اعتکاف

سوال: مفتی صاحب اعتکاف کے ایام چل رہے ہیں،برائے کرم لغوی،عرفی اور اصطلاحی تعریف فرمادیں ۔( ایوب جان بنوری،رنگون)۔
جواب :اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔

پچھلی قوموں میں بھی اعتکاف کی عبادت موجود تھی، قرآنِ کریم میں ہے:” اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے“۔

حضرتِ عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺرمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے ،یہاں تک کہ آپ ﷺ کا وصال ہوا۔ پھر آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات (بیویاں)ؓ اعتکاف کرتی رہیں۔‘‘ متفق علیہ۔

اس کاپس منظریہ ہےکہ اللہ تعالٰی کی قربت و رضا کے حصول کے لئے گزشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں اپنے اوپر لازم کر لی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو ’’رہبان اور احبار‘‘ سے موسوم کیا ہے۔ تاجدار کائنات ﷺ نے تقرب الی اللہ کے لئے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لئے اعلیٰ ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لئے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔فقہی لحاظ سے مردوں کا اعتکاف معروف مسجد میں ہی ہو گا،اور عورتوں کا اپنے گھروں پر۔ملا علی قاری لکھتے ہیں:اعتکاف جماعت والی مسجد میں ہی درست ہے یعنی ایسی مسجد جہاں لوگ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے اکٹھے ہوتے ہوں۔ گویاجماعت والی مسجد اعتکاف کے لئے شرط ہے اور اس سے مراد ایسی مسجد ہے جہاں پانچ وقت کی نمازیں یا کچھ نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہوں۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے بقول: اعتکاف صرف ایسی جامع مسجد میں درست ہے جہاں پانچوں وقت کی نمازیں جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہوں اور یہی امام احمد کا قول ہے۔ علامہ ابن ہمام نے کہا : اس قول کو بعض مشائخ نے صحیح قرار دیا ہے۔ قاضی خان نے کہا : ایک روایت میں ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہی درست ہے اور یہی حدیث کا ظاہری معنی ہے۔ جبکہ امام ابو یوسف اور امام محمد سے مروی ہے کہ اعتکاف کسی بھی مسجد میں جائز ہے ،یہی امام مالک اور امام شافعی کا بھی قول ہے۔

سنت یہ ہے کہ 20رمضان کو غروب آفتاب سے پہلے پہلے مسجد میں معتکفین پہنچ جائیں۔علامہ ابو الحسن سندھی لکھتے ہیں: راوی کے قول، محمد ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے، سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اول وقت جس میں معتکف اعتکاف گاہ میں داخل ہوتا ہے وہ سورج غروب ہونے سے تھوڑی دیر قبل ہے اور اسی بات پر ائمہ اربعہ اور جمہوراہل علم کا اتفاق ہے کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے ۔

رمضان کےآخری دس دن کا اعتکاف کے بارے میں حضرت عبد اﷲ بن عمر سے روایت ہے : حضورﷺ رمضان کے آخری عشرے(دس دن) کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
رمضان کےآخری بیس دن کا اعتکاف کے بارے میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ حضورﷺہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے۔ لیکن جس سال آپ کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔

پورے رمضان کا اعتکاف کے بارے میں ابو سعید خدری سے روایت ہے:” حضورﷺ نے ایک بار یکم رمضان تا بیس رمضان تک اعتکاف کرنے کے بعد فرمایا: میں نے شب قدر کی تلاش کے لئے رمضان کے پہلے عشرہ کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گيا کہ شب قدر آخری عشرہ میں ہے سو تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے، وہ کر لے۔

Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 815857 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More