الوداع ایدھی ،سلام ایدھی۔۔۔۔!

 فخر پاکستان ،پہچان ِ پاکستان ، بابائے خدمت ،مسیحائے انسان ،لا وارثوں کا وارث ،بے سہاروں کا سہارا ،پیکر انسانیت ،درویش صفت ، سادگی کا پیکر ،خادم ِ اعظم ،وہ جو درد سمیٹنے والا تھا ،درد دے گیا ۔اپنے آپ میں وہ صرف ایک انسان نہیں ،ایک ادرہ تھا ، ایک دور تھا،ایک تحریک تھی ، ایک تاریخ تھی ۔ موت نے ہم سے اس عہد کا سب سے بڑا انسان چھین لیا۔ جو اپنے پیچھے ہمارے لئے گہرے اندھیرے چھوڑ کر چلا گیا ،چراغ کی تھرتھرائی ہو ئی روشنی ہمیشہ کے لئے بجھ گئی ۔یہ چراغ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالم انسانیت کا چراغ تھا کہ اس کی روشنی جہاں تہاں بلا کسی امتیاز ِ رنگ و نسل ،مذہب اور قوم ، دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی تھی ۔ رات کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں بھی ہمیشہ اس شخص کو صبح اُمید کی کرن نظر آتی رہی ۔ اس کا عقیدہ تھا کہ کہ جلد یا بدیر انسان ،انسان بن ہی جائے گا ۔ یہ بم دھماکوں میں جلی کٹی لاشوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھانے والا ،نالوں سے نکلنے والی گلی سڑی لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دینے والا ، بے گھر خواتین کو چادر اور چاردیواری کا تحفظ دینے والا ، کچرہ کنڈیوں سے ملنے والے دنیا کی نظروں میں ناجائز بچوں کو سینے سے لگانے والا،زلزلوں ،سیلابوں اور طوفانوں میں خیمے ،کمبل ،ادویات لے کر سب سے پہلے پہنچنے والا ، ’’عبدالستار ایدھی ‘‘ہی تھا ۔ جیسے سب جانتے ہیں کہ یہ شخص دنیا میں سب سے بڑا ایمبولینس نیٹ ورک چلا رہا تھا، کروڑوں لوگوں کو روتا سسکتا چھوڑ کر دنیا کو خدا حافظ کہہ گیا ۔کہیں کوئی حادثہ ہو،عمارت گرے ،فٹ پاتھوں سے لاشیں ملیں ، اس مقام آہ و بکا پر سب سے پہلے ایدھی کی ایمبولینس حاضری دیتی ،اس کے کارکن بلکتی ہوئی انسانیت کی مدد کر رہے ہوتے ، تمام فرض شناسوں کے آتے آتے معلوم ہوتا کہ ایدھی نے ملبے تلے دبے ہوئے لوگوں کو نکال بھی لیا ، طبی امداد بھی فراہم کر دی ،زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے کے ساتھ ساتھ لاشوں کے کفن دفن کا انتظام بھی کر دیا ۔ ادھر کوئی حادثہ یا سانحہ ہوتا اور یہ پلک جھپکتے میں جائے وقوعہ پر پہنچ جاتا ، اسے کسی اعلیٰ حکومتی افسر کی پرواہ اور نہ کسی اخبار نویس کی خوشنودی منظورہوتی ، بھلا شہرت ،ریاکاری اور ذاتی غرض سے عبدالستار ایدھی کا کیا واسطہ ؟جو بے غرض ہوتا ہے اس کا قد ایوانوں میں بیٹھے بونے آدمیوں سے بہت بڑا ہوتا ہے ۔عبدالستار ایدھی نے پاکستان کے غریب عوام کی کسی بھی پاکستانی لیڈر سے زیادہ بے لوث خدمت کی ۔ اگر یقین نہ ہو تو موجودہ ملکی لیڈروں کو ایک جانب کسی فٹ پاتھ پر کھڑا کر کے کہئے کہ عوام سے خدمت خلق کے لئے بھیک مانگیں، دوسری جانب بابا ایدھی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جھولی پھیلا دیتے اور عوام بابا ایدھی کی جھولی بھرتے ہیں ۔

وطن عزیز سے جھوٹ ،منافقت ،ظلم،مکاری ،بغض ،کینہ ،حسد،نفرت ،بد عنوانی ،بے ایمانی ،انتشار، اقرباء پروری،رشوت خوری اور دیگر سماجی برائیوں کا جنازہ کب اٹھے گا ؟ شائد یہ جنازہ کبھی نہیں اٹھے گا،لیکن عبدالستار ایدھی کا جنازہ تو اٹھ گیا ۔ وہ ہاتھ جو ہر سُو ہمدردی کے دیپ جلاتے تھے ، بجھ گئے ! لیکن ایدھی فاؤنڈیشن کی صورت میں ان کا جلایا ہوا چراغ آج بھی روشن ہے ۔ ایدھی اپنی ہم نام اس فاؤنڈیشن کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے ، ان کا نام محبت ،خدمت اور ایثار کے حوالے سے ہمیشہ زندہ و جاویدرہے گا ،ان کے ہاتھوں جلنے والے چراغ روشن رہیں گے اور ان کی پیشانی ان لاکھوں کروڑوں انسانوں کی شکل میں دمکتی رہے گی جو ان کے معاون و مددگار رہے اور آج بھی ہیں ۔ اس کرب ناک لمحے میں جب ہم اس مسیحا کو رخصت کر رہے ہیں ،چند باتیں اور یادیں سمیٹنے کی کوشش کی ہے اور وہ صرف کوشش ہی ہے ،ورنہ سورج کو چراغ کون دکھائے ۔بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے، الوداع ایدھی ،سلام ایدھی ۔۔۔ !
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 89982 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.