احترامِ خواتین؟

 بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اﷲ! پاکستان کی دو اہم ترین وزارتوں کے قلمدان سنبھالنے والے خواجہ آصف کے بیانات تو آئے روز زیربحث آتے رہتے ہیں، گزشتہ دنوں موصوف نے اسمبلی میں تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری کے بارے میں نازیبا الفاظ کہے تو فطری طور پر ہنگامہ سامچ گیا۔ واک آؤٹ ہوا، احتجاج ہوا اور کہا جاتا ہے کہ وزیر صاحب نے اپنے الفاظ پر تحریری اور زبانی معافی مانگ لی۔دوسری طرف سپیکر نے یہ الفاظ کاروائی سے حذف کروا دیئے، گویا کسی خاتون کو ٹریکٹر ٹرالی کہنا یقینا تضحیک کی ذیل میں آتا تھا تو الفاظ کو حذف کیا گیا۔ شیریں مزاری اور ان کی پارٹی نے تحریری اور زبانی معافی مسترد کرتے ہوئے تحریک استحقاق اسمبلی میں جمع کروا دی اور مطالبہ کیا کہ معافی اسمبلی میں آکر مانگی جائے۔ فی الحال اس بات کا امکان کم ہی ہے، کہ ان کے بارے میں یہ خبر بھی آئی ہے کہ وہ لندن جارہے ہیں، جہاں وہ اپنے قائد کی عیادت کا فریضہ نبھائیں گے اور وزیراعظم کو ملکی حالات پر بریفنگ بھی دیں گے۔ جب تک ان کی واپسی ہوگی، تو یہ ہنگامی معاملہ دیگر اہم ہنگامی معاملات کی اوٹ میں چُھپ چکاہوگا۔

خواجہ آصف کے بیان پر بات ختم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہے، یا اسے بڑھایا جارہا ہے۔ اب بجلی کے چھوٹے وزیر عابد شیر علی بھی اپنے بڑے وزیر کی حمایت میں میدان میں اتر آئے ہیں، ان کا کہنا کہ ’’ٹریکٹر ٹرالی ٹریکٹر ٹرالی ہوتی ہے، خواہ وہ پارلیمنٹ کے اندر ہو یا باہر،خواجہ آصف کا بڑا پن ہے کہ انہوں نے ارکان سے معافی مانگ لی، عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر اس سے بھی زیادہ گندی سیاست کی ․․‘‘۔ کیا کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ بیان ایک معزز وزیر کا ہے، جو پاکستان کے سب سے زیادہ بحران میں الجھے محکمے کا وزیر ہے؟ ٹریکٹر ٹرالی تو واقعی ٹریکٹر ٹرالی ہی ہوتی ہے، مگر موصوف بتا سکتے ہیں کہ اس کا پارلیمنٹ کے اندر کیا کام؟ معافی مانگنا تو خواجہ آصف کا بڑا پن ہے، مگر جو بات انہوں نے کی وہ کس زمرے میں آئے گی؟ عابد شیر علی کا یہ جملہ بھی معانی خیز ہے کہ ’’عمران خان نے ․․․ اس سے بھی گندی سیاست کی‘‘ ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم جو سیاست یا بیان بازی کر رہے ہیں یہ ’’گندی‘‘ ہے۔ گویا گندی سیاست روبہ عمل ہے، اس میں مقابلہ بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا ہے؟ حکومتی جماعت حقوقِ نسواں کی دعویدار ہے، اس سلسلے میں قانون سازی بھی ہورہی ہے، اور بڑھ چڑھ کر وکالت بھی کی جارہی ہے، خواتین کے حقوق کے لئے اشتہارات بھی شائع کروائے جارہے ہیں، مگر ستم ملاحظہ ہو کہ عملی مظاہرہ اس کے برعکس ہے، خواتین کو میدانِ عمل میں لانے کی کوششیں بھی ہورہی ہیں۔خواتین کو ہر کوئی احترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے، تاہم میدان میں آنے والی دوسروں کی خواتین کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا جارہا ہے، وہ قابلِ افسوس ہے۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اپنے ہاں خواتین کی تضحیک صرف مخالف خواتین کی کی جاتی ہے۔ خواتین قابلِ احترام ہیں، خواہ وہ مخالف پارٹی کی ہوں یا اپنی جماعت کی۔ہمارے اکثر سیاستدانوں کی ایک بہت بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ ٹھٹھہ مذاق کے عادی ہیں، احترام کیا چیز ہے، وہ اس سے آگاہ ہی نہیں۔ یہ ایک رویہ ہے، اور ایسے رویے کے حامل افراد کیا تبدیلی لاسکتے ہیں؟ جو لوگ دوسری خواتین کا احترام نہیں کرسکتے وہ ان کے بارے میں جو قانون سازی کریں گے یا کررہے ہیں وہ کتنی اثر انداز ہوگی؟ اس پر کس قدر عمل کیا جاسکے گا؟ یقینا ایسے قوانین پر عمل کرنے کے لئے سنجیدگی اور وقار کی ضرورت ہوتی ہے، اور وہ ہمارے پاس ہے نہیں۔ ایک غلط بات کرکے اس کو معذرت کے ذریعے ختم کرنے کی بجائے مزید تاویلات بلکہ غیر سنجیدہ مذاق کیا جارہا ہے۔ اس عمل کا ایک تکلیف دہ پہلو یہ بھی ہے کہ جب کسی کی عزت اچھالی جائے گی تو وہ بھی عزت اچھالنے کا کوئی موقع جانے نہیں دے گا، اس کے بعد کیا ہوگا؟ پہلے تو سیاست میں ذاتیات پر کیچڑ اچھالنے کا دھندہ ہو رہا ہے، اب خواتین کی تضحیک کا کام بھی شروع ہو گیا ہے،کیا بڑے چھوٹے وزیر اس کے انجام سے باخبر ہیں؟ یہ معاملہ کسی ایک پارٹی کا بھی نہیں، تمام معزز ممبران پارلیمنٹ کو خلوص کے ساتھ خواتین کے بارے میں قانون سازی کرتے وقت ان کا احترام بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 433616 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.