ڈی سی سر مائیکل جان

لامبے قد کا مہنگا ماچھی‘ غربت کی آخری سطع پر تھا۔ جوتے ہیں تو کپڑے نہیں‘ کپڑے ہیں تو جوتے نہیں۔ سارا دن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا‘ رات کو آگ کے سامنے بیٹھتا۔ جب ہی‘ رنگ توے سے زیادہ سیاہ ہو گیا تھا۔ نہاتا بھی شاید ضرورت بری کے بعد تھا۔ اس سے گوڈے گوڈے بو آتی تھی۔ پتا نہیں‘ کیا درک لگی کہ یو کے جا پہہنچا۔ اس کی بیوی صوباں سگھڑ عورت تھی۔ اس نے مہنگے کی کمائی سے‘ جہاں میکے کی بھوک نکالی‘ وہاں گھر کی حالت بھی سنوار دی۔ تین سال میں‘ جھونپڑی نما مکان نے‘ عالی شان کوٹھی کی شکل اختیار کر لی۔ خود اور بچے‘ شان دار کپڑے پہننے لگے۔ شرفا کی خواتین سے علیک سلیک ہو گئی۔ صوباں‘ صوباں کم‘ میم زیادہ لگتی تھی۔ چوتھے سال دروازے پر تختی آویزاں ہوگئی۔
ڈی سی سر مائیکل جان یو کے
گلی نبر چار‘ کوٹ امر ناتھ
رام پور خاص

چاروں اور باتیں ہونے لگیں۔ یار مہنگا تو سکا ان پڑھ‘ بل کہ ان پاڑ ‘ یو کے میں ڈی سی کیسے ہو گیا۔ آخر اس نے ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا ہو گا‘ جس کی پاداش میں اتنا بڑا عہدہ ہاتھ لگ گیا۔ صوباں کی کوئی ایرا غیرا سہیلی نہ رہی تھی‘ جو کچھ دریافت کرتی۔ ان کے ہاں فقط بیگمات کا آنا جانا تھا۔ ہمارے ہاں کسی کی خوش حالی اور ترقی دیکھ کر‘ گھروں اور گلیوں میں‘ بےچینی سی ضرور سر اٹھاتی ہے۔ کسی کی خوش حالی اور ترقی دیکھ کر‘ خوش ہونا‘ ہماری عادت اور فطرت کا خاصہ نہیں۔ کیا ہو سکتا ہے‘ جسے الله دے‘ اسے زمین پر کون لا سکتا ہے۔ حقی سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنی ذات کے گریبوں کی‘ تھوڑی بہت مدد بھی کرتی تھی۔

چار سال بعد‘ مہنگا دو ماہ کے لیے واپس رام پور آیا۔ مہنگا‘ مہنگا کم ڈی سی سر مائیکل جان زیادہ لگتا تھا۔ اس کا رنگ ڈھنگ‘ لباس‘ اٹھنا بیٹھنا‘ ملنا جلنا‘ کھانا پینا‘ غرض سب کچھ بدل گیا تھا۔ انگریزی فرفر بولتا تھا۔ پھنے خاں میڑک پاس بھی‘ اس کے سامنے بھیگی چوہی بن جاتے۔ سب حیران تھے‘ آخر اس کے ہاتھ ایسی کون سی گیدڑ سنگی لگی ہے‘ جو فقط چار سالوں میں‘ مالی‘ شخصی اور اطواری تبدیلیوں کا سبب بنی۔ کچھ تو اس کے پیچھے رہا ہو گا۔

مخبر اپنے کام میں بڑی جان فشانی سے مصروف تھے۔ کب تک معاملہ مخمصے میں رہتا‘ خیر کی خبر آ ہی گئی۔ وہ وہاں دریا پر‘ میموں کے کتے نہلاتا تھا۔ ڈی سی مراد ڈوگ کلینر تھا۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا‘ وہ بھی مرا ہوا۔ سب کھل جانے کے بعد بھی‘ انڈر پریشر اور احساس کمتری کے مارے لوگ‘ اسے سلام کرتے تھے۔ اسے کیا‘ یہ دھن کو سلام تھا۔

مغرب میں ڈوگ صاحب بہادر وفاداری کے حوالہ سے معتبر اور باعزت نہیں‘ بل کہ کئی ایک ذاتی اور خفیہ خدمات کے تحت‘ نام و مقام رکھتے ہیں۔ یہ تو اچھا ہے‘ مطلب بری کے بعد کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ گوریاں ڈوگ صاحب بہادر کی بڑی ہی عزت کرتی ہیں۔ اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہیں۔ اسے نہلانے دھلانے والے کو‘ معقول عوضانہ پپش کرتی ہیں۔ دریا کنارے‘ سن باتھ کرنے آئی گوریاں‘ ڈی سی کے حوالے اپنے ڈوگی کر دیتی ہیں۔ ڈی سی تہرا لابھ اٹھاتا ہے۔

ہمارے ہاں کے لوگ بھی عجیب ہیں‘ گرمیوں میں مری جاتے ہیں۔ پگلے ساتھ گھر والی بھی لے جاتے ہیں۔ اچھا خاصا خرچہ کرتے ہیں۔ گرمیوں میں چار پیسے زیادہ خرچ کرکے‘ مغرب کے کسی دریا کا رخ کریں۔ پیسے کمائیں اور دوہری ٹھنڈک حاصل کریں۔

ہمارے ہاں کتا گریب کا ہو یا امیر کا‘ وفاداری کے حوالہ سے بلند مقام و مرتبہ رکھتا ہے۔ اگرچہ یہ وفاداری محض ایک دل کو بہلانے کا ذریعہ ہے۔ میر جعفر نے ٹیپو کو اپنی وفاداری کا یقین دلا رکھا تھا لیکن اندرخانے بک چکا تھا۔ اپنی وفاداری کے انعام میں‘ ٹیپو سے بھی دو دن پہلے ٹھکانے لگ گیا۔

سیانے چور‘ اپنے ساتھ ہڈی والا گوشت لے کر جاتے ہیں۔ کتا گوشت پر‘ چور سامان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کتا مالک کا نہیں ہڈی کا وفادار ہوتا ہے۔

رشوت خور کو دیکھ لیں‘ جہاں سے ہڈی ملتی ہے‘ وہاں میرٹ بنا دے گا۔ ایمان کوئی مادی شے نہیں‘ جو اس سے وفاداری نبھائے۔ نوٹ اور ڈبہ نظر آتے ہیں‘ ایمان نظر نہیں آتا۔ کتے کو گوشت نظر آتا ہے‘ مالک نہیں‘ مالک تو سویا ہوتا ہے۔ مالک رات کو پیٹ بھر کھلاتا ہے‘ لیکن کتے کی آنکھ نہیں بھرتی‘ اسی لیے ہڈی اس کی ترجیح میں رہتی ہے۔

میرے کرائےدار سرور کو‘ الله نے تین پیارے پیارے بچوں سے نوازا۔ اس کی بیوی بیمار پڑ گئی۔ کئی ماہ بیماری سے لڑی‘ لیکن لڑائی ہار گئی۔ میں نے اسے سمجھایا کہ بچوں کا خیال رکھنا۔ اب تم ہی ان کی ماں اور تم ہی ان کے باپ ہو۔ اسے جلد ہی‘ ایک کنواری مل گئی۔ ملا‘ پورے ادب و آداب کے ساتھ اس کا ذکر کرتا رہا۔ گن گنوانے میں زمین آسمان ایک کر دیا۔ بچے سکول سے اٹھا لیے گیے ہیں اور ان کے مندے حال ہیں۔ مرحومہ بیماری میں بھی بچوں کا خیال رکھتی تھی۔ کتا کتنا ہی نسلی اور اعلی پائے کا کیوں نہ ہو‘ اس کی وفاداری ہڈی سے مشروط رہتی ہے۔

ڈی سی سر مائیکل جان نے‘ سترہ سال گوریوں کے ڈوگ صاحب بہادران کی نہلائی دھلائی کی۔ اب وہ بوڑھا اور چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایسے ڈوگ صاحب بہادر سے‘ پالا پڑا جو نچلا نہیں بیٹھتا تھا۔ اس نے تاؤ میں آ کر‘ اسے پان سات جڑ دیں۔ پھر کیا تھا‘ اچھی خاصی مرمت ہوئی‘ جیل بھی گیا۔ جیل کی یاترا کے بعد‘ گھر کی راہ دکھائی گئی۔ اب وہ بےکار اور نکمی شے سے زیادہ نہ تھا۔ گھر میں صوباں تو ایک طرف‘ اس کے نازوں پلے بچے‘ اسے توئے کرتے رہتے۔

غضب خدا کا گھر پر نکما نہیں‘ گھر کا نسلی کتا ٹومی بلاناغہ دو ٹائم نہلاتا ہے۔ اس کے باوجود‘ بےوقار ہو چکا ہے۔ جس دن نہلانے میں تھوڑا دیر ہو جائے‘ ٹومی غراتا نہیں‘ بھونکتا ہے۔ خدمت یہ کرتا ہے‘ دم گھر والوں یا ان کے ملنے والوں کے سامنے ہلاتا ہے۔ ٹومی خوب جانتا ہے‘ خدمت کرنے والا اس کا مالک نہیں‘ تھرڈ کلاس نوکر ہے۔ دروازے سے تختی اتر چکی ہے۔ اس کی انگریزی بےاوقات ہو چکی ہے۔ باہر نکلتا ہے تو کل تک سلام کرنے والے‘ مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ اب مہنگا نہیں‘ مہنگو کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی: 184 Articles with 193711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.