ایسے افراد جن کی اپنے گھر میں پانچ پیسے کی اوقات نہیں وہ مسجدوں میں کیوں ہٹلر بنے بیٹھے ہیں؟

امام کی آہ سے بچو،ورنہ نسلیں برباد ہوجائیں گی،کہیں سکون نہیں ملے گااورایڑیاں رگڑ رگڑ کرمروگے آخرقوم مسلم اپنے امام کو مجبور،مقروض، دَبا کُچلا، مفلس اور قلاش دیکھناکیوں پسندکرتی ہے؟؟
 امامت کی دو ْقسمیں ہیں،اول امامتِ کبریٰ اور دوم امامتِ صغریٰ۔امامت کبریٰ یعنی حضوراقدس ﷺکی نیابت اور امامت صغریٰ یعنی نماز کی امامت۔امامتِ نمازکے یہ معنی ہے کہ دوسروں کی نمازکا اس کی نماز سے وابستہ ہونایعنی امام اپنی نماز کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نماز پڑھائے۔صدرالشریعہ علامہ محمد امجد علی اعظمی صاحب تحریر فرماتے ہیں:’’امام ومؤذن کو ان سب کے برابر ثواب ہے جنہوں نے ان کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔‘‘(بہارشریعت،حصہ سوم،ص۵۵۸)رسول اﷲ ﷺنے فرمایا:’’اگر تمہیں اس بات کی خوشی ہے کہ تمہاری نماز قبول ہوتوتم میں بہتر شخص امامت کرے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ،بحوالہ:جامع الاحادیث،حصہ اول، ص۵۳۹ )حضورﷺنے فرمایا:’’اپنے اماموں کو بہتر چنوکہ وہ تمہارے اور رب کے درمیان قبولیت نماز کاوسیلہ ہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ،بحوالہ:جامع الاحادیث،حصہ اول، ص۵۳۹ )گویاکہ امام مقتدیوں کی نماز کاوکیل ہے۔مگر افسو س!آج مصلیان ،امام کے مقام ومرتبہ اور فضیلت سے غافل ہیں۔آئے دن امام کی عزت ِ نفس کے ساتھ کھلواڑ کیاجاتاہے۔ہماری سوسائٹی میں امام کاتصور مجبور،مقروض اور دبی کچلی ذات کاہے۔ہماری قوم امام کوہمیشہ مفلس اور قلاش دیکھناپسندکرتی ہے۔وہ یہ چاہتی ہی نہیں کہ ایک امام اچھے مکان میں رہے،عمدہ کپڑے پہنے،ٹیکنالوجی کااستعمال کرے اور خوشحال زندگی گزارے۔اس ہفتے راقم نے شہر مالیگاؤں کے کئی اماموں سے ملاقات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ شہر مالیگاؤں میں امام صاحبان کو کیادشواریاں درپیش ہیں اور ان کی زندگی کتنی خوشحال ہے؟مگر یہ جان کر انتہائی تعجب ہواکہ مصلیان، امام صاحبان کو تکلیف دینے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رکھتے۔کھُلے عام امام صاحبان کی عزت کوتارتار کیاجاتاہے۔ہمارے شہر میں ایسے بھی افراد موجود ہیں جن کی اپنے گھر میں پانچ پیسے کی اوقات نہیں مگر وہ حضرات مسجدوں میں ہٹلر بنے بیٹھے ہیں،انھیں اس وقت چلّو بھر پانی میں ڈوب مرناچاہیے جب وہ امام صاحب کو چٹائی کی صفائی ،وضوکھانے کی مرمّت اور منبر ومحراب کی درستی کاحکم دیتے ہیں۔شہر کی مسجدوں میں تو مؤ ذن ہوتے ہیں مگر مضافات میں اکیلاامام ہی صفائی کرتاہے،اذان دیتاہے اور اکیلے ہی نماز پڑھتاہے۔جو شخص اﷲ کی بارگاہ میں ہماری نماز کا سفیر ہے کچھ چنگیز صفت لوگوں نے امام کو اتنانیچاتصور کرلیاہے کہ طہارت خانے کی صفائی تک کا حکم دیتے ہیں۔

راقم کو یہاں تک بتایا گیاکہ اگر امام صاحب کسی سبب سے نمازفجر میں پہنچ نہ سکے تو مساجد کے جاہل اور بے عمل ٹرسٹی تمام نمازیوں کے سامنے کہتے ہیں کہ’’ امام صاحب ایسا آئندہ نہیں ہوناچاہیے ورنہ تنخواہ کاٹ لی جائے گی‘‘۔ارے نادانو!آپ امام ومؤذن کو تنخواہ دیتے ہی کتنی ہو؟جو بات بات پر کٹ کرنے کی بات کرتے ہو؟شہر میں بعض مساجد کی ایسی کمیٹیاں ہیں جو ہر سال صرف اس وجہ سے امام تبدیل کردیتے ہے کہ اگر ایک ہی امام ہمیشہ رہاتو تنخواہ میں اضافہ کرناہوگا۔بعض مساجد میں ائمہ کی تنخواہ اس شرط پر بڑھائی جاتی ہے کہ صبح وشام مدرسہ پڑھانا ہوگا ، یعنی تنخواہ کے ساتھ ڈیوٹی میں اضافہ ہونالازمی امرہے اور بعض جگہ اس شرط پر اضافہ کیاجاتاہے کہ مسجد کی پاؤتی تقسیم کرناہوگی اور چندہ جمع کرناہوگا۔جبکہ تعمیری چندہ ہویا روزمرہ کے اخراجات کی رسید،یہ ذمہ داری انتظامیہ کی ہے نہ کہ امام صاحب کی۔مسجد کی تعمیر وتوسیع اور رنگ وروغن پر تو لاکھوں روپے کا بجٹ بنایاجاتاہے مگر ائمہ مساجد سے صَرف نظر ایک لمحۂ فکریہ ہے۔امام صاحبان کے ساتھ غلاموں سا سلوک کرنے میں ہمارے یہاں کے ڈاکو صفت ٹرسٹیان ذرہ برابرشرم محسوس نہیں کرتے۔اسی سال ایک امام صاحب نے ہم سے مسئلہ دریافت کیاکہ آج میرے بچے کاہاسپٹل سے ڈسچارج ہے ،ایک سیٹھ بل اداکررہاہے مگر یہ بول کرکہ یہ پیسہ زکوٰۃ کاہے کیامیں لے سکتاہوں؟امام صاحب کے حالات ایسے تھے کہ شریعت اسلامیہ کی روشنی میں انہوں نے اپنے بچے کاڈسچارج زکوٰۃ وصدقات کے روپیوں سے کیا۔کیاگزر رہی ہوگی اس امام کے دل پر جب وہ منبرپر کھڑے رہ کر فرضیت زکوٰۃ ،احکام ،مسائل اور مستحقین کے حوالے سے خطاب کررہاہوگاکہ اسے اس کی ہی قوم نے زکوٰۃ لینے والابنادیاجب کہ وہ قوم کاامام ہے۔اگر امام صاحب نئی گاڑی خرید لے،عمدہ کپڑے پہن لے اور اچھاساموبائیل فون استعمال کرے تو فوراًطنزیہ فقرے کَسے جاتے ہیں ’’کوئی مؤکل ہاتھ لگاہے کیا؟‘‘،’’کس کاہاتھ سرپرہے‘‘اور ’’امام صاحب اس مندی میں بس آپ ہی کااچھاچل رہاہے‘‘وغیرہ۔ایک کھاناول والے نے بتایاکہ ایک امام سے ٹرسٹیان اور نوجوانوں نے صرف اس بات پرجبراً پارٹی لی کہ اس ہفتے امام صاحب نے پانچ نکاح پڑھائے تھے یعنی امام کی زیادہ آمدنی ایسے تنگ دل لوگوں کوکھٹکتی ہے۔جب کہ یہی لوگ جب دعوت اورسیرو تفریح کاپروگرام بناتے ہیں تو انہیں کبھی امام کی یاد نہیں آتی ، ہاں!یاد آتی ہے تو بچے کے کان میں اذان دینے کے لیے،میت کے غسل ،کفن ،دفن اور فاتحہ کے لیے۔اور اگر امام صاحب ان کاموں میں کسی وجہ سے نہیں پہنچ پائے تو اﷲ ہی مالک ہے اور اگر یہ کام کسی ٹرسٹی کے گھر کاہواور امام صاحب غیرحاضرہوتوامام صاحب کااستعفیٰ تو فائنل ہے۔(اﷲ اکبر)

ایک وقت وہ تھاجب امام صاحب گلی سے گزرتے تو گلی میں موجود سبھی لوگ احترام میں کھڑے ہوجاتے،پیچھے چلنے والاآگے نکلنے کی ہمت نہیں کرتااور بااَدب لوگ دور ہی سے دیکھ کر رُک جاتے یاراستہ تبدیل کرلیتے۔مگرافسوس!آج تو پھلّی بیچنے والا بھی مسجد میں کھڑے ہوکر امام صاحب کے بیان کردہ مسئلے پر بحث کرتاہے اور اپنی نااتفاقی درج کرواتاہے۔جس امام نے اپنی پوری زندگی منصبِ امامت پرگزار دی آج اُسے ایک کم عمر نوجوان پیروں کی انگلیوں کے احکام ،رکوع وسجود اور قعدے میں کم زیادہ وقت دینے جیسی غلطیوں کی نشاندہی کرتاہوا نظر آتا ہے ۔ چھوٹی بڑی باتوں کابہانابناکر مسجدوں میں دوگروپ کابنناایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ان گروپوں کے چکّر میں پیسنے والی ذات ہوتی ہے امام کی۔اگر کسی ایک بھی گروپ کو ان کی کم وقعتی اور کم حیثیت ہونے کاعلم ہوتاہے تو وہ امام صاحب کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں اور استعفیٰ کااصرار کرنے لگتے ہیں۔ایک امام کے دل سے پوچھیے کیاگزرتی ان کے دل پر جب انھیں منصب ِ امامت سے ہٹانے کی بات کی جاتی ہے،انہوں نے نہ رات کی تاریکی دیکھی،نہ دوپہر کی دھوپ،نہ موسمِ باراں کی بے رحمی ،نہ ہی کڑکتی ہوئی سردی اور نہ ہی طبیعت کی گرانی۔ہر موسم میں اﷲ کے عطاکردہ منصب کالحاظ کرتے ہوئے پوری پوری عمر نمازوں کے اہتمام،مسجدکی خدمت اور مصلیان کی خوش آمد میں گزارا،اور آج ایک بے نمازی ٹولہ انھیں ان کے منصب سے ہٹانے کی بات کررہا ہے ۔امام صاحب آدھی آدھی رات کو بستر سے اُٹھ کر روتے ہیں،کروٹیں بدلتے ہیں اور صبر کرتے ہیں۔اے ظالمو!مظلوموں کی آہ سے بچو،اگرکسی امام کی آہ لگ گئی تو نسلیں برباد ہوجائیں گی،کہیں سکون نہیں ملے گا،ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمروگے۔اس لیے کہ اسلام میں مقتدی اپنی پوری زندگی میں صرف ایک وقت امام کے آگے جاسکتاہے ،اور وہ بھی مرنے کے بعد۔اے ہلاکوصفت انسانوں ! امام کے آگے جانے کی کوشش اپنی موت کو دعوت دینے کے برابرہے۔اُن نمازیوں کو اپنی نمازکے متعلق سوچناچاہیے جن کے دلوں میں امام کے متعلق گردوغبار ہے،کیاایک امام کے متعلق غلیظ خیالات رہتے ہوئے اس امام کے پیچھے تمہاری نماز ہوگی؟ایسی قوم سے توقع بھی کیاکی جاسکتی ہے جو ’’امام الانبیا‘‘کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں،رسول پاکﷺ کے حوالے سے ناپاک جملے استعمال کرتے ہیں،انھیں بے اختیار اور اُمتیوں کے حق میں معذورسمجھتے ہیں۔جب کہ امام کے لیے چھ شرطوں کاہونالازم ہے ،اس میں امام کا غیر معذور ہونا بھی شامل ہے۔جب دو رکعت کی نماز کا امام معذور نہیں ہوسکتاتو’’امام الانبیا‘‘کیسے بے اختیار ہوسکتے ہیں؟ہم اپنی مسجد میں ایسا امام تلاش کرتے ہے جو تمام اوصاف کا حامل ہو،جسے قدرت نے انبیاء کاامام بنایاہے وہ کیساممتازاور لاثانی ہوگا؟اب بھی وقت ہے، سُدھارواپنے آپ کو،امام کی قدر کرواوران کی تعظیم کاحق اداکرو۔اگر واقعی کوئی دشواری ہوتو اسے مل بیٹھ کرحل کرو،اس مسئلے کو چوک چورہواں اور کلبوں میں گفتگوکامدعانہ بناؤاور اگر شرعی مسئلہ ہوتوعلمائے کرام اور مفتیان عظام سے استفادہ کرو۔اﷲ پاک عقل سلیم عطا فرمائے۔آمین
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 675081 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More