منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال

آجکل کے نوجوان نسل کو بہت سے مسائل درپیش ہیں جن میں بے روزگاری ، جوا ء وغیرہ بہت کچھ ہے لیکن اِ ن سب مسائل میں سے عظیم ترین المیہ منشیات ہے۔ لوگوں کو منشیات دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے اور یہ زہر لوگوں کی رگوں میں سرائیت کرنے لگا ہے۔ منشیات ایسا زہر ہے جو بر صغیر میں شروع سے بھنگ اور بوٹی کی شکل میں موجود تھا لیکن اِسکے عادی افراد اور اسکی شرح میں اضافے کا باعث انگریزوں کی بر صغیر میں آمد ہے۔ انگریز برصغیر میں اپنے ساتھ اس آفت کو بھی لے کر آئے اِسکو بویا اور کاشت کیا اور اسکو ایک کاروبار بنا دیا۔ خود تو وہ لوگ چلے گئے لیکن اس لعنت کو ہمیشہ کے لئے اِن لوگوں کو دے گئے۔انگریزوں سے زیادہ برصغیر کے لوگ نشے کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ اِس لعنت سے چھٹکارا بھی نہیں چاہتے۔ ہم بات کریں پاکستان کی تو ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کے ہر پانچ میں سے ایک شخص نشہ لے رہا ہے، تقریباً7 ملین لوگ نشے کے عادی ہیں۔

زندگی اﷲ تعالٰی کی عطا کردہ حسین نعمت ہے جسکو بہتر بنانے اور کچھ کر دِکھانے کے ہزار موقع وہ ذات دیتی ہے۔ لیکن یہ وہ نشے کے عادی ناشکرے بد قسمت لوگ ہیں جو اِس نعمت کی قدر کرنے کی بجائے اِسکو تباہ وبرباد کر رہے ہیں اور ذلّت و رسوائی کے اُس دہانے پر پہنچ چکے ہیں جہاں بد قسمتی اور موت انکا مقدر ہے۔ اوروہ لوگ جو اس لعنت کو نوجوانوں کی رگوں میں خون کے ساتھ شامل کر رہے ہیں انکی موت کا سامان کر رہے ہیں اِنکے خلاف بولنے والے تو بہت ہیں لیکن کوئی کچھ کرتا نہیں۔یہ بے حس لوگ صِرف چند سکو ں کے عوض اپنا ایمان بیچتے ہیں اور اِن نوجوانوں کو موت کی سمت دھکیلتے ہیں ۔ یہ اِن نوجوانوں سے زندگی کی رعنائیاں چھین کر دُکھ اور ذِلّت آمیز زندگی کے حوالے کر دیتے ہیں، جس میں وہ نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں بس سانس لیتے ہیں۔یہ موت کے سوداگر ملک وملت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں لیکن اِنکا سدِ باب کرنے والے خود اِنکی سرپرستی کرتے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ اِنکا کاروبار اِنہی لوگوں کے زیرِ شفقت پھلتا پھولتاہے۔

اس قوم کی بد قسمتی یہ ہے کہ ہم لوگ جانتے سب کچھ ہیں لیکن انجان بنے ہوئے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہم شعور تک بیچتے ہیں سگریٹ کی ڈبی پر لکھ کر تمباکو نوشی مضرِ صحت ہے پھر ہم بیچتے بھی ہیں اورخریدتے بھی ہیں۔جگہ جگہ لوگ دھڑلے سے منشیات فروخت کر رہے ہیں۔دنیا میں استعمال ہونے والی %75 منشیات افغانستان سے آتی ہیں جو ہمارا ہمسایہ ملک ہے۔پاکستان میں بہت سی اقسام کے نشے افغانستان سے آتے ہیں لیکن بھنگ سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ ہے۔تقریباً 6 ٹن ہیروئن سا لانہ پاکستان میں استعمال ہوتی ہے۔ اور پاکستان کے صوبوں میں خیبر پختونخواہ میں نشہ کے عادی افراد سب سے زیادہ ہیں۔

دنیا میں کل منشیات کے مد میں استعمال ہونے والی رقم 435 بلین امریکی ڈالرہے۔ پاکستان معاشی لحاظ سے دنیا کے 177ملکوں میں سے 164واں ملک ہے اور اس معاشی پسماندہ ملک میں صرف منشیات کے لئے مختص رقم 27.5 ملین روپیہ ہے۔

ہمارے نوجوان روزانہ کروڑں روپے سگریٹ کے دھویں میں پھونک دیتے ہیں۔ نشہ استعمال کرنے والوں میں16تا 60 سال کی عمر کے لوگ سب سے زیادہ ہیں۔ سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ ہے کہ14 -10سال کی عمر کے بچے بھی اس عادت کا شکار پائے گئے ہیں۔

نشے کے عادی افراد اپنے آپ سے بیگانہ تو ہو جاتے ہیں لیکن اِنکو اپنے ارد گرد سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بس اپنی نشہ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے جرم کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
ہیپاٹائٹس اور ایڈز کی شرح پچھلی دو دہائیوں میں خطر ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔منشیات کی لعنت اِن اخلاقی برائیوں میں سے جو معاشرے میں سب زیادہ بگاڑ پیداکرتے ہیں میں سے سب سے بڑی اور خطرناک حد تک نا قابِل ِکنٹرول برائی ہے۔

منشیات کی روک تھام کے لئے اقدامات تو بہت کرنے کے وعدے کئے گئے ہیں ۔کمیٹیاں اور تنظیمیں بھی بنائی گئی ہیں لیکن کوئی قابلِ ذکرکام نہیں ہوا۔حکومتی سطح پر تھوڑی سی توجہ درکار ہے اور یہ ملک جن تباہی کے دہانوں پر پہنچا ہوا ہے اُن سے پیچھے آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ یہی نوجوان نسل جو ملک کا مستقبل ہیں بُرے نشوں اور بُری صحبتوں کے ہاتھوں مجبور ہو کے خود کو اور اپنی ملت کو بھر پور تباہ کر رہے ہیں۔اگر حکومت اِن تباہ ہوئی نسلوں کو سنوارنے کیلئے کوئی ایک مضبوط قدم اُٹھائے تو انِ کی تقدیر تو بدلے گی لیکن ہماری اِرض پاک کو اندرونی خطرے سے نجات اور کروڑوں ذہین دماغ مل جائیں گے جو اس پاک وطن کے فروغ اور سلامتی کااہم ذریعہ بن جائیں گے۔لیکن ہمارے حکمرانوں کی توجہ کا مرکز یہ نہیں صرف اور صرف قرضہ اوربیرونی دورے ہیں، لائحہ عمل مشکل نہیں لیکن اسکو عمل در آمد کرنے کے لئے کسی انسان کی ضرورت ہے جس میں انسانیت باقی ہو۔ جو ملت و نسلوں کی تباہی نہ چاہتا ہو، جو آپکا میرا مستقبل اچھا چاہتاہو۔
لیکن آپ کو لگتا ہے کوئی ہے جو آپکا اور میرا اچھا مستقبل چا ہتا ہے؟
Zaryab Fatima Sikandar
About the Author: Zaryab Fatima Sikandar Read More Articles by Zaryab Fatima Sikandar: 2 Articles with 906 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.