13 جولائی یومِ شہدائے کشمیر

ویسے تو یوم شہدائے کشمیر 13جولائی کو منایا جاتا ہے مگر قاتل بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی شہادتوں کا سلسلہ کبھی رکا نہیں۔ 13جولائی سے تین دن قبل مجاہد کمانڈر برہان وانی کی شہادت پر ہونے والے بھرپور مظاہروں کو کچلنے کے لئے بھارتی فوج نے نہتے کشمیریوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی جس کے نتیجے میں 21کشمیری شہید اور تین سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ پہلے کشمیری ڈوگرہ راج کے مظالم کا سامنا کرتے تھے اور اب کئی دہائیوں سے بدمعاش بھارتی فوج کی قتل و غارت گری کے سامنے حصول آزادی کے لئے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بہرحال 13 جولائی یوم شہداء کشمیر کا پس منظر 29 اپریل 1931ء کے دن سے شروع ہوتا ہے جب جموں کے میونسپل باغ میں عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے لئے جمع مسلمانوں کو نماز ادا کرنے سے منع کردیا گیا۔ امام مفتی محمد اسحاق عید کا خطبہ پڑھ رہے تھے کہ کھیم چند نامی ڈوگرا پولیس کے ایک اہلکار نے انہیں خطبہ دینے اور مسلمانوں کو عید کی نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا۔ کشمیر بھر کے مسلمان اس بلاوجہ اور کھلی زیادتی اور اپنی مذہبی آزادی پر سنگین حملے پر مشتعل ہو گئے۔ 25 جون 1931ء کو سری نگر میں ڈوگرا راج اور اس کے ظلم و ستم کے واقعات کے خلاف مظاہرہ کے سلسلے میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں عبدالقدیر نامی ایک نوجوان اپنی جگہ سے اٹھا اور بلند آواز میں ایک ولولہ انگیز تقریر کی اور کہا کہ ’’اب ڈوگرا راج کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں کے لئے عمل کا وقت آ چکا ہے اور اب وہ کسی صورت ڈوگرا راج کی اسلام اور مسلمان دشمنی پر مشتمل نفرت انگیز حرکات اور اپنے مذہب اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات کو برداشت نہیں کرینگے‘‘۔ ڈوگرا راج کے اہلکاروں نے عبدالقدیر نامی اس نوجوان کو اسی شام اس کے گھر سے گرفتار کرلیا اور اس پر ڈوگرا راج کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔عوام کے خوف سے ڈوگرا راج نے جیل کے اندر ہی مقدمہ کی کارروائی کا فیصلہ کرلیا جبکہ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ عبدالقدیر کا مقدمہ کھلی عدالت میں چلایا جائے تاکہ وہ بھی مقدمے کی سماعت میں شریک ہوسکیں۔ 13 جولائی 1931ء کا دن آیا عبدالقدیر کے مقدمے کی کارروائی سری نگر کی مرکزی جیل کے اندر جاری تھی جبکہ جولائی کی گرمی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی جیل کے باہر لاکھوں مسلمان اس کارروائی کو دیکھنے کی غرض سے جمع تھے اور مطالبہ کررہے تھے کہ مقدمہ کی کارروائی عدالت میں کی جائے۔ اسی دوران ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا۔ شمع توحید کے ان پروانوں نے نماز ظہر ادا کرنے کے لئے اپنی صفیں درست کرنا شروع کردیں۔ حاضرین میں سے ایک اذان دینے کے لئے آگے بڑھا۔ ابھی اﷲ اکبر کی صدا فضاء میں گونجی ہی تھی کہ اس کے ساتھ ہی گولی چلنے کی آواز بھی سنائی دی۔ موذن کو گولی مار دی گئی تھی۔ پہلے شہید کشمیری کا خون آزادی کی تحریک میں شامل ہو گیا مگر کشمیری اس اذان کو نامکمل کیسے رہنے دیتے حاضرین میں سے دوسرا جوان آگے بڑھا تاکہ باقی اذان مکمل کرے تو اﷲ اکبر کی دوسری صدا کے ساتھ ہی دوسری گولی نے اس موذن کو بھی خون میں لت پت کردیا مگر اس جوشیلے ہجوم میں سے کسی کو یہ قبول نہ تھا کہ انہوں نے جس نماز کی نیت کی ہے اس کی اذان پوری نہ ہو پائے۔ اسی طرح یکے بعد دیگر اذان کے الفاظ ادا ہوتے رہے اور کشمیری جام شہادت نوش کرتے رہے۔ تاریخ اسلام کی اس یادگار اور انوکھی اذان کو مکمل کرنے کے لئے بائیس کشمیریوں نے اپنے خون کی قربانی پیش کی اور ڈوگرا راج پر ثابت کردیا کہ اب ان کے عزم کے سامنے کوئی رکاوٹ زیادہ دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی اور ان کے قدم منزل پر ہی جاکر رکیں گے۔ انہی بہادر اور پُرعزم کشمیری شہداء کی یاد میں ہر سال تیرہ جولائی کو ’’یوم شہدائے کشمیر‘‘ منایا جاتا ہے جنہوں نے ڈوگرا راج کی طرف سے برسنے والی تمام گولیوں کا راستہ اپنے سینے سے روکا لیکن اپنے عزم اور ارادہ میں کوئی کمزوری نہ آنے دی۔ ڈوگرا راج کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

بہرحال یوم شہداء کشمیر 13 جولائی 1931ء کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کے مشن کی تکمیل تک جدوجہد آزادی جاری رکھنے کے عزم کا دن ہے۔ 1931ء میں اس تحریک شہداء نے کچھ شدت اختیار کی جب 22 فرزندان اسلام نے اپنے لہوسے اس کی آبیاری کی۔ ہندوستان میں مسلم لیگ نے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تو ریاست جموں و کشمیر میں اس فکر اور نظریہ کی امین مسلم کانفرنس بنی۔ جس نے رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس مرحوم کی قیادت میں باقاعدہ تحریک آزادی شروع کردی۔ 1938ء میں ہندو کانگرس کی سازش سے اس تحریک کا رشتہ اسلام سے منقطع کرکے نیشنل ازم سے استوار کرنے کے لئے نیشنل کانفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے لئے شیخ عبداﷲ کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ہندوستان میں کانگرس تھی تو ریاست میں اس کی ہم فکر اور حلیف جماعت نیشنل کانفرنس تھی۔ 19 جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس نے سرینگر میں سردار محمد ابراہیم خان کے مکان پر قرارداد الحاق پاکستان منظور کی۔ بہرحال کل بھی اور آج بھی جموں و کشمیر کے عوام بھارتی قبضے سے آزادی کے پُرامن جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی پُرامن تحریک آزادی کو دبانے کے لئے 7لاکھ فوج کشمیر میں تعینات کررکھی ہے جس کے ذریعے سے کشمیریوں پر ظلم و ستم کیا جاتا ہے اور ان کے لئے آزادانہ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوچکا ہے۔ اس ظلم کیخلاف کشمیری آواز اٹھاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر ایک تسلیم شدہ بین الاقوامی تنازع ہے اور یہ تنازع اس لئے بھی خطرناک ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان یہ حل طلب ہے اور اس مسئلے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے مابین جنگیں ہو چکی ہیں اور مستقبل میں بھی اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر یہ دیرینہ مسئلہ حل نہ ہوا تو دونوں ممالک ایک دوسرے سے ٹکرا سکتے ہیں اور اب چونکہ دونوں ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں لہٰذا جنگ کی صورت میں نہ صرف اس پورے خطے میں شدید تباہی آ سکتی ہے ۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 39561 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.