ماہ مبارک میں اپنا دامن صاف کرلو!

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

رمضان المبارک کا مہینہ نیکیوں اورعمل صالح کا موسم بہار ہے۔آغاز رمضان میں ہی اﷲ تعالیٰ کچھ ایسے کام کرتا ہے جو عام دنوں سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ رمضان المبارک کا آغاز ہوتے ہی اﷲ تعالیٰ سرکش جنوں اورشیطانوں کو قید کردیتا ہے۔جہنم کے تمام دروازوں کو بند کردیتا ہے اور ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں چھوڑتا،اسی طرح جنت کے تمام دروازوں کو کھول دیتا ہے ان میں سے کوئی بھی بند نہیں رکھتا اور ایک پکارنے والے کو مقرر کردیتا ہے جس کے ذمہ یہ اعلان کرنا ہوتا ہے:’’اے نیکیاں کرنے والے آگے بڑھ اوراے گناہوں کی دلدل میں ڈوبے انسان واپس پلٹ آ،اوراﷲ تعالیٰ جہنم سے انسانوں کو آزاد کرتا ہے۔یہ عمل ہر رات ہوتا ہے۔‘‘(سنن ابن ماجہ:1642)اس حدیث مبارکہ سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت زیادہ محبت ہے۔اﷲ اپنے بندوں کو جہنم کی آگ سے بچا کرجنت میں داخل کرنا چاہتا ہے۔یقیناوہ لوگ کامیاب وکامران ہیں جو جنت میں داخل ہوگئے۔ رمضان المبارک کی بابرکت اورمبارک گھڑیاں انسانوں کو یہ نویدسناتی ہیں کہ اﷲ کی طرف پلٹ آؤ اوراپنے دامن کو صاف کرلو۔یقینا تمام انسان ہی گناہ گار ہیں کوئی بھی اس دنیا میں انبیاء کے علاوہ ایسا نہیں جو گناہوں سے پاک صاف ہو۔اس لیے سب کے سب اس بات کے محتاج ہیں کہ وہ اﷲ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کریں۔رمضان المبارک میں زیادہ سے زیادہ نیکی کے کام اورنیکی کی مجالس میں شرکت کرنی چاہیے کیونکہ اس کا بہت ہی زیادہ فائدہ ہے۔اس بات کا فائدہ حدیث کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں۔سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نبی کریم ﷺ سے ارشاد فرماتے ہیں کہ:’’ اﷲ نے کچھ ایسے فرشتے مقرر کردیئے ہیں جو ہروقت زمین پرگھومتے رہتے ہیں،جو اﷲ کے ذکر والی مجالس کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔جب بھی ان کی نذر کسی ایسی مجلس پر پڑتی ہے جس میں اﷲ کا ذکر کیا جارہا ہوتا ہے اورگناہوں سے معافی،جہنم سے آزادی کا اورجنت میں داخلے کا سوال کیا جارہا ہوتا ہے وہ وہاں پرجمع ہوجاتے ہیں ۔وہ ایک دوسرے فرشتے تک جواس طرح کی مجالس کی تلاش میں گھوم رہے ہوتے ہیں یہ پیغام پہنچاتے ہیں کہ:’’ یہاں آؤ اﷲ کے ذکرکی مجلس سجی ہے۔‘‘ وہاں پر بہت سے فرشتے جمع ہوجاتے ہیں حتیٰ کہ ایک دوسرے پرسوار ہونے کی کیفیت میں جمع ہونے شروع ہوجاتے ہیں۔وہ اہل مجلس کو اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔فرشتوں کی کثرت یہ عالم ہوتا ہے کہ زمین سے آسمان تک فرشتے ہی فرشتے ہوجاتے ہیں۔اس مجلس کے بعد وہ پھیل جاتے ہیں اورآسمان کی طرف چلے جاتے ہیں جہاں اﷲ رب العالمین ان سے اس بارے میں پوچھتا ہے۔حالانکہ اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ کہاں سے آئے ہیں اس کے باوجود ان سے یہ پوچھتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ہو؟توفرشتے جواباًعرض کرتے ہیں کہ:’’ہم زمین میں تیرے ایسے بندوں کی مجلس سے ہوکرآرہے ہیں جو تیری پاکی بیان کرہے تھے،تیرے کبریائی کا اقرارکررہے تھے،تیری تعریف کرہے تھے،تیری بزرگی بیان کرہے تھے،تیری نعمتوں کے تذکرے کررہے تھے،تیری کتاب کی تلاوت کرہے تھے،تیرے نبی پر درودوسلام بھیج رہے تھے،دنیا وآخرت کی بھلائیاں مانگ رہے تھے اورسختیوں سے پناہ طلب کررہے تھے، تجھ سے سوال کررہے تھے۔تو اﷲ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ:’’ وہ کس چیز کا سوال کررہے تھے؟‘‘تو فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے جنت کا سوال کررہے تھے اور بہت ہی زیادہ شدت سے سوال کررہے تھے۔‘‘اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:’’کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟‘‘تو فرشتے عرض کرتے ہیں کہ :’’نہیں انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا‘‘تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :’’ابھی تو انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا تو ان کی یہ حالت ہے اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کی کیفیت کیا ہوتی ؟‘‘پھرفرشتے کہتے ہیں کہ:’’ وہ تجھ سے بچاؤ کا سوال کررہے تھے‘‘اﷲ تعالیٰ ان سے کہتا ہے کہ وہ کس چیز سے بچاؤ کا سوال کر رہے تھے ۔تو فرشتے کہتے ہیں کہ:’’اے اﷲ وہ تیری آگ سے بچاؤ کا سوال بڑی شدت سے کررہے تھے‘‘اﷲ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ :’’کیا انہوں نے آگ کودیکھا ہے؟‘‘تو فرشتے جواباًعرض کرتے ہیں کہ :’’نہیں‘‘اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :’’ابھی تو انہوں نے آگ کو دیکھا نہیں اگر انہوں نے آگ کودیکھا ہوتا تو ان کی کیفیت کیا ہوتی؟‘‘پھرفرشتے گویا ہوتے ہیں کہ:’’اے اﷲ!وہ تجھ سے بخشش کی دعا کررہے تھے‘‘فرمان باری تعالیٰ کچھ اس طرح سے صادرہوتا ہے کہ:’’میں نے انہیں بخش دیا اورمیں نے انہیں وہ چیز دے دی جس کا وہ مجھ سے سوال کررہے تھے اوراس چیز سے ان کو بچا لیا جس سے بچنے کا وہ سوال کررہے تھے‘‘ فرشتے عرض کرتے ہیں :’’اے اﷲ! ان کی مجلس میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس کا اس مجلس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا بلکہ وہ تو وہاں سے گزررہا تھا مگر کسی حاجت کے لیے وہاں بیٹھ گیا تھا‘‘تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :’’کہ یہ ایسے لوگوں کی مجلس ہے کہ ان کی برکت سے ان کے ساتھ بیٹھنے والے کو بھی میں محروم نہیں رکھتا اس کو بھی میں نے بخش دیا‘‘(صحیح البخاری:6408،صحیح مسلم:2689)

قارئین کرام!اس حدیث مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا تذکرہ کیا ہے جو اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں اوراﷲ تعالیٰ سے جنت میں داخلے کا سوال کرتے،جہنم سے بچاؤکاسوال کرتے اوراپنے گناہوں کی بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔اﷲ رب العالمین انسانوں کو معاف کرنا چاہتا ہے مگرمعافی ان لوگوں کو ملتی ہے جو معافی کے طلب گار ہوتے ہیں۔اب چونکہ ہم پر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہے۔اس کی عظمت وشان بہت زیادہ ہے۔اس ماہ میں نیکیوں کا اجر10سے 700گنا تک بڑھ جاتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ جاتا ہے۔اس ماہ میں اﷲ تعالیٰ لوگوں کو جہنم سے آزادی دیتا ہے مگر یہ آزادی ان لوگوں کو ملتی ہے خوداس سے بچنے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں ۔وہ اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں پراپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے اورروتے رہتے ہیں۔اس کے برعکس وہ لوگ جواس ماہ عظیم میں بھی اپنی غلطیوں اورلغزشوں پراﷲ تعالیٰ سے معافی نہیں مانگتے بلکہ غفلت کی زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔جیسا کہ ان کی روش رمضان سے پہلے تھی بعد میں بھی وہی رہتی ہے۔ حتیٰ کہ ماہ مبارک گزر جاتا ہے تو ان کے لیے ہلاکت کی وعید آئی ہے ۔ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی ہے اورغفلت کی زندگی سے نکلنا ہے۔رمضان المبارک میں اپنی غلطیوں اورکوتاہیوں کی اﷲ تعالیٰ سے بخشش طلب کرنی ہے۔تاکہ ہم اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت جنت کا وارث بن سکیں اور جہنم سے بچ سکیں۔اﷲ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
Habib Ullah
About the Author: Habib Ullah Read More Articles by Habib Ullah: 25 Articles with 21128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.