اقدار کا مسکن اوصاف کا منبع

معروف عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت جان بحق ہوئے تو عوامی ردعمل توقع کے عین مطابق بہت شدید ہوا ۔ قبل ا زیں دیکھا یہ جاتا تھا کہ جھڑپ میں کام آنے والے کسی مسلح نوجوان کا ماتم بالعموم اس کی جائے سکونت اور زیادہ سے زیادہ اس کے گردونواح تک ہی محدود رہتا تھا مگر برہان کے جاں بحق ہونے پر عوامی ردعمل بالکل مختلف صورت میں ظاہرہوا۔ اس واقعہ نے عملاً وادی کو آتش زیرپا کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کشمیر میںبے چینی اوراضطراب کی ایسی زور دار لہر دوڑگئی کہ دنیا حیران وششدر ہے۔اس بیچ حریت کی جانب سے ماتمی ہڑتال ہوئی جب کہ سرکار کی جانب سے کرفیو، بندشیں، انٹر نیٹ اور موبائیل سروس پر قدغن اور فورسز کی جانب سے ہلاکتیں اور توڑ پھوڑ کی وارداتیں بالفعل وادی کشمیر کے خر من ِ امن میں آگ لگاگئیں۔ کہنے کو وادی بھر میں حالات کو کنٹرول کر نے کے لئے کرفیو کا نفاذ ہوااور مواصلاتی سہولیات پر قدغن لگائی گئی لیکن لوگ تمام سرکاری بندشوں کو توڑ کر جگہ جگہ غم وغصہ کے عالم میں حکومت مخالف مظاہرے کر تے رہے، جلسے جلوس نکالتے رہے ، آزادی کے حق میں جوشیلی نعرہ بازیاں کر تے رہے ۔اس دوران پتھراوکے لاتعداد واقعات بھی رونما ہوتے رہے ، بعض جگہوں پر پولیس پوسٹوں پر مشتعل نوجوانوں نے دھاوے بھی بولے ، سب سے بڑھ کر درجنوں نہتے کشمیری سنٹرل ریزرو پولیس فورس اور کشمیر پولیس کی گولیوں کے ہتھے چڑھ کر اللہ کو پیارے ہو کر ابدی نیند بھی سوگئے۔ تادم تحریر سر کاری طور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد ۳۷ بتائی جاتی ہے جب کہ لاتعداد لوگ گولیوں اور پیلٹ گن کے شکار بنے اس وقت مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد میں برابر اضافہ ہوتاجارہاہے۔ مختصر یہ کہ بہ حیثیت مجموعی نامساعد حالات کی نئی لہر۲۰۱۰ءسے بھی بدتر تصویر پیش کر رہے ہیں۔کشمیر میں گزشتہ ۲۶ سال سے برابر انسانی المیے وقوع پذیر ہوتے رہے ، کبھی ان کی آنچ دھیمی رہی اور کبھی تیز وتند۔ اس طویل مدت کے دوران کشمیری قوم نے حالات کے اُتا ر چڑھاوکی مناسبت سے اپنے جینے کے انداز اور اطوار بدل دئے، البتہ جو چیز ان میں ہمیشہ جوں کی توں قائم رہی، وہ ہے غیر مشروط انسانی ہمدردی ۔ دنیا کو ماننا پڑے گااجتماعی مصائب ومشکلات کے مواقع پر خصوصیت کے ساتھ ایک دوسرے کی امدادواعانت کرنا ، دکھیوں کی خبر گیری مثالی خبر گیری کرنا اور انسان ودستی کی جیتی جاگتی مثالیں قائم کرنا کشمیریوں کی فطرت ِثانیہ ہے۔ ان چیزوںکا مظاہرہ گزشتہ ہفتہ عشرے سے حسب معمول مختلف شکلوں میں ہو رہا ہے ا ور اجتماعی سطح پر لوگ ایک ودسرے سے ہمدردیاں اور دل جوئیاں کر رہے ہیں۔ یہی طرزعمل کسی زندہ و باشعور قوم کے شایان ِ شان ہوتاہے ۔ کرفیو اور ہڑتال کے باوجود اسپتالوں میں زیر علاج زخمیوں کے لئے خون کا عطیہ دینے والے درد دل رکھنے والے نوجوانوں کا تانتا بندھا رہنا ، شفاخانوں میں ایڈمٹ مریضوں اور تیمارداروں کے لئے مفت لنگروں کا اہتمام کیا جانا، مذہبی ، سیاسی اور رضاکار تنظیموں کی جانب سے زخمیوں کی سہولت اور دیگر عام بیماروں کے لئے مفت ایمبولنس سروس اورادویات کا انتظام کیاجانا، بجبہاڑہ میں یاتریوں کو پیش آئے سڑک حادثے کے متاثرین کی بر وقت امداد پہنچانے کے لئے لوگوں کا اپنی جان تک کی پراہ نہ کرنا وغیرہ وغیرہ، یہ ہیں حیات آفرین عوامی ہمدردی پر مبنی انسانیت نواز کار کردگیوں کے وہ نادر نمونے جو اس بات کے زندہ ثبوت ہیں کہ کشمیری قوم کے صحت مند اقداراور انسانی اوصاف کے جو گنج ہائے گرانمایہ ہیں جو خرابی بسیار کے باوجود آج بھی زندہ وپائندہ ہیں۔ انہی قابل صد توصیف اقدار کی ایک پیاری پیاری جھلک ہے کہ گزشتہ دنوں غیر یقینی حالات کے مخمصے میں اُلجھ کر گجراتی یاتریوں کو دودن تک نگین کلب سری نگر میں بحالت مجبوری پناہ لینا پڑی۔ امرناتھ یاتریوں کا یہ قافلہ ڈراورخوف کے مارے اپنے دھارمک یاتراکی تکمیل نہ کرسکا مگر ساٹھ سے زائد ان پیر وجوان، مستورات اور بچوں کو انسانیت کا یہ درشن نصیب ہوا کہ کشمیری مسلمان کس طرح گرتے ہوو ں کو تھام لیتے ہیں ، کس طرح اپنے دکھ کو پس پشت ڈال کر اوروں کے دکھ درد بانٹتے ہیں ، ا ن میں انسانیت کاجذبہ کس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے ۔ ان غیر ریاستی شہریوں کے اندر اگر روشن ضمیری کی رمق باقی ہوگی تووہ لازماً اس متعصب میڈیا پر شرمندگی وناراضی محسوس کریںگے جو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے کشمیری قوم کی کردار کشی کر نے میں کذب بیانوں کے سہارے دور کی کوڑیاں لانے میں لگا ہوا ہے۔ معلوم رہے ان خوف زدہ یاتریوں کے لئے نگین کلب کے اسٹاف نے بلا کسی معاوضہ کے رضاکارانہ طور کھانے پینے کا انتظام ہی نہ کیابلکہ معزز مہمان کے طور ان کے آرام وآسائش کا بھر پور خیال بھی رکھا۔ان یاتریوں نے خود ہی چلّاچلاّ کر کہا کہ ہم نے پولیس اور محکمہ سیاحت سے مددطلب کی مگر بے سود اور اگرہماری مدد کے لئے کوئی سامنے آیا تو وہ یہ کشمیری مسلمان ہیں ۔ بہر کیف یہ آج کی ہی بات نہیں بلکہ وادی میں جب کبھی غیر معمولی سیاسی اتھل پتھل کے سبب حالات کشیدہ ہوئے تو کشمیری مسلمان بلا کسی ادنیٰ تامل کے اپنوں اور غیروں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ۔ اسی بنا پر سنتالیس میں گاندھی کو یہاں امید کی کرن نظر آئی تھی ۔ ۲۰۰۵ءکے زلزلے میں کشمیریوں نے متاثرین کی خدمت میں کوئی کمی نہ رکھی ۔ اسی طرح جب ۲۰۱۰ءمیں وادی میں امرناتھ لینڈ تنازعے کے پس منظر میں خون خرابے اور سنھگرش سمتی کے معاشی بائیکاٹ نے وادی میں سار ا نظامِ زندگی مفلوج کیا تو یہاں کے عام لوگوں نے امرناتھ یاتریوں سمیت غیرریاستی مزدوروں ا ور کاریگروں کے لئے مہمان نوازی اوردیکھ بھال میں کوئی کسرنہ چھوڑی۔ حالانکہ اس وقت خود کشمیریوں کی جان کے لالے پڑے تھے ،یہاں کے نو جوان یکے بعد دیگرے قبروں میں ابدی نیند سلائے جارہے تھے اور متعصب اور جھوٹ کا پروردہ فرقہ پرست میڈیا کشمیری مظلوموں کی شبیہ مسخ کرتے ہوئے پیشہصحافت اور اخلاقیات کے پرخچے اڑا تے ہوئے گلا پھاڑ پھاڑکر کشمیریوں کو فرقہ پرست، شرپسند،انسان دشمن اور دہشت گرد ہونے کی موٹی موٹی گالیاں دیتا جاتا رہا تھا ۔ سال ۲۰۱۴ ءمیں صدی کابدترین سیلاب وادی کشمیر کے شرق وغرب کو لے ڈوبا مگر کشمیری مسلم نوجوانوں نے اپنوں کے واسطے ہی نہیں بلکہ پرائیوں کے لئے بھی جانیں نچھاور کیں ، حتیٰ کہ بعض جگہوں پرانہوں نے جان جھوکم میں ڈال کر فورسز اورپولیس اہل کاروں کو سیلاب میںڈوب مرنے سے بچالیا ۔اس کا کھلااعتراف خود سرینگر میں سولہویں کور کے اعلیٰ کمانڈر نے پریس کے سامنے واضح الفاظ میں کیا۔انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو شاباش یاںدیں کہ نوخیز کلیوں نے جان کی پرواہ نہ کر تے ہوئے اپنی رضا کارانہ خدمات بلا کسی تفریق ِمن وتو انجام دے کر سیلاب میں پھنسے لوگوں کی زندگیاں بچادیں ۔اس کے علی الرغم خود محکمہ دفاع کے بچاو آپرویشن اور ریلیف کی تقسیم پر انگلیاں اٹھتی رہیں۔ زیادہ ودر کیوں جائیے، حال ہی میں سری نگر کے ایک شکارے والے نہ صرف غیر ریاستی سیاحوں کو جہلم میں ڈوبنے سے بچالیا بلکہ وہ ان میں سے کسی کا ہینڈ بیگ جہلم کی تہ سے نکال باہر کر نے کی کوشش کے دوران اپنی ہی جان گنوا بیٹھا۔ اس طرح کی متعدد مثالیں کسی بھی سلیم الفطرت انسان کو چار وناچار یہ اعتراف کرانے پر مجبور کراتی ہیں کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی کا فخر یہ تعارف آج بھی اسی معتوب و محروم کے قوم کے ماتھے کا جھومر ہے ۔ یا د رکھئے ہمارے لئے زمین اپنی وسعتوں کے باوجود کتنی ہی تنگ کیوںنہ کی جائے، جب تک ہمارے درمیان انسانی اقدار اور اوصاف کا یہ مشک بارگلشن مہکتا رہے گا ہمیں زمین کی کوئی طاقت مٹاسکتی ہے نہ آسمان کی کوئی آفت شکست دے سکتی ہے ۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 353094 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.