دو منہ کا سانپ

ہمارا معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہورہا ہے اور ہر تقسیم اپنے رویے میں انتہا پسندی لیے ہوۓ ہے قندیل کا قتل اس تقسیم اور انتہاپسندی کے زہریلے اثرات کو عیاں کرنے والا ایک اور دردناک واقعہ تھا
سانپ دو منہ کا ہو یا ایک کا اسکا کام ہی ڈسنا ہے آج پاکستانی معاشرے کا المیہ بھی یہی ہے کہ انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے ہم دو منہ والےسانپ بن چکے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ سا نپ کی طرح ہم اپنے بچوں کو کھا کر اپنی ضرر رساں زندگی کو طویل کر رہے ہیں تقریبا '' ہرروزایک نیا سانحہ جنم لیتا ہےاور ہر بار معاشرے کےافراد اور خود معاشرہ اپنےدو چہروں کےساتھ ہمارے سامنے آکر نہ صرف اپنی دو انتہاؤں کو عیا ں کرتا ہے بلکہ ایک بڑی تعداد میں لوگ ایسے ہیں جو ان دو انتہاؤں کے انتھاپنسدانہ رویوں کو دیکھ کرکنفیوژن کا شکار ہوجاتے ہیں اورمعاشرہ اپنی مثبت را ہوں سےہٹ کر مبہم راستوں پر چل پڑتا ہے پچھلے کچھ عرصے سے پے در پے ایسے واقعات ہورہے ہیں جس میں اگر معاشرے کے اہم ستون یعنی مقننہ ، انتظامیہ ، عدلیہ اور خدائی فوجدار نیوز میڈیا ، نظریاتی طور پر واضح ہوتے تو سوسایٹی مزید بے چین اور "بے را ہ رو " نہ ہوتی مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ ہر بار انہی اداروں کی وجہ سے قوم نظریاتی تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی ملاله یوسف زئی پر تعلیم دشمن افراد نے جس طرح حملہ کیا اور قوم نے یک آواز ہوکر اپنی اس بہادر بیٹی کے لیے د عائیں کیں اسکے حوصلے کو سپورٹ کیا وہ قا بل دید اور قبل تحسین تھا ایک شاندار موقع تھا جو کہ قوم کو متحد کر رہا تھا کہ اچانک کسی عوام دشمن ، کسی نظریاتی بے راہ روگروپ نے ایک سازش کے تحت ملاله پر حملے کے حقیقی واقعہ کو "ڈرامے" کا نام دیا اور پھر ملاله ، اسکے والد اور تمام خاندان ، حکومت وقت حتی کہ سچا ئی دیکھانے والے صحافیوں کا وہ حشر کیا گیا کہ آج تک اس وطن کا چہرہ اس طوفان بدتمیزی سے اٹھنے والے بگولوں سے گندہ ہو رہا ہے یہی حال شہید سلمان تاثیر کے بہیمانہ قتل کے وقت ہوا کہ قوم ناحق قتل کی مذمت کرنے کی بجائے قتل کی وجوہات اور قاتل کی حمایت یا مخالفت میں بٹ گئی اور شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار گروہوں کی صورت میں سوشل میڈیا اور تجزیہ کاروں کے روپ میں میڈیا پر ایسے افراد نے دھاوا بول دیا جو ایک نہتے انسان پر اسکے اپنے گارڈ کی گولیوں کی بوچھاڑ کرنے پر خوشیاں منا رہے تھے یا اس قتل ناحق کو جسٹیفائی کر رہے تھے-

سلمان تاثیر کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا اور انکا اپنا ایک زندگی گزارنے کا طریقہ تھا جسپر ہوسکتا ہے کسی کو اعترا ض ہو اورانہی وجوہات کو اکثر لوگ انکے قتل پر معاشرے کے منقسم رویے کا جواز بناتے ہیں مگر سبین محمود ، ،پروین رحمان ،خرم زکی ،امجد صابری جیسے کتنے ہی نام ہیں جنکا کسی سیاسی جماعت سے کوئی خاص تعلق نہ تھا مگر اس دومنہ کے سانپ نے اپنے زہریلے پھن سے معاشرے کے ہر فرد کو ڈس لیا آج فوزیہ عظیم جو کہ اپنا نام قندیل بلوچ بتاتی تھیں ہمارے معاشرے کی اس دو انتہاؤں میں بٹی ناقابل شناخت لاش پر سے ایک بار پھر کپڑا ہٹانے میں کامیاب ہوگئی ہیں -

قندیل کی زندگی میں ایک اکثریت تھی جو انکے بنائے وڈیو کلپس بہت ذوق شوق سے سوشل میڈیا کے توسط سے دیکھتی ہاں انپر کمنٹ کے دوران برا بھلا بھی کہا جاتا مگر اس کے باوجود انکے فا لورز وغیرہ کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی یہ سلسلہ خاص طور پر جب شر و ع ہوا جب انہوں نے سیاسی لیڈر عمران خان کو انکی دوسری شادی کے خاتمے کے بعد ایک وڈیو کلپ کے ذریعے شادی کا پیغام بھیجا  کوئ نہیں جانتا تھا کہ جس لڑکی کی باتوں کوسوشل میڈیا پر موجود اکثر لوگ ایک مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہے اسکا انجام اتنا دردناک ہوگا آج یہ حالت ہے کہ جو اس بہیمانہ قتل کو "خوش آمدید " کہہ رہے ہیں ان میں سے بہت سے خود ایسی ویڈیوکلپس کو سوشل میڈیا اور میڈیا میں پھیلانے کا باعث بنے
ایسے اینکرز بھی ہیں جو رائی کو پہاڑ بنانے میں پیش پیش رہے نتیجہ قندیل کی شہرت ایک ماڈل یا ایکٹرس سے بڑھ کر "سیاسی اور سماجی " ہوگئی جو یقینن انکی موت کی وجوہات میں شامل ہے یہی لوگ ہیں جنہوں نے پہلے ایک خاتون کا زندہ جسم بیچا اوراب اسکی لاش پر مال کما کر اپنے بچوں کو کھلارہے ہیں ایسے لوگ یہ نہیں جانتے کہ کسی کے گھر میں آگ جلا کر ہم اپنے گھروں کو محفوظ نہیں بنا سکتے آج قندیل ہے کل آپکی اپنی بیٹی اسی آگ کا ایندھن بن جائے گی کیونکہ قدرت کا اصول یہی ہے کہ
دشمن مرے تے خوشی نہ کریے
سجناں وی مر جانا

دوسری انتہا پر موجود صاحب راۓ بھی کچھ کم نہیں کہ وہ قندیل کی زندگی اور موت کو سبین محمود اور پروین رحمان کی انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی بہادرانہ زندگی اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جان دینے والی موت سے ملا رہے ہیں-

یہ سچ ہے کہ سبین ہوں یا قندیل دونوں مظلوم تھیں اور ناحق قتل کی گیں اور ریاست دونوں کی حفاظت میں ناکام رہی اور دونوں کو پاکستانی شہری کے طور پر انصاف ملنا چاہیے مگر یہ معاشرے کا نظریاتی قتل ہے کہ سبین اور پروین جیسی سچائی کی راہ پر جدوجہد کرنے والی خواتین کے خانے میں آپ قندیل کو انکے تمام تر جھوٹ سمیت ڈال دیں فوزیہ عظیم یا قندیل بلوچ نے بہت سے معاملات پر جھوٹ کا سہارا لیا جسکا انہوں نےخود اعتراف بھی کیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے کسی مظلوم کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ شہرت، پیسے کے حصول ا ور بالی وڈ تک رسائی کے لیے بہت کچھ ایسا کیا جو یقینا '' ہمارے معاشرے میں کھلے عام کرنا کسی"خود کش حملے" سے کم نہ تھا سو جہاں یہ امر یقینی ہے کہ یہ تمام تر حرکتیں کسی بھی طرح انکے قتل کی اجازت کسی بھی شخص کو نہیں دیتیں وہاں معاشرے میں یہ کنفیوژن پھیلانا بھی درست نہیں کہ مظلوم طبقوں کے لیے آواز بلند کرنے والا اور اپنی شہرت اور پیسے کے لیے غیر اخلاقی حرکات کرنے والا برابر ہے -

ہم نئی نسل کو نظریاتی بھنور کا شکار کر دیں گے اگر وہ اس بات میں فرق نہیں کر سکیں کہ لینڈ مافیا سے لڑتے ہوۓ مظلوم کی مدد کرنے والی پروین رحمان جیسا بننا ہے یا مفتی قوی کے ساتھ مختلف اینکرز کو چسکے دار انٹرویوز دے کر شہرت حاصل کرنے والی قندیل بلوچ جیسا بننا ہے اس وقت قندیل کی موت پر خوشیاں منانے والے بے حس ، بیمار ذہنیت لوگوں اور انسانی حقوق کے پاسباں پروگریسو سوچ کے مالک دونوں ہی انتہاوں پر موجود قارئین کو میرا یہ بلاگ سخت ناپسند آرہا ہوگا مگر ایک استاد کی نظر سے دیکھیں تو اس معاشرے کی کہانی مقتول قندیل اور اسکے بےرحم قاتل بھائی پر ختم نہیں ہوتی نہ ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بٹے ہوۓ معاشرے پر ختم ہوتی ہے بلکہ یہ واقعہ پچھلے واقعات کی طرح ہمیں تقسیم در تقسیم کرنے کا با عث بن رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہماری کمزور ہی سہی نظریاتی جڑوں کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے ہماری نسلیں ہم سے زیادہ اس با رے میں کنفیوز ہونگی کہ طاقتورحلقوں کی دھمکیوں کے باوجود " ٹی ٹو ایف " کراچی میں موجود رہ کر،بلوچ جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کو پلیٹ فارم مہیا کرنے والی خاتون ہمارا آئیڈیل ہونی چاہیں یا پھر شہرت اور دولت کے حصول کے لیے بےتکی ویڈیوز اور فحش گانے بنا کر اس مذہبی و روایتی انتہاپسند، بےحس معاشرے اور بہری ، اندھی ، گونگی ریاست کے درمیان پہنچ کر "خودکش حملہ " کرنے والی خاتون ؟؟

تاریخ کے اس موڑ پر ہم میں سے بہت ہیں جویہ سب کچھ جانتے ہوے بھی اختلاف کی ہمت نہیں کر پارہے
مگر بقول شخصے دلیل میں وزن ہو تو اکیلے کھڑا ہونا بھی نقصان کا سودا نہیں .سو ہم سب کے لیے بہتر ہے کہ ہر چیز کو اسکی مناسب حیثیت دیں قاتل کو قتل کی سزا اور مقتول کو اسکا حق !! مجمع دیکھ کر اسکے ساتھ شامل ہونے کی بجاۓ خود تدبر اورتفکر کرنےکی عادت اپنانا ہم سب کے لیے اس وقت جتنا ضروری ہے پہلے کبھی نہ تھا ، اپنے لیے نہ سہی اپنی آنے والی نسلوں کےلیے ہی ایک باشعور انسان کی طرح سوچ سمجھ کر اپنا رد عمل ظاہر کریں نہ کہ دو منہ کے سانپ بن کراس معاشرے اور نئی نسل کو ہردو طرف سے ڈسنے کا عمل جاری رکھیں -
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 63178 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More