دیر یا خیر، اِنسان یا فرشتے؟

محترم قارئین السلامُ علیکم
ہماری ویب نے “سچی کہانیوں“ کے عُنوان کے تحت ایک نئے شعبہ کا اضافہ کیا ہے اُمید ہے آپکو یہ سلسلہ بھی بے حد پسند آئے گا اس شعبہ میں آپ بھی لکھ سکتے ہیں کیونکہ ہر اِنسان کی زندگی میں بیشُمار ایسے واقعات ہوتے ہیں جو دوسروں کے لئے جہاں بُہت دِلچسی کا باعث ہوتے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگوں کو اِس سے سیکھنے کا موقع بھی مِلتا ہے۔

اگر آپ ایسا کوئی واقعہ شئیر تو کرنا چاہتے ہیں لیکن آپ کو لگتا ہے کہ آپ اُس واقعہ کو صحیح طریقہ سے بیان نہیں کرپائیں گے تو آپ مجھ سے مائی پیج پر رجوع کریں جس قدر ممکن ہُوسکا معاونت کردونگا بس اِس بات کی اِحتیاط رکھیئے گا واقعہ سچائی پر مُبنی ہونا چاہیے۔

آج میں جو سچا واقعہ آپکو سُنانے جارہا ہوں یہ غالباً ۱۹۸۹ کا واقعہ ہے جب ہَمارا مُلک ایک عظیم حادثے سے دوچار ہُوا تھا میری زندگی میں اِس سال کی اہمیت یوں بھی ہے اِسی سال میری شادی ہُوئی اِسی برس میرے والدین نے حج کی سعادت حاصل کی اور اِسی برس ہمارے گھر ایک ننھی مہمان بِہن کی صورت میں آئی تھی۔

اُس سال موسم سرما کی آمد کیساتھ ہی میں پنجاب، کاٹن سیڈ کی خریداری کیلئے جب چُوک پرمٹ (چُوک پرمِٹ علی پُور کے نزدیک براستہ مُظفر گَڑھ مُلتان روڈ پر واقع ایک چھوٹا سا اِسٹاپ ہے) جہاں مَلک گُُڈز کے نام سے ملک نذیر صاحب کی ایک بَڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہُوا کرتی تھی جب میں وہاں پُہنچا تو اِس مرتبہ کام سے زیادہ دھیان گھر میں لگا تھا اور وجہ صاف تھی کہ ابھی میری شادی کو صرف چند ہی ماہ ہوئے تھے کہ سیزن شروع ہوگیا۔

میری کوشش تھی کہ کسی طرح بھی میں اپنی خریداری مکمل کر کے جلد از جلد گھر پُہنچ جاؤں لیکن وہ جو کہتے ہیں نا کہ تقدیر کے آگے انسانی تدبیر بے بس ہوجاتی ہے تو ایسا ہی کُچھ سلسلہ میرے بھی ساتھ پیش آتا رہا اور بَقُولِ شاعر مرض بڑھتا گیا جوں جُوں دَوا کے مصداق سبھی اپنا اپنا کام کر کے روانہ ہورہے تھے سِوائے میرے لیکن جب قسمت مہربان ہوئی تو ایسے کہ ہفتہ دَس دِن کا کام صرف دو دِن میں مکمل ہوگیا میں آخری ٹرک لوڈ کروانے کے بعد تقریباً دوپہر ایک بَجے فارغ ہوگیا تو واپسی کا پروگرام بنانے لگا اُن دِنوں بہاؤالدین ذکریا ایکسپریس شام کے پانچ بجے مُلتان سے چلا کرتی تھی اور چوک پرمٹ پر ہر پندرہ منٹ کے بعد مُلتان جانے کیلئے کوسٹر اور وین دستیاب ہوجاتی تھیں میں نے فوراً نماز ظہر ادا کی اور تقریباً ڈیڑھ بجے اپنا بیگ تیار کر کے کمپنی کے باہر ہوٹل پر وین کا انتظار کرنے لگا پروگرام یہ تھا کہ ساڑھے تین بجے تک ریلوے اِسٹیشن ملتان پُہنچ کر سیٹ کی ریزوریشن کروالوں گا اور اگر وقت ملا تو افتخار بھائی کے گھر پر حاضری بھی دے دُونگا افتخار بھائی ریلوے میں ملازم تھے اور ریلوے کے پیچھے ہی اُنکا مکان تھا کالونی کا نام فی الحال یاد نہیں شائد پھاٹک موڑ کے نزدیک تھا البتہ شہر سے چُوک شاہ عباس جاتے ہوئے ریلوے بِرج کے داہنے ہاتھ پر اُنکی کالونی تھی۔

ابھی وین آنے میں چند مِنٹ باقی تھے کہ ملک نذیر صاحب کے صاحبزادے یا بھتیجے ملک جاوید کو میں نے اپنی جانب آتے دیکھا ملک جاوید کالج میں پڑھا کرتے تھے اور خاموش طبع تھے لہٰذا اُن سے زیادہ علیک سلیک نہیں تھی لیکن اُس دِن اُنہوں نے بڑی گرمجوشی کا مُظاہرہ کیا اور سلام دُعا بلکہ جَپھی شَپھی پانے کے بعد میرے بیگ کو دیکھتے ہوئے بڑی خُوشدِلی سے اِستفسار کیا بھائی واپس جارہے ہُو؟

میں نے ملک جاوید کو بتایا کہ میرا کام خَتم ہوچُکا ہے لہٰذا گھر کا چکر لگانے جارہا ہُوں اگر مزید خریداری کا اِرادہ ہُوا تو ایک ہفتے بعد پھر آؤں گا، ملک جاوید نے پُوچھا روٹی شوٹی کھالی آپ نے؟ میں نے صاف گوئی سے بَتا دیا کہ مجھے فی الحال بھوک نہیں ہے اگر بھوک لگی تو مُلتان میں کھانا کھالوں گا۔

ملک جاوید یہ سُن کر ضد کرنے لگا کہ یار ابھی بُہت وقت ہے تُمہاری گاڑی کے جانے میں ایسا کرو کہ روٹی کھا لو۔ میں سوچنے لگا کہ بات تو ملک جاوید کی بھی معقول ہے اور پھر ملک جاوید جیسا خاموش طبع نوجوان جو زیادہ کسی سے بات چیت نہیں کرتا تھا اُس کا یہ وارفتہ پَن بھی مجھے حیرت زدہ کئے جارہا تھا چُنانچہ میں نے کھانے کیلئے حامی بھر لی اُس نے ہوٹل پر کڑھائی گوشت کا آرڈر دے دیا اور ہم آپس میں نجی گُفتگو میں مصروف ہوگئے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اُس نے لسّی کا آرڈر دیدیا جب میں لَسّی پی کر فارغ ہُوا تو کلائی میں بندھی گھڑی پر نظر ڈالی جو پُونے تین بجنے کا اِشارہ دے رہی تھی ملک جاوید کا اصرار تھا کہ میں پان بھی کھا لوں لیکن اَب میرے پاس وقت بُہت تنگ تھا لہٰذا مُعذرت کرتے ہوئے اپنے بیگ کو سنبھالنے لگا اور جیسے ہی وین آتی دِکھائی دی ملک جاوید سے اِجازت لے لی وین میں سوار ہونے سے قبل میں نے کلینر سے معلومات حاصل کرلِیں وین کنڈیکٹر نے بتایا کہ وین ٹھیک پونے پانچ بجے ملتان اسٹیشن کے قریب ہوگی میں وین میں سوار ہوگیا لیکن وین جب شہر سُلطان پہنچی تو ضرورت سے زیادہ وقت سواریوں کی اَدل بَدل میں صرف ہوگیا اور مُظفر گَڑھ میں تو وین ڈرائیور ایسے اطمینان سے کھڑا ہوگیا جیسے اُسکی منزل مُلتان شہر نہ ہو بلکہ مُظفر گڑھ ہو مُسافِروں کی بڑی لعن طعن کے بعد ڈرائیور صاحب مُظفر گڑھ سے چلنے پر آمادہ ہُوئے نتییجتاً جب وین مُلتان شہر کے ریلوے اسٹیشن کے باہر پُہنچی تو پانچ بجنے میں صرف پانچ منٹ باقی تھے اِسٹیشن کے باہر ہی ٹکٹ گھر سے حیدرآباد تک کا ٹکٹ حاصل کیا اور جونہی پلیٹ فارم پر قدم رکھا تو صدمہ سے بُرا حال ہوگیا بہاؤ الدین ذکریا ایکسپریس پلیٹ فارم کو چھوڑ رہی تھی میں اُلٹے قدم واپس ٹکٹ گھر آیا اور ٹکٹ واپس کراتے ہوئے ٹکٹ سیلر سے دریافت کرنے لگا کہ ذِکریا ایکسپریس کو میں کس طرح پاسکتا ہوں وہ ٹکٹ سیلر کوئی نیک اِنسان تھا اُس نے مجھے بتایا کہ زکریا ایکسپریس پانی حاصل کرنے کیلئے راستہ میں رُکے گی تقریباً 20 مِنٹ کا اِسٹاپ خانپور شہر میں کرے گی اگر آپ بس اِسٹاپ سے فُلاں کوچ میں سوار ہوجائیں تو ذکریا ایکسپریس کی ٹائمنگ میں خانپور شہر پُہنچ جائیں گے میں نے اُسکا شُکریہ اَدا کیا اور بَس اِسٹاپ پُہنچ کر مطلوبہ کوچ میں خانپور شہر کیلئے سوار ہوگیا اُس کوچ میں ڈرائیور کی بائیں جانب تین افراد کے لئے بیٹھنے کی گُنجائش تھی دو نوجوان پہلے ہی براجمَان تھے ایک سواری کی جگہ خالی تھی سو اُس پر میں بیٹھ گیا دوران سفر وہ دونوں نوجوان مجھ سے گُھل مِل گئے اور بڑی مُحبت سے پیش آنے لگے اُن دونوں نے بتایا کہ وہ خانپور شہر کے رہنے والے ہیں اُنہی کی زبانی مجھے معلوم ہُوا کہ یہ کوچ نان اِسٹاپ ہے اس لئے خانپور شہر ہی جا کر اِسٹاپ کرے گی ۔

یہ سُن کر مجھے بُہت خُوشی ہوئی کہ چَلو سابِقہ تجربے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور میں وقت پر ذکریا ایکسپریس پر سوار ہونے میں کامیاب ہوجاؤں گا، دوران سفر جب اُنہوں نے مجھ سے میرے شہر کے مُتعلق پُوچھا تو میں نے بجائے میرپورخاص کے کراچی کی شُہرت کے پیش نظر یہ کہہ دِیا کہ میں کراچی شہر سے نزدیک ایک شہر میں رہتا ہوں کراچی شہر کا ذکر مجھے یوں بھی محبوب تھا کہ کراچی شہر ہی میری شریکِ سفر کا آبائی شہر تھا وہ تمام راستے مجھ سے کراچی کے حالات ہی پُوچھتے رہے اور میں تصور میں لانڈھی کی سیر کرتے ہُوئے اُنہیں ہاں ہُوں میں اُنکے سوالات کے جوابات دیتا رہا۔

جب کنڈیکٹر صاحب نے خانپور شہر آنے کی نوید سُنائی تو دِل چاہا کہ اُس کا مُنہ چُوم لوں لیکن جب آئل اور گِریس سے بھرے چِہرے پہ نِگاہ پَڑی تو مُجھے مجبوراً اپنا اِرادہ بَدلنا پَڑا.

کوچ سے اُترتے ہی اللہ کریم کا شُکر بَجا لایا، میرے ساتھ وہ دُونوں نوجوان بھی اُترے اور مجھ سے کہنے لگے آئیے ہم آپکو اِسٹیشن تک چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے راستے میں ہی آئے گا میں خُوش ہوگیا کہ چلو اسطرح وقت بچ جائے گا جب ریلوے اِسٹیشن قریب آیا تو اُنہوں نے مجھے چائے کی پیشکش کردی، میں نے اُن سے کہا کہ میرے لئے ذکریا ایکسپریس کا پکڑنا اِہم ہے آپکی پیشکش کا شُکریہ، میرے اِس جواب پر اُن دونوں کے چہرے کے تیور بدل گئے۔ کہنے لگے چائے تو تُمہیں پینی ہی پڑے گی چاہے خُوشی سے پِیو یا ہَمیں زبردستی پِلانی پڑے مجھے اُنکے اچانک بدلتے ہُوئے تیور پر حیرت کیساتھ خُوف بھی مِحسوس ہونے لگا میں سوچنے لگا کہیں اِنکا اِرادہ مجھے لوٹنے کا تو نہیں ہے ورنہ کہاں غایت درجہ کی اپنائیت اور کہاں یہ دُرشتگی، میں نے سوچا کہ اِن سے یہاں تنہائی اور اندھیرے میں اُلجھنے سے بِہتر ہے کہ ہوٹل چلا جائے وہاں کم از کم دوسرے لوگ بھی موجود ہُونگے۔

وہ مجھے ایک قریبی ہوٹل میں لے گئے وہاں کافی گہما گہمی تھی جِس کے سبب میرا حوصلہ کچھ بحال ہُوا چائے پینے کے دوران ٹرین کی وصل کی آواز سُنائی دی اُن میں سے ایک کہنے لگا آپ ایویں (ایسے ہی) پریشان ہو رہے تھے ذکریا تے ھُن آئی اے(ابھی آئی ہے) اُس نوجوان کے جواب سے مجھے مزید اطمینان حاصل ہُوا کیونکہ ملتان ٹکٹ سیلر کی زُبانی مجھے معلوم ہُو ہی چُکا تھا کہ خانپور اسٹیشن پر ذکریا ایکسپریس کافی ٹائم کا اِسٹاپ کرتی ہے چائے پی کر ہُم تینوں اِسٹیشن کیلئے روانہ ہوگئے جب اِسٹیشن پہنچے تو وہاں کوئی ٹرین نظر نہیں آئی اسٹیشن ماسٹر سے جب ذکریا کی آمد کا ٹائم معلوم کیا تو وہ کہنے لگا کہ ابھی پانچ منٹ پہلے ہی تو ذکریا ایکسپریس حیدرآباد روانہ ہُوئی ہے۔

مجھے ایسا مِحسوس ہُوا کہ جیسے اِسٹیشن ماسٹر نے جواب نہ دِیا ہُو بلکہ میرے سِینے پر گُھونسہ دِے مارا ہُو اِک یاس کی کیفیت تھی جُو مُجھ پہ طاری تھی مجھے ملک جاوید پر غُصہ آرہا تھا جِس کی وجہ سے میں آج خُوار ہو رہا تھا اور اُسکے بعد یہ دو نوجوان تھے کہ چائے کہ چکر میں اُلجھا کر مجھے منزل کے سامنے ہُونے کے باوجود منزل سے دور لے آئے تھے میں نے خَشمگیں نِگاہوں سے اُنکی جانب دیکھا تو اُنکے چہرے پہ بجائے شرمندگی کے اطمینان دیکھ کر دِل چاہا کہ کوئی بھاری پَتھر اُن دونوں کے سر پہ دے ماروں، مجھ سے آنکھیں چار ہُوتے ہی ایک نوجوان بَڑے اِطمینان سے بُولا جناب دِل چھوٹا نہ کریں اِس میں بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی بھلائی اور حِکمت ہی ہوگی۔ میں اُسکا جواب سُن کر خُون کے سے گھونٹ پی کر رہ گیا۔

اُن میں سے ایک نوجوان نے اِسٹیشن ماسٹر سے دریافت کیا سر جی اگلی گَڈی کیس ویلے آئے گی؟

اسٹیشن ماسٹر نے بتایا کہ اگلی گاڑی کے آنے میں ابھی تقریباً ۲ گھنٹے باقی ہیں، وہ دونوں نوجوان کہنے لگے بھائی ہماری وجہ سے آپ کی ذکریا ایکسپریس نِکل گئی ہے لہٰذا جب تک اگلی گاڑی نہیں آجاتی ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے، میں اُنکا یہ جواب سُن کر مزید پریشان ہُوگیا اور اُن سے یوں گُویا ہُوا کہ بھائی آپ دونوں کی وجہ سے میرا پہلے ہی کافی بَھلا ہُوچُکا ہے اب مہربانی فرما کر مجھے میرے حال پر چُھوڑ دو۔

وہ دونوں میری توقع کے بر خِلاف جانے کیلئے کھڑے ہوگئے میں نے کھڑے ہوکر اُن دونوں سے مُصافِحہ کیا مُجھے پہلی مرتبہ اُن سے ہاتھ مِلاتے ہُوئے ایک عجیب سا اِحساس ہُوا کہ اگرچہ سردی کا زمانہ تھا مگر اُن دونوں کے ہاتھوں میں ضرورت سے زیادہ ہی ٹھنڈک کا اِحساس تھا، اُن کے جانے کے بعد میں پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرنے لگا تھکن کیساتھ ساتھ بُھوک کا اِحساس بھی ہُونے لگا تھا پلیٹ فارم پر جو دستیاب اشیاء مُیَسّر آئی اُن سے پیٹ کی آگ بُجھانے کے بعد عِشاء کی نماز اَدا کی اور خانپور تا حیدرآباد کا ٹکٹ حاصل کرنے کے تُھوڑی دیر بعد جونہی میری مطلوبہ ٹرین آئی میں اُس میں سوار ہوگیا کُچھ کوشش کے بعد مجھے ایک برتھ بھی مجھے مِل گئی میں نے اپنے بیگ کو تکیہ کی جگہ اِستعمال کیا اور تھوڑی دیر بعد میں تمام غَم بُھلا کر سونے میں کامیاب ہوگیا صبح فجر کی نماز کے بعد جب اُجالا پھیلنے لگا تھا ٹرین کی رفتار غیر معمولی طور پر کم ہوتے ہوتے اسقدر دھیمی ہوگئی کہ مانو جیسے ٹرین چل نہ رہی ہُو بلکہ رینگ رہی ہو یا ٹہر گئی ہو۔

اُس کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کا شور بڑھنے لگا یہاں تک کہ کان پڑی آواز بھی سُنائی نہ دے رہی تھی لوگ دروازے اور کھڑکیوں کی طرف بھاگ رہے تھے میں بھی برتھ سے اُتر آیا اور جب میری نگاہ کھڑکیوں سے ہُوتی ہُوئی باہر پہنچی تو ایک دلخراش نظارہ میرا مُنتظر تھا جس بہاؤ الدین ذکریا ایکسپریس کیلئے میں کل سارا دِن بھاگتا پِھرا تھا وہ میری نظروں کے سامنے سانگی کے اسٹیشن پر ایسے پڑی تھی جیسے کوئی بچہ کِسی کھلونے سے کھیلتے ہوئے خَفا ہوجائے اور اُس کو تُوڑ مَروڑ کے رکھ دیتا ہے۔

چاروں جانب قیامت کا سا سماں تھا جا بَجا سامان بکھرا پَڑا تھا کہیں انسانی اعضاء پڑے تھے تو کہیں کھلونے اس حادثے میں جو میری معلومات کے مُطابق ایشیا کا سب سے بڑا ٹرین حادثہ تھا ساڑھے تین سو سے زائد مُسافر موت کا لُقمہ بَن گئے تھے سینکڑوں لوگ تمام عمر کیلئے مُحتاج ہو کر رہ گئے تھے پاک فوج کے جَوان امدادی کاروائیوں میں مصروف تھے کوئی ایسا شخص نہیں تھا کہ جِس کی آنکھ نَم نہ ہُو عجیب بے کسی اور بے بسی کا عالم تھا ۔ وہاں کے حالات دیکھنے کے بعد اکثر مُسافروں پر سکتے کی سی کیفیت طاری تھی مجھے نہیں خبر کہ کب میں حیدرآباد پُہنچا اور کب میر پور خاص لیکن کئی دِن تک جب بھی روٹی کھاتا تو کَٹے ہُوئے انسانی اعضاء نگاہوں کے سامنے آجاتے۔

میں تا حَیات مَلک جاوید کا تو ممنوں رہوں گا ہی کہ اُنکی بدولت میں اُس دِن اُ س حادثے سے اللہ کے فضل سے محفوظ رَہا لیکن آج بھی میں سوچتا ہوں کہ آخر وہ دو نوجوان کوں تھے؟ جنہوں نے مجھے خانپور شہر میں پُہنچنے کے باوجود اُس ٹرین میں سوار ہُونے سے تب تک روکے رکھا جب تک کہ ٹرین خانپور سے روانہ نہیں ہوگئی اور مجھے آج بھی اُس نوجوان کی بات یاد آتی ہے کہ اللہ کے ہر کام میں بھلائی اور حکمت ہوتی ہے۔ تبھی تو بُزرگوں نے یہ کہاوت کہی ہوگی کہ دیر آید دُرست آید۔

اللہ کریم تمام مُسلمانوں کی جان، مال، عزت، آبرو، کی حِفاظت فرمائے (آمین بِجاہِ النبی الامین وصلی اللہُ تعالی علیہ وسلم)۔
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1059390 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More