ملیر کا قببرستان

ملیر کے قبرستان کا مختصر جائزہ
 زیادہ تر قبریں بیس سے تیس سال پرانی ہیں
گنجائش ختم ہوچکی ہے لیکن گورکن جگہ نکال ہی لیتے ہیں

ملیر توسیعی کالونی،سعودآباد اور کھوکھراپارکی آبادی کے درمیان تقریباً دس ایکڑ رقبےپر پھیلا ہوا ملیرسعودآباد کا قبرستان ہے۔ اسےاس علاقے کاپہلا اور سب سے قدیم قبرستان کہا جاسکتا ہے ۔ جب 1948ء میں ملیر کا علاقہ آباد ہونا شروع ہوا تو یہاں شہر خموشاں کی ضرورت بھی محسوس ہوئی، اس وقت بعض سماجی شخصیات کی طرف سےملیر اور کھوکھراپارکے سنگم پرایک کھلے میدان میں مذکورہ قبرستان کی بنیاد رکھی گئی،بعد میں اس کے گرد چہار دیواری بنادی گئی۔ صفائی کے لیے مسیحی برادری نے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں انجام دینا شروع کیں اور ڈبل اسٹوری اسکول کے عقب میں جھگیاں بناکراپنے اہل خانہ کے ساتھ رہائش اختیار کرلی، جب کہ انہوں نے اس سے صرف سو گز کے فاصلے پر مسیحی قبرستان بنایا۔ملیرکا علاقہ آباد ہونے کے بعد اس میں مزید بستیاںقائم ہوتی گئیں، جن میں ملیر چھاؤنی، ریلوے لائن کی دوسری طرف طرف ماڈل کالونی،ملیر سٹی،کالابورڈ، جعفرطیار سوسائٹی، ملیر بھینس کالونی، توسیعی کالونی، سعودآباد، چمن کالونی، کھوکھراپار اور ملیر ندی کی دوسری جانب گوٹھوں کے علاقے شامل ہیں ،لیکن اتنی آباد بستیوں کے قیام کے باوجود یہاں شہر خموشاں صرف ملیر میں تھا،جو وقت گزرنے کے ساتھ ناکافی ثابت ہورہا تھا۔ 1970ء کے عشرے میں مزید نئی بستیاں آباد ہونے کے بعد دیگر شہرخموشاں وجود میں آتے گئے جن میں چمن کالونی کا قبرستان، ملیر چھاؤنی کی دیوار کے ساتھ غریب نواز کالونی کا قبرستان، ملیر توسیعی کالونی میں کھیتوں کے ساتھ ملیر ایکسٹینشن کالونی کا قبرستان، چھاؤنی کے علاقے کی طرف جانے والی شاہراہ پر ماڈل کالونی اور جناح ٹرمینل کا قبرستان قابل ذکر ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ملیر کے قبرستان کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے، اس کی بنیادی وجہ اس کا محل وقوع ہے۔

یہاں تک پہنچنے کے لیےجناح اسکوائر، سعودآباد، لیاقت مارکیٹ اور کھوکھراپار کی جانب سےچار سڑکیں آتی ہیں جو کھوکھراپار چورنگی پر آپس میں مل جاتی ہیں، اسی چوراہے پر مذکورہ قبرستان واقع ہے۔یہاں پرتقریباً 68سال سے تدفین ہورہی ہے، سرکاری کاغذات کی رو سے اس میں مزیدقبروں کی گنجائش ختم ہوچکی ہے اور لوگ تدفین کے لیےجناح ٹرمینل سمیت دیگر قبرستانوں کا رخ کرتے ہیں ،لیکن گورکنوں کے تعاون سےاس میںاب بھی اکا دکا تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔قبرستان میں داخلے کے دو دروازے ہیں، ایک صابر کالونی کی طرف ،جب کہ دوسراجناح اسکوائر کی طرف سے آنے والی سڑک پر واقع ہے۔انڈس مہران سوسائٹی کے سامنے قبرستان کی دیوار کے ساتھ ایک اسکول اور میرج لان بن گئے ہیں جب کہ جناح اسکوائر کی طرف جانے والی سڑک پر گیٹ نمبر ایک کے ساتھ کھانے کے ہوٹل، فریج اور ایئر کنڈیشن کے ورک شاپس اور چائے خانے قائم ہیں ، جن کے سامنے یہاں آنے والے گاہکوں کی کاروں اور موٹر سائیکلوں کا ہجوم جمع رہتا ہے جس کی وجہ سے فاتحہ خوانی کے لیے آنے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مذکورہ قبرستان گنجائش ختم ہونے کی وجہ سے بند ہوچکا ہے ۔ اس کی چہار دیواری کے اندر تقریباً نصف درجن وسیع و عریض مقبرے بنے ہوئے ہیں جو مختلف سلسلے سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیات کے ہیں۔ داخلی دروازے کے ساتھ گورکن اور قبروںکو پختہ کرنے والوں کی دوچھوٹی سی کوٹھریاں بنی ہوئی ہیں جس کے ساتھ بجری اور بلاک کا ڈھیرپڑا رہتا ہے جب کہ اس کے سامنے پانی کی ٹنکی بنی ہوئی ہے جس کے نیچے گندے پانی کا حوض ہے، لوگ قبروں کی ترائی کرنے کے لیے پانی اسی حوض اور ٹنکی سے لیتےہیں۔ یہاں پانی کے نلکے بھی لگے ہوئے ہیں، جن میں شاذو نادر ہی میٹھا پانی آتا ہے، زائرین کے مطابق ،بعض مخیر حضرات اس ٹنکی کومشکیزوں کی مدد سےکھارےپانی سے بھرواتے ہیں ، ٹنکی سے گرنے والا اور سیوریج لائن سے رسنے ولاپانی،حوض میں جمع ہوتا ہے۔قبرستان میں شہر کے دیگر قبرستانوں کی بہ نسبت سہولتوں کا فقدان ہے، قبریں اس طرح سے بنائی گئی ہیں کہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہے،جگہ جگہ جھاڑ جھنکاڑ اور گڑھے ہیں۔یہاں انتظامیہ کا نہ تو کوئی دفتر بنا ہوا ہے اور نہ ہی کوئی ذمہ دار شخص نظر آتا ہے۔ ایک مقبرے کے چبوترے پرایک شخص بیٹھانئی قبروں کی بکنگ کرکے،فیس وصول کرتا ہے اور شناختی کارڈ رکھ کر ایک ہفتے بعد ڈیتھ سرٹیفکٹ کا اجراء کرتا ہے۔

قبرستان کی بندش کے باوجود نئی قبروں کی تعمیر کے بارے میں ہم نے جب اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ، اگرچہ قبرستان میں گنجائش ختم ہوگئی ہے لیکن گورکن حضرات ضرورت مند لوگوں کے لیے گنجائش نکال کر ہمیں بتاتے ہیں جس کے بعد ہم قبر بک کرتے ہیں۔ یہ قبرستان مکمل طور سے بند نہیں ہوا ہے اور یہاں ابھی بھی تدفین ہوتی ہے،البتہ پہلے کی بہ نسبت بہت کم ہے، اب یہاں روزانہ چند ہی مردے دفنائےجاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ اپنے مردوں کو دفنانےکے لیے جناح ٹرمینل یا غریب نواز کالونی کے قبرستان لے جاتے ہیں۔ اس قبرستان میں تقریباً تین ہزار قبریں ہیں، جن میں سے بعض ساٹھ سال پرانی ہیں۔ چند سال قبل یہاں سےنصف درجن سے زیادہ گورکن اپنی روزی کماتے تھےلیکن میتوں کی آمد میں کمی کے باعث اب یہاں صرف تین گورکن ہیں، وہ بھی زیادہ تر پریشان حال رہتے ہیں۔ ہم یہاں فی قبر ساڑھےچھ سے دس ہزار روپے وصول کرتے ہیں، اس میں سے زمین کی سرکاری قیمت کی مد میں پانچ سو روپے کی رقم، چالان بنا کر میونسپل کارپوریشن کے اکاؤنٹ میں ٹیکس کی صورت میں جمع کرائی جاتی ہے۔چند سال قبل تک مذکورہ ٹیکس 180روپے وصول کیا جاتا تھا جو سٹی گورنمنٹ کے دور میں 325روپے کردیا گیا ، اب اس کا چالان بھر کر 500روپےبینک میں جمع کرائے جاتے ہیں۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ جگہ کی نایابی کے باوجود نئی قبر کی گنجائش کیسے نکالی جاتی ہے، تو اس نے جواب دیا کہ اس کے بارے میں گورکن سے پوچھا جائے، کیوں کہ ہمیں بھی نئی قبر کی تعمیر سے پہلے وہی آکر بتاتا ہے۔ ہم نے جب قبرستان کا سروے کیا تو وہاں ساٹھ سے ستر سال پرانی کوئی قبر نظر نہیں آئی بلکہ قبروں پر لگے ہوئے کتبوں کے مطابق زیادہ تر قبریں بیس سے تیس سال پرانی تھیں جب کہ کچی قبروں میں سے زیادہ تر نئی بنی ہوئی تھیں۔

یہاں کام کرنے والاکورکن جھولے لعل، جو اپنی کوٹھری میں بیٹھا تھا، اس نےہمیں بتایا کہ، اس قبرستان میں ستر سال سے مردے دفن کیے جا رہے ہیں، اس حساب سے یہاں لاکھوں قبریں موجود ہونا چاہئیں، لیکن یہاں اس وقت تین ہزار قبریں ہیں ، بہت سی نئی قبریں بھی نظر آئیں گی۔مجھے یہاں کام کرتے ہوئے تقریباً تیس سال ہوگئے ہیں۔ بیس سال قبل تک یہاں روزانہ ڈیڑھ سے دو درجن میتوں کی تدفین ہوتی تھی اور اس وقت یہاں سات گورکن موجود تھے لیکن ہر گورکن کو یومیہ اتنی آمدنی حاصل ہوجاتی تھی کہ وہ اپنے اہل خانہ کی گزربسر اچھی طرح کرلیتا تھا۔ ملیر توسیعی کالونی، کھوکھراپار، ماٹاپان، ماڈل کالونی اور ایئرپورٹ کے قریب نئے قبرستان بننے کے بعد، اور یہاں جگہ کی کمی کے باعث لوگوں کی آمدورفت کم ہوگئی، یہاں کے زیادہ تر گورکن یا تو مذکورہ قبرستانوں میں چلے گئے یا گورکنی کا پیشہ ترک کرکے مزدوری کررہے ہیں۔ آج یہاں مجھ سمیت تین گورکن ہیں لیکن تینوں معاشی بدحالی کا شکار ہیں ۔ روزانہ ایک سے تین میتیں تدفین کے لیے لائی جاتی ہیں، جن کی قبروں کی کھدائی ہم تینوں میں تقسیم ہوجاتی ہے۔ سات فٹ لمبی اور تین فٹ چوڑی قبرکا ریٹ 5000سے 8000روپے مقرر ہے لیکن ہم نئی قبر کے لیے 6000سے دس ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں۔ اس میں سے انتظامیہ کے اہل کار، سرکاری چالان کی مد میںہزار روپے وصول کرتے ہیں، ایک قبر پر سیمنٹ کے تقریباً چھ عدد سلیب نصب کیے جاتے ہیں ، جن کی قیمت 2000روپے بنتی ہے، ایک سوزوکی ریتی کی ضرورت ہوتی ہے جس کا ریٹ 1500روپے ہے، مستری کی اجرت 1500روپے ہوتی ہے جب کہ قبر کا گڑھا کھودنے کے لیے مزدور کو 700روپے ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔پانی کے کنستر تقریباً سو روپے کے خریدنا پڑتے ہیں۔ ٹھیکیدار کو ادائیگی کے بعد ہمارے پاس کل پانچ سو روپے کی رقم بچتی ہے، جو ہمارا محنتانہ یا یومیہ مزدوری ہوتی ہے۔ اس رقم سے ہم اپنے اہل خانہ کے ساتھ انتہائی تنگ دستی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہاں ہمیں بے شمار مسائل کا سامنا ہے لیکن اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی خاطر ہم اس جگہ گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔

دوسرے گورکن قاسم نے بتایا کہ، ہمیں یہاں پرکام کرتے ہوئے طویل عرصہ ہوگیا ہے۔ قبرستان کا چپہ چپہ، ہر کونا، کھدرا ہماری نگاہوں میں ہوتا ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس قبرستان میں نئی قبروں کی گنجائش نہیں رہی ، لیکن لوگوں کی ضرورت کے مطابق ہم گنجائش نکال کر مہتمم کو بتا دیتے ہیں، وہ ان سے قبر کی فیس کی مد میں رقم کی وصولی کرنے کے بعد ہمیں قبر بنانے کی ہدایت کرتا ہے۔ ہم لوگوں کی خواہش کے مطابق قبریں تیار کرتے ہیں۔کئی افراد اپنے اعزاء کی قبر پر سائبان لگوانے کے خواہش مند ہوتے ہیں، ہم ان کےلائے ہوئے لوہےکے سائبانوں کو موٹے موٹے پائپوں کی مدد سے قبر کے اوپر اس طرح لگاتے ہیں کہ فاتحہ خوانی کی غرض سے آنے والے افراد سایہ دار جگہ پر بیٹھ کراطمینان کے ساتھ تلاوت کرسکیں اور اپنے عزیزوں کے لیے دعا کرسکیں۔ بہت سے افراد قبریں پختہ کرانے کے لیے بھی ہماری خدمات حاصل کرتے ہیں، سیمنٹ کےبلاک،، ریتی بجری اور سیمنٹ کے اخراجات کے علاوہ ہم علیحدہ سے طے کرتے ہیں اس میں مستری کا معاوضہ بھی شامل ہے، جب کہ سنگ مرمر کا کتبہ الگ سے بنوا کر لگوایا جاتا ہے، جس کی اجرت الگ ہوتی ہے۔ بعض افراد اپنےپیاروں کی قبر پر سیمنٹ کے پختہ سائبان تعمیر کراتے ہیں، ہم ان سے طے کردہ رقم میں ان کی خواہش کے مطابق مذکورہ سائبان تعمیر کرواتے ہیں جس میں شیٹرنگ کے سامان اور لوہے کا استعمال ہوتا ہے،، جس کے لیے بیس سے پچیس ہزار روپےکی رقم وصول کی جاتی ہے، مستری اور مزدور کی اجرت اور میٹریل کا خرچہ نکالنے کے بعد ہمارے پاس دو سے تین ہزار روپے بچتے ہیں جس میں سے مہتمم کو بھی حصہ دیا جاتا ہے۔ نئی قبروں کی گنجائش ختم ہونے کے بارے میںسوال کا جواب دیتے ہوئے اس نے کہا کہ، یہ کہنا درست ہے کہ گزشتہ 68سالوں میں اتنی قبریں بنائی گئی ہیں کہ یہاں مزید قبروں کی گنجائش نہیں رہی لیکن ہم مہتمم کی ہدایت کے مطابق گنجائش نکال لیتے ہیں۔ بعض قبروں کے درمیان جگہ تلاش کرتے ہیں، غرض ہمیں کہیں نہ کہیں جگہ نظر آجاتی ہے،بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی اور ایسی قبریں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا، ان کی جگہ نئی میت کی تدفین کرتے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ میں یہ قبرستان اب بھی تدفین کے لیے موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ شہری حکومت اور میونسپل انتظامیہ قبر کی جگہ کی مد میں زمین کی قیمت سرکاری چالان کی صورت میں وصول کرتی ہے اور اس کی جانب سے یہاں سرکاری اہل کار بٹھایا گیا ہے جومیت کے لواحقین سے پیسے کی وصولی کے علاوہ مرنے والے کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ بڑے بڑے مزاروں اور بعض قبروں کے وسیع و عریض احاطوں کے بارےمیں اس نے بتایا کہ ان کا باقاعدہ سرکاری چالان جمع کرایاجاتا ہے جو پیمائش کے بعدزمین کی قیمت کے حساب سے متعین کیا جاتا ہے ۔ اس کے بعدصاحب مزار کے مریدین مزار کی تعمیر کراتے ہیں ، جس میں ہر قسم کے تعمیراتی مٹیریل کے علاوہ سنگ مر مر سمیت دیگر قیمتی پتھروں کاکثیر مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے، جس کے بعدقبرستان کے اطراف عظیم الشان مزارات بن جاتے ہیں۔ ان کی تعمیرات میں یہاں کے گورکنوں سے کسی قسم کی خدمات نہیں لی جاتیں بلکہ ان کے تعمیری کاموں کے لیے باہرسے مستری اور مزدور لائے جاتے ہیں۔یہاں ایک احاطے میںکئی کئی قبریں بنی ہوئی ہیں جب کہ بعض لوگوں نے پیشگی طور سے اپنی قبر کی جگہ خالی رکھی ہوئی ہے۔ اس کا بھی چالان پیشگی جمع کرایا جاتا ہے، جو قبروں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے۔ اس احاطے کی تعمیر کے لیے باہر کے مستری اور مزدوروں کے ساتھ ساتھ گورکنوں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں، اس کی مد میں بھی ہمیں معقول اجرت مل جاتی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم جگہ کی نایابی کاعذر بتا کر نئی قبر کا معاوضہ پچاس ہزار سے ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ سلسلہ شہر کے بڑے اور امراء کےقبرستانوں میں رائج ہے۔ ہم مرنے والے کے لواحقین کی مجبوریوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، دوسرے اس علاقے کے رہائشیوں کی زیادہ ہ تر تعداد غریب اور متوسط طبقے پر مشتمل ہے جن کے لیے اپنےاہل خانہ کو پالنا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے ، مرنے والے کی تدفین کے لیے اتنی بڑی رقم خرچ کرنا ان کے لیے ناممکنات میں سے ہے۔ اگر ہم زیادہ رقم بتاتے ہیں تو وہ اسے کم کرانے کی کوشش کرتے ہیں ورنہ علاقے کے کسی اور قبرستان کا رخ کرتے ہیں، جس کا نقصان بھی ہمیں ہی ہوتا ہے اور ہم ایک نئی قبر بنانے کے معاوضےسے محروم ہوجاتے ہیں۔قبرستان میں درپیش مسائل کے بارے میں اس نے بتایا کہ یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے۔ مرکزی دروازے پر پانی کی ٹنکی بنی ہوئی ہے لیکن اس میں پانی کم ہی ہوتا ہے،بعض لوگوں نے اللہ کی خوش نودی کے لیے،سامنے کی آبادی سے بورنگ کے پانی کی لائن لے کر نلکے لگوا دیئے ہیں جس میں اتنا کم پانی آتا ہے کہ بہ مشکل ہی ٹنکی بھر پاتی ہے، لائن میں رساؤ کی وجہ سے زیادہ تر پانی اس کے ساتھ بنے ہوئے گندے سے حوض میں گرتا ہے،جس میں قریب سے گزرنے والی سیوریج لائن کا پانی بھی شامل ہوتا ہےاور لوگ قبروں پر ڈالنے کے لیے بوتلوں اور کین میں کیچڑ ملا ہوا پانی حوض سےبھر کر لے جاتے ہیں۔ صابر کالونی والے دروازے کے ساتھ قبروں پر منشیات کے عادی افراد نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہوا ہے، ہم اگر انہیں یہاں منشیات استعمال کرنے سے منع کریں تو وہ ہمیں مارنے کے لیے دوڑتے ہیں۔ دیوار کے ساتھ وہ غلاظت پھیلاتے ہیں، جس کی وجہ سے فاتحہ پڑھنے کے لیے آنے والوں کے لیے یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا ہے، خاص طور پر خواتین یہاں سے گزرتے ہوئے گھبراتی ہیں۔ قبرستان کے سامنے سڑک کی حالت انتہائی خراب ہے، بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے ہیں جن میں سیوریج کا پانی اس طرح جمع رہتا ہے کہ نظر نہ آنے پر یہاں اکثر حادثات ہوتے ہیں،قبرستان کی حالت زار کو بہتر بنانے کے لیے شہری انتظامیہ کی طرف سے اقدامات ضروری ہیں۔
RAFI ABBASI
About the Author: RAFI ABBASI Read More Articles by RAFI ABBASI: 208 Articles with 192399 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.