کوئی پُرسان حال نہیں

عبرت کا مقام ہے کہ ہم اپنے ہی ملک میں محفوظ نہیں،کون مار رہا ہے،کون ہمارے بچوں کو اغوا کر رہا ہے،کون ہمیں لوٹ رہا ہے،کون ہماری عزتوں سے کھیل رہا ہے……؟ہمارا دوست کون ہے ،دشمن کون ؟ہمیں کچھ خبر نہیں۔عوام بے بسی ،بے چارگی اور بے چینی سے دوچار ہیں،مگر لوگ کریں تو کیا کریں؟یہاں نہ تو کوئی ان کی فریاد سننے والا ہے اور نہ ہی کوئی ہمدرد ہے،ہر کوئی صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے،کسی کوکسی سے کوئی غرض نہیں۔انسانیت کا خون اتنا ارزاں شایدپہلے کبھی نہیں تھا،جتنا آج ہے۔ہر جانب طاقت کے زور پر کمزور کو روندا جا رہاہے،انسان انسان کی بے بسی کا مذاق اڑا رہا ہے،ظالم بے دریغ اپنا ظلم کئے جا رہا ہے،انصاف نام کی کوئی چیز نظر کہیں نہیں آتی،حکمرانوں کو صرف حکمرانی کا شوق ہے، بس ہر ایک کو اپنے ماتحت لانے کی کوشش ہو رہی ہے،آخر ایسا کب تک چلے گا؟

جب آپ دوسروں کے حقوق اور ان کی سالمیت کو قائم رکھنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیں گے،تو ایک دن آئے گا کہ ایک ایسی مخلوق پیدا ہو گی، جو کسی کی نہیں سنے گی ، جو صرف خود کو ٹھیک سمجھے گی اور جو چاہے گی ،جیسا چاہے گی، گزرے گی ……اور شائدآج ایسا ہی دور گزر رہا ہے، ہر کوئی اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے،جو وہ چاہتا ہے،ویسا ہی کرتا ہے، اسے کسی بھی قانون قائدے کا کوئی لحاظ نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی طرح کی حدود و قیود میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ملک کے اہم ادارے اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں،ہر صوبے ،ہر شہر میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے ،کوئی شخص کہیں محفوظ نظر نہیں آتا،بڑے تو بڑے ،اب بچے بھی غیر محفوظ ہو گئے ہیں، معصوم اور کم عمر بچے تسلسل کے ساتھ اغوا کیے جارہے ہیں،کبھی کسی نے غور کیا ہے کہ معصوم بچوں اور بچیوں کی گمشدگیوں اور انہیں اغوا کرکے ان کی ماں کے سینے میں خوفناک آگ بھڑکانے سے ان تخریب کاروں کے کیا مفادات وابستہ ہیں، اس پرحکمرانوں، کسی عدالت،انتظامیہ ،بیورو کریسی یاپولیس نے کبھی توجہ ہی نہیں دی۔

عرب ممالک میں’’ اونٹوں کی دوڑ ‘‘جس پر اربوں روپوں کا جوا کھیلا جاتا ہے ، اسلامی ممالک سے ہی نہیں،بلکہ پوری دنیا سے اس ریس کو دیکھنے کے لئے لوگ چلے آتے ہیں۔اونٹ کی پیٹھ پر پانچ سے دس سال کی عمر کے بچوں کو کس کر رسیوں سے باندھا جاتا ہے، جب اونٹ سوار سخت چابک کو گھما کر بچے کو بے دردی سے پیٹتا ہے تو بچے کی چیخیں وہ مخصوص آوازیں ہیں،جنہیں سن کر اونٹ اپنی پوری تیز رفتاری سے بھا گ نکلتا ہے ۔ایسے ہی اغوا شدہ بچوں کو چار پائیوں کو بْننے والے بان یعنی منج کی رسیوں سے ٹانگوں کے گھٹنوں اور بازوؤں کو کہنیوں سمیت باندھ دیا جاتا ہے، روزانہ ان پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں تو روز مزید کستا چلا جاتا ہے، اس طرح دو ہفتوں کے اندر ہی بازو اور ٹانگیں دوبارہ سیدھی نہیں ہوسکتیں اور بچہ لولا لنگڑا ہو جاتا ہے۔ان کے اوباش ’’ مالک ‘‘ انہیں بڑے شہروں کے چوکوں میں صبح ’’مانگنے کمانے‘‘ کے لئے چھوڑ آتے ہیں اورشام کو سارا مال سمیٹ کر کماؤ بچہ اٹھا کر لے جاتے ہیں۔جس شخص نے ایسے آٹھ دس بچے ‘‘پال ‘‘رکھے ہیں ،سمجھیں اس کا بڑا کاروبارجما ہوا ہے۔یہ ہماری معصوم بیٹیاں کم عمری میں اغوا کرکے پھر پال پوس کر ایسی ہی جگہوں یا پھر’’ اْس بازار’’ میں فروخت کی جاتی ہیں۔ادھر اونٹ ریس میں استعمال کرنے کے لئے جوبچے اغوا کیے جارہے ہیں ،آخر یہ سبھی ان اوباشوں کی آماجگاہوں اوراڈوں پر کس طریقے سے پہنچائے جائیں گے۔

واضح رہے کہ اسی ملک کی شاہراہوں ،بحری جہازوں، لانچوں، ہوائی جہازوں کے ذریعے ہی باہر ’’برآمدگی ‘‘ہوگی اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام راستوں پر موجود ہماری پولیس اور انتظامیہ کوبھی ’’ بھرپور رضا مند‘‘کر لیا جائے گا۔ان کی مٹھیاں گرم کی جائیں گی، تب ہی ہمارے معصوم بچے بچیاں باہر شفٹ کئے جاسکیں گے ، اونٹوں کے پیچھے بندھے چیختے چلاتے ہوئے یہ معصوم وڈیروں ،سرمایہ پرستوں کے منہ پر ہنسیاں لانے کے موجب بنیں گے ۔یہ کریہہ کاروبار بچوں کے ساتھ روا رکھنے والے واقعی قابل گردن زدنی ہیں ،اگر ہمارے حکمران ، بیورو کریٹ اور حفاظتی ادارے ایمانداری سے ان کی سرکوبی کرڈالیں،تو بہت سے گھناؤنے کاروبار بند ہونے کے ساتھ ساتھ ماؤں کی گود بھی محفوظ ہو سکتی ہے،مگرصد افسوس کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں ہے۔پولیس والدین کی تربیت کو ناقص کہتی ہے۔ان کا استدلال ہے کہ ماں باپ کی سختی اور ناروا رویوں کی وجہ سے بچے گھروں سے بھاگ جاتے ہیں اور زیادہ تر خود ہی واپس آ جاتے ہیں۔پولیس سربراہان بڑی ہٹ دھر می سے بضد ہیں کہ اغوا کرنے والا کوئی منظم گروہ نہیں ہے جبکہ وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ یہ حکومت کے خلاف پراپیگنڈہ ہے،کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں ،کچھ حکومت مخالفین دانستہ عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں رواں سال میں 681 بچوں کو اغوا کر لیا گیا،ان میں سے 200بچے صرف لاہور شہر سے اغوا ہوئے،جس پر عدالت نے از خود نوٹس بھی لے لیا ہے۔

آئے روز بچوں کے اغوا اور ان سے زیادتی کے بعد قتل کرنے کی وارداتیں عام ہیں ،مگر ہمارے حکمران ،ادارے ایسے بے حس ہیں کہ انہیں ان والدین کی تکلیف کا ہر گز اندازہ نہیں، جن کے لخت جگر کو اس وقت لے کر غائب کر دیا گیا، جب وہ پارک میں تتلیوں کے پیچھے دوڑ رہا تھا ۔بادامی باغ کے علاقے سے بچوں کی کئی لاشیں ملی ہیں،لیکن حکمرانوں کو تو صرف اپنی سیاست سے غرض ہے ،اُن کو فکر ہے تو اپنے اقتدار کی ، اُن کی بلا سے چاہے عوام کے درجنوں بچوں کی لاشیں ملیں ۔اُن کے اپنے بچوں کے لئے تو پروٹوکول کی لائنیں لگی ہوتی ہیں ،ان کی حفاظت کے لئے کئی سو لوگوں کو تعینات کیا جاتاہے،مگر عوام کے بچوں کی زیادتی شدہ لاشیں مل رہی ہیں،لوگ سراپا احتجاج ہیں ،مگر ان اقتدار کے بچاریوں کی ہٹ دھرمی اور بے حسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انہیں کسی بے بس ماں کی آہ و پکار سنائی ہی نہیں دیتی ،انہیں اس بے بس باپ کا کوئی احساس نہیں ،جس کا اکلوتے بیٹے کو کوئی اغوا کر کے لے گیا اور پھر اسے اپنے معصوم بچے کی لاش بادامی باغ سے ملی۔کون اس دکھیاری ماں کا سوچے گا، جس کی تین سالہ بچی کو زیادتی کر بعد گٹر میں پھینک دیا گیا ،لیکن لگتا ہے انہیں کوئی خوفِ خدا نہیں،یہ اقتدار کے نشے میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ غیر محفوظ عوام انہیں کیڑے مکوڑے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آتے ۔

اگرچہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود نوٹس لے کر آئی جی پنجاب سے رپورٹ تو طلب کرلی ہے، مگر ایسے بے رحم ،ظالم و سفاک انسانوں کی شکل میں وحشی درندوں کو جب تک چوکوں پر لٹکایا نہیں جاتا یہ گھناؤنا سلسلہ چلتا رہے گا۔میاں برادران عوام کی بھلائی کے زبانی کلامی دعوے تو بہت کرتے ہیں ،مگر عملاََہر دور میں دولت کے بل بوتے پر اقتدار کو مضبوط کرنے میں مصروف رہے ہیں ،آج بھی حکمرانی کے نشے میں مست ہیں۔غم کے مارے والدین نوحہ کناں ہیں کہ ہم اپنے جگر گوشوں کو کہاں تلاش کریں ،کس سے فریاد کریں ،کوئی پُرسان حال نہیں ۔ عوام چاہتے ہیں کہ جس طرح سلمان تاثیر،سید یوسف رضا گیلانی اور چیف جسٹس سندھ کے بیٹوں کی باز یابی کروائی گئی، اسی طرح ان 681بچوں کو بھی واپس لانے کے لئے پورے وسائل استعمال کئے جائیں۔

حضور والا! یہ وی آئی پی بچے تو نہیں ہیں، مگر کسی ماں کے لخت جگر تو اسی طرح ہیں جس طرح ان بڑوں کے تھے۔ان کی مائیں بھی راتوں کو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھتی ہیں کہ ہمارا بچہ ،بچی اس وقت کس حال میں ہو گا۔خدارا ایسے انسانیت دشمن سفاک مجرموں کو دہشت گردوں سے بھی بڑی اور خوفناک سزائیں دی جائیں تاکہ رہتی دنیا تک مثال قائم ہوجائے اور ایسا گھناؤنا کاروبار مستقلاً ختم ہوجائے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95999 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.