یو این امریکی مفادات کا پیش خیمہ

اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جب امریکی صدر روزویلٹ نے ہم اقوام متحدہ کے ممالک کی اصطلاح پیش کی تھی، تو اس سے مراد دنیا بھر کے ممالک نہیں بلکہ جنگ کے فاتح یا اتحادی ممالک تھے، اور جن ممالک کو اس عالمی تنظیم میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے، انہی کے مفادات کا تحفظ ہی اس تنظیم کا مطمع نظر تھا۔
تاریخ انسانی کے سب سے بڑے ادارے کے قیام کیلئے 1945ء میں 25 اپریل سے 26 جون تک سان فرانسسکو، امریکہ میں پچاس ملکوں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں یو این کے قیام پر مشاورت کی گئی۔ مقصد پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ انسانی جانوں کے ضیاع اور املاک کی تباہی کو روکنا بتایا گیا اور اسی بنیاد پر اقوام متحدہ کا منشور یا چارٹر مرتب کیا گیا۔ جسے عالمی سطح پر 24 اکتوبر 1945ء کو لاگو کیا گیا اور پھر یہی دن اس ادارے کے قیام کا دن قرار پایا۔

اقوام متحدہ کا نام امریکہ کے سابق صدر مسٹر روز ویلٹ نے تجویز کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے بنیادی اور ابتدائیہ مقاصد یہ تھے کہ مشترکہ مساعی سے بین الاقوامی امن اور تحفظ قائم کرنا، قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بڑھانا، بین الاقوامی اقتصادی، سماجی، ثقافتی اور انسانوں کو بہتری سے متعلق گتھیوں کو سلجھانے کی خاطر بین الاقوامی تعاون پیدا کرنا، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لئے لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا کرنا، ایک ایسا مرکز پیدا کرنا، جس کے ذریعے قومیں رابطہ عمل پیدا کرکے ان مشترکہ مقاصد کو حاصل کرسکیں۔ آرٹیکل نمبر 2 کے تحت تمام رکن ممالک کو مرتبہ برابری کی بنیاد پر ہے۔ ہر وہ ملک جو اقوام متحدہ کے چارٹر کی شرائط تسلیم کرے اور ادارہ کی نظر میں وہ ملک ان شرائط کو پورا کرسکے اور اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے تیار ہو، برابری کی بنیاد پر اقوام متحدہ کا رکن بن سکتا ہے۔ اگر تمام ممالک کو برابری کی بنیاد پر مرتبہ حاصل ہے کی شق کو سامنے رکھا جائے تو یو این اپنے ہی چارٹر سے منحرف دیکھائی دیتی ہے۔ شروع شروع میں اس کے صرف 51 ممبر تھے۔ بعد میں بڑھتے گئے۔ اس وقت اس کے ارکان ممالک کی تعداد 193 ہے۔

سلامتی کونسل، اقوام متحدہ کا ایک ادارہ ہے، جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل نمائندے ہوتے ہیں۔ غیر مستقل ممبر دو سال کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں جب کہ پانچ مستقل اراکین میں امریکا، روس، چین، برطانیہ اور فرانس شامل ہیں۔ ان پانچ اراکین کو یہ حق حاصل ہے کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی قرارداد کے خلاف رائے دیں تو وہ قرارداد مسترد ہو جاتی ہے، چاہے کونسل کے دس غیر مستقل اور باقی چار مستقل اراکین اس قرارداد کے حامی ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی اس پاور کو عرف عام میں ویٹو پاور یا حق استبداد کہتے ہیں۔ اس طرح یہ ایک انتہائی ظالمانہ حق ہے، جو ان پانچ ناخداوں کو حاصل ہے۔ یعنی ویٹو پاور جمہوریت کا قاتل ہے، دوسرے معنوں میں اقوام متحدہ جمہوریت کی نفی کرتا ہے۔ آسان لفظوں میں یہ کہ جو قراردادیں ویٹو پاور ممالک کے مفادات کا ضامن ہوتی ہیں، انھیں منظور کر لیا جاتا ہے اور جن قراردادوں سے ان کے نظریات اور مفادات پر زک لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے، انھیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔
 
اس سے ایک بات تو واضح ہے کہ اقوام متحدہ کے قیام کے وقت جب امریکی صدر روزویلٹ نے ہم اقوام متحدہ کے ممالک کی اصطلاح پیش کی تھی، تو اس سے مراد دنیا بھر کے ممالک نہیں بلکہ جنگ کے فاتح یا اتحادی ممالک تھے، اور جن ممالک کو اس عالمی تنظیم میں ویٹو کا اختیار حاصل ہے، انہی کے مفادات کا تحفظ ہی اس تنظیم کا مطمع نظر تھا۔ اقوام متحدہ کی قدرے کم طاقت کی حامل جنرل اسمبلی میں ہر رکن ملک کے پاس حق رائے دہی استعمال کرنے کا اختیار ہے، لیکن سکیورٹی کونسل کے سامنے جنرل اسمبلی اپنی اہمیت اس صورت میں کھو دیتی ہے، جب جنرل اسمبلی سے منظور ہونیوالی قرارداد کو ان پانچ ناخداؤں میں سے کوئی ایک بھی ویٹو کر دیتا ہے۔ گرچہ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل اور سویڈن کے سفارتکار ہیمر ڈاگ شلیڈ کے ان الفاظ کو اقوام متحدہ کے مقاصد کا بہتر ترجمان سمجھا جاتا ہے کہ ’’اقوام متحدہ بنی نوع انسان کو جنت میں لیجانے کیلئے نہیں بنائی گئی بلکہ انہیں جہنم سے بچانے کیلئے بنائی گئی ہے‘‘ تاہم عصر حاضر میں دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کی صورت حال ان الفاظ کی نفی کرتی ہے، کیونکہ مظالم کی روک تھام میں اقوام متحدہ کا کردار ہمیشہ غیر موثر رہا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق، برما، شام اور یمن آج بھی جل رہے ہیں۔
عاصم دانیال
About the Author: عاصم دانیال Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.