چولستان کی خشک سالی!

بہت دنوں سے اخبارات میں چولستان میں خشک سالی کی خبریں آرہی تھیں، تصاویر شائع ہورہی تھیں، جن میں دکھایا جارہا تھا کہ چولستانی اپنے مویشیوں سمیت نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ وہ اپنا مختصر سامان اٹھائے، اپنے مال مویشی کو ہانکتے چولستان سے باہر آبادیوں کی جانب رواں دواں تھے۔ چولستانیوں کی یہ نقل مکانی نئی یا انوکھی بات نہیں، یہ عمل انہیں ہر سال گرمیوں کے پہلے مہینوں میں دہرانا پڑتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ ان کے لئے پانی کا بندوبست کیا جائے تاکہ وہ اپنی زندگی کو معمول کے مطابق گزار سکیں۔ چولستان کی نگرانی اور فلاح وبہبود کے لئے ’’چولستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم ہے، یہ ادارہ اس خطے کے تمام تر مسائل پر نگاہ رکھتا اور انہیں حل کرنے کا ذمہ دار ہے۔ خشک سالی کی صورت حال اور خبروں کے بعد ادارہ نے اپنی سی کوششیں کیں، مگر مسائل زیادہ ہونے کی بنا پر عموماً یہ معاملہ سی ڈی اے کے بس کا روگ نہیں رہتا، یہی وجہ ہے کہ اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لئے ’پراونشل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی‘ سے رجوع کیا گیا تھا، اب خبر آئی ہے کہ مذکورہ اتھارٹی نے اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں کمشنر بہاول پور، ایم ڈی چولستان اور بہاولپور ڈویژن کے تینوں اضلاع کے ڈی سی اوز بھی شرکت کریں گے۔

اسلام آباد یا لاہور بیٹھ کر چولستان کے حالات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا۔ ان شہروں میں دو چار دن گرمی پڑ جائے تو بادل گھِر گھِر آتے ہیں، جم کر برستے ہیں، جل تھل کردیتے ہیں ، یوں چند روز کے لئے موسم تبدیل ہو جاتا ہے، اور پھر یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ مگر عام بارش حتیٰ کہ بادل بھی بہاول پور تک نہیں پہنچتے۔ وہاں یہ محاورہ عام ہے کہ جب بادل آتے ہیں، ہوائیں چلتی ہیں تو کہا جاتا ہے کہ وسطی پنجاب تک بارش برسا دو اورجب جنوبی پنجاب کی باری آتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ’مٹی پاؤ‘۔ یوں بالائی علاقوں میں بارشیں برسانے والی ہوائیں جنوبی پنجاب کے علاقوں میں گرد آلود ہو جاتی ہیں۔ یہ چولستانیوں کی قسمت کا معاملہ نہیں، یہ سطح زمین کی کہانی ہے، ظاہر ہے پہاڑی علاقوں میں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں، ان کے قریب میدانی علاقے بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں، مگر صحرا کی گرمی بادلوں کو اپنے قریب نہیں آنے دیتی۔ صحرا نشین بارشوں کو ترستے رہتے ہیں، کیونکہ ان کے تمام معمولات کا دارومدار بارش پر ہی ہوتا ہے، بارش ہوگی تو سبزہ ہوگا، جو اُن کے مویشی کھائیں گے اور زندگی کی رونقیں بحال رہیں گی۔ بارش ہوگی تو ٹوبوں میں پانی بھرے گا، جہاں سے ان کے اونٹ ، گائے اور بھیڑ بکریاں تادیر پانی پیتے رہیں گے، اور بہت سے ٹوبوں سے انسان بھی پانی اپنے برتنوں میں بھر کر رکھ لیتے ہیں اور اسی سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ گرمیوں میں بارش کا برسنا چولستانیوں کی سب سے بڑی خوشی ہوتی ہے۔

چولستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ پانی ذخیرہ کرنے والے ٹوبے ہیں، کہنے کو تو یہ چولستان میں سیکڑوں کی تعداد میں ہیں، مگر ستم یہ ہے کہ حکومت ان کی صفائی کا خاطر خواہ بندوبست نہیں کرتی، حالانکہ یہ کروڑوں روپے کا منصوبہ نہیں ہوتا۔ اگر ہر سال ٹوبوں کی بھل صفائی ہو جائے تو پانی کا معقول ذخیرہ ممکن ہے، جس سے نقل مکانی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہوتا ہے کہ چولستانی اب خود ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہتے ہیں، وہ حکومت یا دیگر امدادی تنظیموں کی راہ تکتے رہتے ہیں، کہ وہ آکر ان کے ٹوبوں کی بھل صفائی کریں، اگر وہ اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کام کرلیں تو بھی بہتری کے امکان پیدا ہوسکتے ہیں۔ چولستان کے بہت سے علاقوں میں صاف پانی کی پائپ لائنیں بچھا دی گئی ہیں۔ جس سے پینے کا صاف پانی صرف لوگوں کو ہی میسر نہیں ہوتا بلکہ یہ سہولت مویشیوں کے لئے بھی موجود ہے، جگہ جگہ ان کے لئے شیڈ بنائے گئے ہیں، تاکہ جانور گھاس وغیرہ چرنے کے بعد سائے میں بیٹھ سکیں اور وہاں موجود پانی سے اپنی پیاس بجھا سکیں۔ مگر پھر وہی ستم کہ یہ پائپ لائنیں کسی حد تک تو کام کر رہی ہیں، مگر زیادہ تر خراب پڑی رہتی ہیں، شیڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں، اور بہت سے مقامات پر ویرانہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ چولستان سے خشک سالی کا خاتمہ تو ممکن نہیں، مگر ٹوبوں کی مناسب اور سالانہ بھل صفائی اور چولستان میں موجود سرکاری اور صاف پانی کی پائپ لائنوں کی مناسب مرمت اور دیکھ بھال سے اس خشک سالی اور نقل مکانی کے مسئلے کی سنگینی میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428752 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.