پاکستان مہربانِ افغانستان لہو لہان؟

پاکستان نے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کی ہر دور میں مختلف انداز میں بحالی، تعمیر و ترقی، تعلیمی سہولیات کی فراہمی ، سرمایہ کاری، طبی سہولیات کی فراہمی، بسوں اور ٹرکوں کی فراہمی سمیت افغان مہاجرین کی میزبانی آج تک جاری رکھی ہوئی ہے۔ پاکستان افغان طلباء کے لئے وزیر اعظم کی سکالرشپ سکیم کے تحت وظائف کے فنڈ مہیا کررہا ہے۔ اس سال 600سے بھی زائد افغان طلباء کو وظائف کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان سے 35ہزار سے زائد افغان طلباء گریجوایشن کرچکے ہیں۔ افغانستان میں تعلیمی انفراسٹرکچر کی مضبوطی اور ترقی میں پاکستان کے کردار کو بھی اجاگر کیا اور خاص طور پر لیاقت علی خان انجینئرنگ یونیورسٹی ’’بلخ‘‘ سرسید پوسٹ گریجوایٹ فیکلٹی آف سائنسز ننگر ہار یونیورسٹی، علامہ اقبال فیکلٹی آف آرٹس کابل یونیورسٹی، رحمٰن بابا سکول کابل اور کابل میں رحمٰن بابا ہوسٹل کی تعمیر میں پاکستان کے کردار بھی قابل ذکر ہے۔

جنر ل مشرف کے دور میں پاکستان نے افغانستان کو پیٹرولیم مصنوعات پر تقریبا 25-30 روپے فی لیٹر رعایت دی۔ اسی طرح جنرل ضیا الحق کے دور سے جنرل مشرف تک کے تمام ادوار میں افغانستان کو خوراک اور تمام ضروری اشیا ٹیکس فری دی گئیں اور پاکستان کی جانب سے تمام ممکنہ عنایات کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پاکستان نے افغانستان کیلئے ترقیاتی امداد ساڑھے 39کروڑ سے بڑھا کر 50کروڑ کرنے اور تعلیمی وظائف کی تعداددو سے بڑھا کر تین ہزار کردی ہے۔ پاکستان کی طرف سے تعمیر کئے گئے منصوبے جن میں طورخم جلال آباد ایڈیشنل کیرج وے،جلال آباد میں نشتر کڈنی سینٹر اور مزار شریف کی بلخ یونیورسٹی میں لیاقت علی خان انجینئرنگ فیکلٹی کے منصوبے شامل ہیں۔ رحمان بابا سکول اور ہاسٹل جہاں 1500طلبا کو رہائش کی سہولت حاصل ہے۔

مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت اس حقیقت کو فراموش کر رہی ہے کہ پاکستان سے بڑھ کر اس کا کوئی فطری حلیف ہو ہی نہیں سکتا۔پاکستان نے ہر مشکل گھڑی میں افغانوں کا ساتھ دیا ہے۔ افغانستان میں امن لانے کے لئے پاکستان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا، جس کی خاطر خود پاکستانیوں نے ہزاروں جانیں قربان کیں۔ یہی وہ تناظر ہے، جس میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ افغانستان کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ہماری امن کوششوں کی حمایت کرتا ہے یا پھر دوسروں کی گیم کا حصہ بنتا ہے۔ و ہ کون سی قوتیں ہیں جو افغانستان کو طالبان اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی سے نکالنے کی بجائے پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کی طرف دھکیلنا چاہتی ہیں۔

طور خم بارڈر پر گیٹ کی تنصیب رکوانے کے لئے افغان فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے پاک فوج کے میجر علی جواد چنگیزی شہید ہو گئے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ سب کچھ افغان فورسز نے اِس حقیقت کے باوجود کیا کہ پاکستانی افواج نے افغانستان کی حدود میں آنے والی اپنی چوکی خالی کر دی تھی اور اب پاکستان کی حدود میں گیٹ کی تنصیب جاری ہے۔

افغان فوج کے بزدلانہ اور احمقانہ عمل سے آج پاکستان میں35سال سے مقیم لاکھوں افغان پناہ گزینوں کے بارے میں پاکستانی عوام کے تاثرات بدل گئے ہیں، انہیں آستین کے سانپ کہا جا رہا ہے، جنہوں نے بھارت کی خوشنودی کے لئے پاکستان پر حملہ کیا ہے، حالانکہ براہِ راست اِن پناہ گزینوں کا شاید اس واقعہ سے کوئی تعلق نہ ہو، مگر معاملہ چونکہ افغانستان کی طرف سے شروع ہوا ہے، اِس لئے لامحالہ دھیان اسی طرف جاتا ہے کہ افغانستان نے پاکستان کے تمام احسانات بھلا دیئے ہیں، بھارت افغانستان میں اثرو رسوخ بڑھا رہا ہے، یا افغانستان حکومت کا اس کی طرف جھکا زیادہ ہو گیا ہے۔ بات ایک ہی ہے اِس میں امریکہ بھی ایک بڑے فریق کے طور پر موجود ہے، جو افغانستان میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکام بنائے اور چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے کردار کو کم کرے۔ یہی وجہ ہے کہ چین نے بھی کھل کر پاکستان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ گویا یہ سب کچھ خطے میں بالادستی کی جنگ کا ایک حصہ ہے-
Raja Majid Javed Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Bhatti: 57 Articles with 39571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.