جانتے تھے، پھر ساتھ ساتھ حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کے مرید کے لحاظ سے ،پھر جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ کے طالب علم کے لحاظ سے، پھر جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف کے فاضل کے لحاظ سے ،پھر بغداد شریف کے فیض یافتہ کی حیثیت سے ،پھر جامعہ جلالیہ رضویہ مظہر الاسلام داروغہ والا لاہور کے پرنسپل کے لحاظ سے) وابستگی کے اس پورے عہد میں بندہ ناچیز نے حضرت ثانی صاحب میں حد درجہ اپنائیت کو محسوس کیا ۔میں ابھی نویں کلاس میں سکول میں پڑھتا تھا ۔اس وقت بھکھی شریف سے منڈی بہاؤالدین جانا بھی بہت کم تھا ۔منڈی بہاؤالدین سکول محلہ میں جامعہ جلالیہ رضویہ کا سالانہ جلسہ تھا۔ میں اباجی سے اجازت لے کر جلسہ سننے چلا گیا ذہن میں یہی تھا جلسہ سننے کے بعد رات وہیں مسجد میں رہوں گا صبح بس پر بیٹھ کر واپس آجاؤں گا جلسہ میں حضرت ثانی صاحب بھی موجود تھے۔ جلسہ کے بعد میں مسجد میں ہی بیٹھا تھا۔ حضرت ثانی صاحب نے باہر سے مجھے بلا بھیجا اور کہا چلو آپ نے بھی گھر جانا ہو گابھکھی شریف چلتے ہیں یوں اسی زمانے میں حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کے زیر استعمال جو پرانی مگر متبرک جیپ تھی اس میں بیٹھ کر ہم بھکھی شریف پہنچے یہ حضرت ثانی صاحب کے ساتھ میرا پہلا سفر تھا ۔ہاں اس سے پہلے بھی اک سفر تھا،جب میں بھکھی شریف سکول میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا لیکن وہ سفراصل میں حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کی معیت میں تھا۔ ہمارے چچا محمد مرزا کاڈیرہ جو کٹھیالہ شیخاں کے قریب پڑتا ہے انہوں نے عزیزم مولانا محمد رضاء المصطفیٰ رازی کے والد محمد منور اقبال گوندل کو حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر بیعت کروانا تھا۔ اس موقع پر حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز سے حصول برکت کے لیے ڈیرے پر دعوت کا ٹائم لیا گیا۔ ابا جی نے غلام قادر ماچھی کے ٹانگے کا اہتمام کیا حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز حضرت ثانی صاحب ،والد گرامی اور بندہ ناچیزٹانگے پر اکٹھے گئے اور واپس آئے ۔

حضرت ثانی صاحب قدس سرہ العزیز جب مجھے منڈی بہاؤالدین سے اپنے ساتھ بٹھا کے بھکھی شریف لائے اس عمل نے آپ کی سیرت کا خصوصی نقش میرے مزاج پر مرتب کیا حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کے وصال کے بعد جب آپ سجادہ نشین بنے۔ بندہ ناچیز اس وقت چھوٹی موٹی تقریر بھی کر لیتا تھا حضرت ثانی صاحب کے ساتھ بحیثیت خادم اور مقرّر کے اعتبار سے رفاقت کا موقع ملا مریدین کے گھر تشریف لے جاتے تو سلام دعا کے بعدسب سے پہلے اچھی طرح ان کی خیریت معلوم کرتے۔ مریدین کے مسائل سنتے پھر ان کی دلجوئی فرماتے مجھے اچھی طرح یاد ہے قاری محمد یعقوب جلالی آف بیر بل شریف اپنے گھر میں دعا کروانے کے بعد ڈیرے پر لے گئے ۔حضرت ثانی صاحب کو گاڑی سے اتر کر کافی پیدل چل کے جانا پڑا رات کا وقت تھا قاری صاحب کبھی جانوروں کے باندھنے کی جگہ دعا کروارہے تھے اور کبھی کسی کھیت میں دعا کروار ہے تھے اور جب حضرت صاحب واپس گاڑی کے پاس آئے میں اور حافظ علی احمد مرحوم گاڑی کے پاس کھڑے تھے یہی دیکھ رہے تھے کہ قاری محمد یعقوب جلالی نے کہاں کہاں دعا کروائی ہے حضرت صاحب فرمانے لگے کوئی بات نہیں جب تک چلنے پھرنے کے قابل ہیں یوں دعا کرتے رہیں گے پھر ایک جگہ بیٹھ جائیں گئے ۔یوں آپ مریدین کی بہت دلجوئی فرماتے تھے۔

بندہ نے حضرت صاحب کے ساتھ کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی سفر کیا آپ چونکہ پاکستان چوک گجرات کی جامع مسجد میں خطبہ کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ایک مرتبہ بندہ نے آپ کے ساتھ بھکھی شریف سے گجرات آنے جانے کا پبلک ٹرانسپورٹ پر ہی کیا ایسے ہی حضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیزکے وصال کے بعد شرقپور شریف میں حضرت شیر ربانی قدس سرہ العزیز کا جو پہلا عرس آیا اس پر حاضری بھی پبلک ٹرنسپورٹ پر ہوئی قبلہ حضرت ثانی صاحب قدس سرہ العزیز کے ساتھ ہم دس بارہ خدام تھے ۔بھکھی شریف سے گجرات گئے وہاں عشاء کے بعد حضرت قاری علی محمد جلالی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں جلسہ تھا وہاں سے فارغ ہو کر بس پر بیٹھ کر سحری ٹائم شاہدرہ اترے وہاں حضرت ثانی صاحب نے ایک ہوٹل میں نماز تہجد ادا کی پھر بس کا انتظارکرتے رہے اور پھر شرقپور شریف حاضر ہوئے اس سفر میں صوفی محمد خان رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر چند احباب بھی شریک تھے ۔ان تمام سفروں میں حضرت ثانی صاحب قدس سرہ العزیز سے بہت سی اہم چیزیں سیکھنے کو ملیںآپ کی شخصیت کے بہت سے سنہری گوشے تھے ان مواقع پر سامنے آئے ۔

ایک مرتبہ عید الفطر کے دوسرے دن مجھے بلایا اور فرمایا سید نوید الحسن صاحب کی والدہ صاحبہ اپنے والدین کو ملنے ادیاں شریف جانا چاہتی ہیں سید محمد نوید الحسن اور آپ ساتھ جائیں حضرت پیر سید محمد نوید الحسن شاہ صاحب کی عمر اس وقت چھوٹی تھی چنانچہ غلام قادر ڈرائیور کو بلایا گیا اورحضرت حافظ الحدیث قدس سرہ العزیز کی پرانی مگر متبرک جیپ پر ہم ادیاں شریف گئے وہاں حضرت ثانی صاحب کے سسر حضرت پیر سید منظور حسین شاہ صاحب کاظمی قدس سرہ العزیز جن سے پہلے بھی بھکھی شریف میں ملاقات ہوتی رہتی تھی بڑے باکمال سید تھے ان سے ملاقات ہوئی ان کی زبان سے حضرت صاحب قدس سرہ العزیز کے بارے میں جو کلمات حسین سنے ایسے کم ہی کوئی سسر اپنے داما کے لیے بولتا ہے ۔

آپ بھکھی شریف دربار شریف پر حاضر ہونے والے خاص و عام کا بڑا خیال رکھتے تھے اور اس کی تلقین بھی فرماتے تھے ایک دفعہ موضع دھول ایک کے شخص کی بات بتا رہے تھے کہ وہ میرے پاس آیا میں نے حسب معمول اس سے خیریت دریافت کی اس سے چائے، پانی کا پوچھا وہ واپس گیا تو گھر والوں سے کہنے لگا کہ میں بھکھی شریف میں نسبتِ ارادت قائم کرنا چاہتا ہوں جبکہ اس کے گھر والے اسے ایک اور بڑے آستانے سے منسلک ہونے کا کہہ رہے تھے تو اس نے جواب میں کہا کہ بھکھی شریف جائیں تو قبلہ پیر صاحب چائے پانی تو پوچھتے ہیں حضرت ثانی صاحب فرمانے لگے کہ وہ اتنے پر ہی خوش ہو چکا تھا ۔
میرے عراق سے پڑھ کر واپس آنے کے بعد بغداد شریف ڈاکٹر عدنان کرموش فراجی کر اچی سے اسلام آباد آئے میں نے ان کو جامعہ محمدیہ نوریہ رضویہ بھکھی شریف کے دور ہ کی دعوت دی حضرت ثانی صاحب نے اپنے گھر میں ان کے لیے بڑی بھرپور دعوت کا اہتمام کیا۔

آپ زیر تعلیم طلبا اور فارغ التحصیل علماء پر خصوصی دست شفقت رکھتے تھے اور ان کی ضرورتوں کا بہت خیال کرتے تھے مریدین کے دکھ سکھ میں شریک ہونا ان سے ، ان کے دلچسپی کے امور شیئر کرنا اور ان کی رہنمائی کرنا آپ کی عادت کریمہ کا حصہ تھا ۔

آپ بہت بردبار اور حلیم الطبع تھے بہت سے معاملات کو جانتے ہوئے چشم پوشی فرماتے تھے۔ ناراض لوگوں کے درمیان صلح اور بچھڑے ہوؤں کو ملانے کا بھی خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ لوگوں کے جسمانی، روحانی ہر قسم کے امراضدور کرنے کی کوشش فرماتے تھے بلکہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بھی حتیٰ المقدور کوشش کرتے تھے۔ ان اوصاف کی وجہ سے خلق خدا میں آپ کی بہت کشش تھی ۔

ملی، قومی اور بین الاقومی مسائل کے حل کے لیے بھی کوشاں رہتے تھے۔ آپ کے فہم و فراست اور تدبر سے رہنمائی کے حصول کے لیے جمعیت علماء پاکستان کے اجلاسوں میں بھی آپ کو دعوت دی جاتی۔ تنظیم المدارس کے رکن شوریٰ اور جماعت اہل سنت کی سپریم کونسل کے رکن کے لحاظ سے آپ نے بھر پور کردار ادا کیا ہے ۔

مدارس اہل سنت ، مساجد ، اداروں اور مراکز کی آبادی کے لیے ہر ممکن کوشش فرماتے تھے آپ چاہتے تھے کہ اعمال کا دارومدار اخلاص اور للہیت پر ہے۔ بھکھی شریف کی مختلف برادریوں اور آئمہ مساجد کی مثال دیتے تھے کہ اگرفلاں برادری کا بندہ فوت ہو جائے تو آپ کو فلاں امام مسجد نماز جنازہ کے لیے جنازہ گاہ میں نظر آئیں گے۔ اگر کسی دوسری برادری کا بندہ فوت ہو جائے تو ان کا امام نظر آئے گا ۔یہ امام نظر نہیں آئے گا جب کہ کچھ لوگ ہیں جو تمہیں کسی بھی برادری کا بندہ فوت ہو نما زجنازہ میں نظر آئیں گے۔ پھر آپ حافظ محمد بشیر مرحوم کی مثال دیتے تھے کہ وہ مسجد کے امام نہیں لیکن کوئی بھی جنازہ ہو چلے جاتے ہیں ۔

ایک بار تذکرہ ہور ہا تھا کہ فلاں عالم دین کے کسی بیٹے نے علم دین نہیں پڑھا فلاں کے تمام بیٹے بھی دوسری لائن پہ چلے گئے ہیں آپ نے اسی پر جاندار اور حقائق پر مبنی تبصرہ کیا آپ نے فرمایا کچھ لوگ جنہوں نے حادثاتی طور پر علم دین پڑھا غربت تھی یتیمی تھی کوئی آسرا نہیں تھا چنانچہ مدرسہ میں آگئے اور علم دین پڑھ لیااگر ان کی طلب علم کے پیچھے جذبہ صادق نہیں تھا قرآن و سنت کے نور کو پھیلانے کا مقصد نہیں تھا دوران تعلیم اور پڑھ کے بھی انہوں نے اپنی نیت کی اصلاح نہیں کی پھر پیسہ آگیا ان کی اولادوں پر یہ اثرات مرتب ہوئے کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہمارے والد صاحب تو علم دین کی طرف آئے تھے کہ ان کا کوئی سہارا نہیں تھا آج ہم تو ٹھیک ٹھاک ہیں ہم اس شعبہ میں کیوں آئیں نتیجۃ وہ علم دین سے راہ فرار اختیار کر گئے ۔

میرے خیال میں اس کے علاوہ بھی چند وجوہات بھی ہیں جب بچے اپنے والد کے علم کے مطابق اس کا عمل نہ دیکھیں یا اپنے عالم باپ کی زبان سے اپنے ہی شعبہ کے خلاف گفتگو سنیں یا اپنے عالم باپ کے ساتھ لوگوں کی بد سلوکی دیکھیں اس سے بھی وہ علم دین بلکہ بعض دفعہ اس شعبہ ہی سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں العیاذ باللہ
khalid mehmood
About the Author: khalid mehmood Read More Articles by khalid mehmood: 2 Articles with 4538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.