وادئ نمل کے تعاقب میں

پیارا پاکستان واقعی ایک جنت کا ٹکڑا ہے اس بات کا یقین ہمیں چنددن پہلے ہی ہوا تھا۔ہوا کچھ یوں کہ ہمارا پروگرام نمل جھیل کی سیر کرنے کا بن گیا۔

دو ہمسفر میرے ساتھ ہو لئے اور یوں ہم نے ایک تاریخی مقام کی سیر کر کے پورا تو نہیں البتہ آدھا یا اس سے کچھ زیادہ تیر مار ہی لیا ۔وہ بھی ہمارے خیال کے مطابق۔

بہر حال ہم صبح سویرے جائے سیر پر موجود تھے۔ٹھنڈی ہوا کاذکر نہ کرنا اس سے نا انصافی ہو گی۔باد نسیم کچھ ”اوور سمارٹ“ لگ رہی تھی۔ہوا میںتلوار کی سی کاٹ تو نہیں تھی ،البتہ چاقوسے قدرے کم تھی ۔
خیر ہم نکلے جو تھے سیر کرنے اس لئے ہوا کو برداشت کئے بنا چارہ نہ تھا۔راستہ کیا تھا،بس کیا بتاﺅںاسے راستہ کہنا مناسب نہیں لگتا۔کیوں کہ یہ علاقہ پہاڑی تھا، اس لئے صاف راستے کا تو کوئی تصور تک موجود نہیں تھا۔جا بجا پتھر،کہیں چھوٹے کہیں بڑے،بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ ہر عمر کے پتھر وہاں راستے میں وافر مقدار میں موجود تھے۔

بلند و بالا سے تھوڑی سی چھوٹی پہاڑیاںدعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔اور ہم نے یہ دعوت خوب شوق سے اڑائی۔اور ان سب کو کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرتے ہوئے چلتے بنتے نظر آئے۔

ان راستوں کو مقامی زبان میں ”چھرکیا ں“ کہا جاتا ہے،یعنی ایک قسم کی پگڈنڈیاں تھیں۔کچھ ٹیلے جھوتے ہوئے نظر آرہے تھے،یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی نیچے آئے ۔لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔

ان کی تین قسم کہ پرتیں بنی ہوئی تھی اور ان کے درمیان خالی جگہیں تھیں۔جن میں سے دو کے درمیان نمل جھیل واقع تھی۔اور باقی جگہ خالی تھی۔ایسالگتا تھا کہ” سچے زمانے“ میں یہ جگہ پانی ہی نے پر کی ہو ئی تھی۔اور اب خیر سے یہ ہم لوگوں کا زمانہ ہے۔یعنی کہ اب وہاں پانی نہیں ہے۔محسوس مت کیجئے گا۔

ہم لوگوں کا ٹارگٹ وہ پل تھا جو انگریزوں نے تعمیر کیا تھا۔اسے یہا ں کی زبان میں ”گنڈی“ کہا جاتا ہے ۔جس کا کام جھیل کے پانی کو کنٹرول کرنا ہے۔ یہ پانی یہاں سے ہوتا ہوا موسیٰ خیل کے علاقے میں جا کے دم لیتا ہے۔اور یہاں کی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے اس پانی کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔یہ پل انگریزوں نے غالباً1847 یا اس سے قبل تعمیر کیا تھا،اورانہوں نے اس کی تقریباً ساٹھ سال کی گارنٹی دی تھی۔

اور آج اس کو تقریباً 115سال ہو گئے ہیں یہ اسی طرح موجود ہے۔نیچے سے جہاں پانی گزرتا ہے وہاں سے اب یہ تھوڑا تھوڑا گھستا جا رہا ہے۔چونکہ یہ ایک تاریخی جگہ ہے اس لئے پاکستانی قوم کا خیال ہے کہ اسے اسی طرح رہنے دیا جائے ۔اگر ذرا سی بھی مرمت کر دی تو اس کی تاریخ میں یہ ملاوٹ تسلیم کی جائے گی اور ہم کو یہ کسی قیمت پر گوارا نہیں۔

اس لئے تاحال یہ اسی طرح موجود ہے۔پل کی بناوٹ کچھ یوں ہے کہ اس میں گرڈر کے اوپر سیمنٹ کے تختے لگے ہوئے ہیں۔اور ساتھ میں جنگلے بھی لگے ہوئے ہیں تا کہ کسی ممکنہ حادثے سے بچا جاسکے۔پل میں ایک کنواں موجود ہے ۔اس کے اندر دروازے لگے ہوئے ہیں جہاں سے پانی گزرتا ہے۔ اور اس کے کنوئیں کے اوپر دو والو لگے ہوئے ہیں۔

جہاں سے ان دروازوں کو حسب ِ ضرورت کھولا اور بند کیا جاتا ہے۔کنوئیں کے آس پاس لوہے کی چھ مشینیں ہیں۔ یہ بھی پانی کے نکاس کے لئے ہی ہیں۔لیکن اب یہ زنگ آلودہیں۔

اور انہیں کھولنا ممکن نہیں۔پل سے اگر ادھر ادھر جھانکا جائے تو سر چکراتا محسوس ہوتا ہے ۔کیونکہ یہ پل کافی بلندی پر تعمیر شدہ ہے ۔دائیںطرف سے جھیل کا پانی آرہا ہے۔اوربائیں طرف سے پانی دروازوںسے ہوتا ہوا دوسری جانب جا رہا ہے۔میرے خیال سے میں کچھ زیادہ ہی اس پل کی تعریف کے پل باندھ رہا ہوں ،اس لئے اب ہم پل سے اترتے ہوئے آگے کی جانب چلتے ہیں۔تا کہ کوئی آنکھوں کا ذائقہ تبدیل ہو جائے۔اب ہمیں پیاس محسوس ہورہی تھی۔پانی تو ہر طرف تھا لیکن پینے کے لئے ایک گھونٹ بھی موجود نہیں تھا۔
خیر ہم پل سے نیچے اتر آئے۔نیچے ڈھلوان کافی زیادہ تھی۔سو اترنے کے لئے سیڑھیاں بنائی گئیں تھیں۔بل کھاتی ہوئی ان سیڑھیوں سے نیچے اترتے اترتے چھٹی کا دددھ یاد آگیا۔

ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں اور زبان خشک چمڑے میں تبدیل ہو رہی تھی۔لیکن ہم نے اسے تبدیل ہونے سے روک دیا،وہ اس طرح کہ آگے پانی کا ایک چشمہ تھاہم نے ہاتھ سے پیالہ بنایا اور پانی پینے کی کوشش کی۔بمشکل ہی کوئی چند گھونٹ پیئے اس کے بعد اور ہمت نہ تھی۔کیونکہ پانی انتہائی نمکین تھا اور اس میں کڑواہٹ بھی موجود تھی۔بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ یہ پانی وہ پانی نہیں جو آپ کو بیٹھے بٹھائے گھر میں مل جاتا ہے،بلکہ یہ گندرف ملا پانی ہے۔اور کوڑھ کے مریضوں کے لئے مفید ہے،اس کے علاوہ یہ خارش کے لئے بھی اکسیر ہے۔چشمے کی شکل و صورت اس طرح تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ دو غاریں ہیں۔ایک دائیں طرف کو تھی تو دوسری اس سے روٹھی ہوئی محسوس ہو رہی تھی یعنی دوسری بائیں طرف تھی۔اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ دو آدمی اس کے اندر داخل ہوئے۔ایک دائیں طرف سے اور دوسرا بائیں طرف سے۔ ان کے اندر تجسس پیداہو گیا تھا کہ یہ پانی کہاں سے آرہا ہے ۔غار یں صرف اتنی ہی کھلی ہوئی کہ ان میں سے ایک ہی وقت میں ایک شخص لیٹ کر گزر سکتا ہے۔سو وہ آدمی گئے۔اور ابھی تک نہیں آئے۔بالآخر اسی تجسس نے ان کی جان لے لی۔میرا خیال یہ ہے کہ آکسیجن کی کمی کے باعث گھٹن پید اہو ئی ہو گی۔
اور اس وجہ سے وہ ختم ہو چکے ہوںگے۔بہر حال کوئی اور بھی وجہ ہوسکتی ہے۔خیر ہم نے پانی اور نہیں پیا اور پیاس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر آگے چل دیئے۔

وہ تو ہمیں اس وقت خیال آیا کہ ہم نے غلطی کر دی ہے ،کہ پانی کی بوتل تو ساتھ میں لیتے جاتے۔لیکن اب ان شاءاللہ ہمیشہ یاد رہے گا کہ پانی ساتھ میں رکھنا ضرور ی ہے۔

بہر حال ہم اس چشمے سے تھوڑا سا آگے گئے۔یہاں پر کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور کچھ سفیدے کے ۔کیکر تو یہاں پر وافر مقدار میں موجود تھا۔جہاں پر اس وقت ہم موجود تھے،یہ جگہ با لکل سبزے سے مالا مال تھی۔ ٹیلے یہاں اس قدر اونچے تھے کہ دن کے بارہ بجے جب سورج سر پر ہوتا ہے اس وقت جا کے کہیں اس جگہ پر روشنی پڑتی ہے۔اور اس وقت ساڑھے گیارہ یا ا س کے لگ بھگ وقت تھا۔
اب ہم تھک چکے تھے اور آگے کا راستہ بھی کافی سنسان تھا۔اس لئے ہم نے یہاں تک ہی سیر مکمل کی اور اسی پر اکتفا کیا۔اب واپسی تھی ۔اس کے بعد ہم گھر آئے۔کچھ دیر سستانے کے بعد ہم نے مچھلیاں پکڑنے کا ارادہ بنایا۔ اس ارادے کو پایہ ¿ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک عدد کنڈی اور ڈنڈے کی ضرورت تھی۔میں تو پہلے یہی سمجھتا تھا کہ مچھلیاں یا تو کنڈی لگا کے پکڑی جاتی ہیں یا جال لگا کر۔لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔یہاں جو لوگ مچھلیں پکڑتے ہیں وہ ڈنڈے کے زور پر پکڑتے ہیں۔یعنی جس کی لاٹھی اس کی مچھلی۔پہلے پہل تو مجھے ےقین نہیں آیالیکن جب خود آنکھوں سے دیکھا تو میرے ساڑھے تیرہ طبق روشن ہو گئے۔ایک بات کا مجھے افسوس رہے گا کہ آدھا طبق روشن ہونے سے کیوں رہ گیا۔بہر حال آپ بھی حیران ہو لیں اور دیکھ لیں کہ کس طرح ڈنڈے کے ذریعے مچھلی اغوا کی جاتی ہے۔کیا کچھ یوں جاتا ہے کہ جونہی مچھلی نظر آئی اسی وقت بلا تاخیر اس پر ایک عدد ڈنڈا رسید کر دیا۔مچھلی کو دن میں تارے نظر آجاتے ہیں اور وہ ان تاروں کو دیکھنے میں ابھی مگن ہی ہوتی ہے کہ جلاد صاحب اسے پانی سے کھینچ کر زمین پر آرام سے” پٹخ “دیتا ہے۔اتنے میں مچھلی کے پاس موت کا فرشتہ پہنچ جاتا ہے۔روح وہ اچک لیتا ہے اور جسم ہم لے جاتے ہیں۔اس طرح ہم نے قریباً آٹھ ایک مچھلیوں کو لقمہ اجل بنا دیا ۔یاد رہے کہ ڈنڈ ے کا طریقہ صرف وہاں قابل ِ استعمال جہاں پے پانی قدرے کم ہو اور مچھلی آپ کی رینج میں ہو۔ورنہ وہی عام طریقے استعمال ہوتے ہیں۔

مچھلیوں کی پانی سے رہائی کے بعد ہم لوگ واپس گھر آگئے۔اور یوں ایک تاریخی جگہ کو ہم نے اپنی ملاقات کاشرف بخشا۔اب تو دل اور بھی مچلنے لگ گیا ہے کہ مزید تاریخی مقامات کو اپنا شرف ِدیدار بخشا جائے۔
Rafaqat Hayat
About the Author: Rafaqat Hayat Read More Articles by Rafaqat Hayat: 8 Articles with 22673 views just a student.... View More