فضیلت والی دو راتیں

 آج کل مسلمان کم علمی یا اغیار کی سازشوں کی باعث دین سے دور ہوتے جارہے ہیں کیفیت یہاں تک پہنچ چکی کہ مسلمان تہذیب اغیار کے اس قدر اسیر ہوگئے کہ اسلام کی بنیادی اقدار کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔بڑے بڑے قیمتی مواقع ہم مسلمان بے دینی کے باعث یوں ہی معصیت میں گزار دیتے ہیں جبکہ ان کی فضیلت اسلام،اﷲ ورسولﷺ کے ہاں بہت زیادہ ہوتی ہے۔

ان میں سے دو راتوں کا یہاں تذکرہ کیا جاتا ہے اول تو شب قدر ہے جس کا ذکر قرآن وحدیث میں بہت زیادہ آیا ہے جس کا اہتمام نبی ٔ اکرم ﷺ،صحابہ کرامؓ ،اولیاء اﷲؒ نے خصوصیت کے ساتھ ہمیشہ کیا ۔قرآن مجید میں اس رات کو لیلتہ القدر کہا گیا ہے جس کا مقام یہ ہے کہ اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیاہے ۔نبی ٔ کریم ﷺ نے اس رات کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کا فرمایا ہے حضرت عبادۃ ؓ نے نبی ٔ کریم ﷺ سے شب قدر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں ہے (یعنی21,23,25,27,29 میں)۔ جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے اس رات میں عبادت کرے اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں،اس رات کی منجملہ اور علامتوں میں سے یہ ہے کہ وہ رات کھلی ہوئی چمکدارہوتی ہے ،نہ زیادہ ٹھنڈی نہ زیادہ گرم،بلکہ معتدل گویا کہ اس میں (انوار کی کثرت کی وجہ سے)چاند کھلا ہوا ہوتا ہے اس رات میں صبح تک آسمان کے ستارے شیاطین کو نہیں مارے جاتے ۔نیز اس کی علامتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے بعد صبح کو آفتاب بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے جیسا کہ چودھویں کا چاند۔اﷲ جل جلالہ نے اس دن کے آفتاب کے وقت طلوع کے وقت شیاطین کو اس کے ساتھ نکلنے سے روک دیا(بخلاف اور دنوں کے طلوع آفتاب کے وقت شیاطین کا اس جگہ ظہور ہوتا ہے)
(البہیقی،بحوالہ رسالہ فضائل رمضان)

حضرت عائشہ ؓ نے حضور ﷺ سے پوچھا یارسول اﷲ ﷺ اگر مجھے شب قدر کا پتہ چل جائے تو میں اﷲ سے کیا مانگوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا یہ مانگو (ترجمہ) اے اﷲ تو بے شک معاف کرنیوالا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو پس معاف فرما دے مجھ کو بھی۔

مسلمان ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے ہیں تاکہ بخشش کے ساتھ ساتھ اس فضلیت والی رات کو بھی تلاش کیا جا سکے ۔ ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ نبی ٔ کریم ﷺ نے رمضان المبارک کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا اور پھر دوسرے عشرے میں بھی پھر ترکی خیمہ سے جس میں اعتکاف فرمارہے تھے باہر نکل کر فرمایا کہ میں نے پہلے عشرے کاا عتکاف کیا شب قدر کی تلاش اور اہتمام کی وجہ سے۔پھر اسی وجہ سے دوسرے عشرہ میں کیا ۔پھر مجھے کسی بتانے والے (فرشتہ) نے بتایا کہ وہ رات اخیر عشرہ میں ہے لہٰذا جو لوگ میرے ساتھ اعتکاف کر رہے ہیں وہ اخیر عشرہ کا بھی اعتکاف کریں مجھے یہ رات دکھلا دی گئی تھی پھر بھلا دی گئی (اس کی علامت یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو اس رات کے بعد کی صبح کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا ۔)لہٰذا اب اس کو اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو ،راوی کہتا ہے کہ اس رات میں بارش ہوئی تھی اور مسجد چھپر کی تھی وہ ٹپکی اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا نبی ٔ کریم ﷺ کی پیشانی مبارک پر کیچڑ کا اثر 21 کی صبح کو دیکھا۔

حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جس رات شب قدر ہوتی ہے تو حق شانہ تعالیٰ حضرت جبرائیل ؑ کو حکم فرماتے ہیں کہ وہ فرشتوں کے ایک لشکر کے ساتھ زمین پر اترتے ہیں ان کے ساتھ ایک سبز جھنڈا ہوتا ہے جس کو کعبہ کے اوپر کھڑا کرتے ہیں اور حضرت جبرائیل ؑ کے سو بازو ہیں جن میں سے دو بازو صرف اسی رات میں کھولتے ہیں جن کو مشرق سے مغرب تک پھیلا دیتے ہیں پھر حضرت جبرائیل ؑ فرشتوں کو تقاضا فرماتے ہیں کہ جو مسلمان آج کی رات کھڑا ہو یا بیٹھا ہو ،نماز پڑھ رہا ہو یا ذکر کر رہا ہو اس کو سلام اور مصافحہ کریں اور ان کی دعاؤں پر امین کہیں صبح تک یہی کیفیت رہتی ہے ۔جب صبح ہو جاتی ہے تو جبرائیل ؑ آواز دیتے ہیں کہ فرشتوں کی جماعت اب کوچ کرو اور چلو۔فرشتے جبرائیل ؑ سے پوچھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے احمد ﷺ کی امت کے مومنوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں کیا معاملہ فرمایا وہ کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر توجہ فرمائی اور چار شخصوں کے علاوہ سب کو معاف کردیا ۔صحابہ ؓ نے پوچھا کہ یارسول اﷲ ﷺ وہ چار شخص کون ہیں ؟تو ارشاد ہوا کہ ایک وہ شخص جوشراب کا عادی ہو ،دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنیولاہو،تیسرا وہ شخص جو قطعہ رحمی کرنے والا ہو اور آپس میں قاطع تعلق کرنے والا ہو۔چوتھا کینہ رکھنے والا۔( رسالہ فضائل رمضان)

دوسری چاند رات ہے جسے بڑے بڑے دین دار لوگ ضائع کر دیتے ہیں عید کی رات کو احادیث میں انعام کی رات سے پکارا گیا ہے اس رات میں اﷲ رب العزت کی طرف سے اپنے بندوں انعام دیا جاتا ہے اس لئے بندوں کو بھی اس رات کی قدر کرنی چاہیے بہت سے لوگ عوام کا تو پوچھنا ہی کیا خواص بھی رمضان کے تھکے ماندے اس رات میں میٹھی نیند سوتے ہیں حالانکہ کہ یہ رات بھی خصوصیت سے عبادت میں مشغول رہنے کی رات ہے نبی ٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں عیدوں میں جاگے (اور عبادت میں مشغول رہے) اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن سب کے دل مر جائیں گے (یعنی فتنہ وفساد کی وجہ سے لوگوں کے دلوں پر مردنی چھاتی ہے اس کا دل زندہ رہے گا اور ممکن ہے کہ صور پھونکے جانے کے دن مراد ہو ،کہ اس کی روح بے ہوش نہ ہوگی)

چاند رات کے حوالے سے نبی ٔ کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب عید الفطر کی رات ہوتی ہے تو اس کانام لیلتہ الجائزہ سے لیا جاتا ہے ،

اکابرین امت،اولیاء اﷲ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اس رات کو اہتمام کے ساتھ عبادت کی رات سمجھ کر اﷲ کے حضور نہایت عجز وانکساری کے ساتھ گزارتے ۔آج مسلمانوں کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے دین سے اس قدر دور ہیں کہ چاند رات کی فضیلت حاصل کرنے کی بجائے بازاروں میں خریدوفروخت میں اس قدر مگن ہوتے ہیں کہ مرد وزن کا اختلاط سرعام ہو رہا ہوتا ہے ،مردوں کی نگاہیں نامحرم،بے پردہ عورتوں پر پڑتی ہیں، ادھر ادھر مردوں،عورتوں کا بے لگام گھومنا، الغرض ایک طوفان بے حیائی ہوتا ہے لوگ رمضان المبارک کی برکتوں ،سعادتوں کے بعد اس رات ضروریات زندگی کم خریدتے اور اﷲ ورسول ﷺ کوناراضی زیادہ کر جاتے ہیں جو سراسرخسارے کا سودا ہے ۔چند ایک نیک مسلمان اس رات کی قدر کرتے ہوئے اہتما م سے گزارتے ہیں ۔عوام الناس میں چاند رات کی اہمیت اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ مسلمان اس رات کی فضیلت کا بھی حاصل کرنے والے بن جائیں ۔

ہم ایمان والوں کو چاہیے کہ اس مثال پر غور کریں کہ جب ایک مزدور ایک ماہ مزدوری کرکے کوئی بلڈنگ تعمیر کرتا ہے مزدوری ملنے کے روز وہ مالک کے پاس مزدوری لینے ہی نہ جائے تو دنیا ایسے شخص کو بیوقوف ہی کہے گی۔آج مسلمانوں کی مثال بھی ایسے ہی ہے مسلمان پورا رمضان عبادت میں گزارتے ہیں مگر چاند رات کو جب ان کی مزدوری یعنی انعام لینے کا وقت ہوتا ہے تو اﷲ کی نافرمانی میں مگن ہو جاتے ہیں
سوچو مسلمانو دل ودماغ کی آنکھ سے سوچو !!! ٭٭٭
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245678 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.