زکوۃ کا سوال ہے بابو جی !!

 کہا جاتاہے کہ رمضان المبارک میں شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔ انسانوں کو موقع فراہم کیا جاتا ہے کہ ایک مہینے کی ریاضیت اور تزکیہ نفس سے اپنے شیطان پر حاوی ہوجاؤ ۔لیکن ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے کہ حضرت انسان اپنے سالانہ مشاغل سے نجات کیلئے ماہ صیام میں اپنے نفس پر قابو پالے ، بلکہ دیکھنے میں تو یہی آتا ہے کہ جیسے ہر دوسرا شخص شیطان کا پیروکار بن گیا ہے ۔ اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں فضول خرچی کرنے والے کو شیطان کا بھائی قرار دیاہے۔ لیکن فضول خرچی سے اعراض برتنے والوں کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اصراف و فضول خرچی میں ایک سے بڑھ ایک نمبر لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سحری کا اہتمام دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی کی شادی میں شرکت کیلئے آئے ہوں ، افظاری کا پروگرام دیکھیں تو ایسا لگے گا کہ دعوت ولیمہ ہے۔ پھر افطار پارٹیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے ، تو دوسری جانب اربوں روپیہ اس اہتمام پر لگا دیا جاتا ہے کہ عید کس طرح منائے جائے گی۔ رمضان شروع ہوتا نہیں کہ عید کی خریداریاں شروع ہوجاتی ہیں ۔ ذخیرہ اندوز پورا سال رمضان کا انتظار کرتے ہیں ، ہر عام ضروری اشیا کے داموں کو پر لگ جاتے ہیں ۔ عموماََ ماہ رمضان میں زکوۃ و عشر دینے کا رجحان مسلمانوں میں زیادہ ہے ۔ زکوۃ دینے والا بھی نمائش کو مد نظر رکھتا ہے کہ اس کے دروازے پر زیادہ سے زیادہ افراد کی بھیڑ نظر آئے ۔لمبی لمبی قطاریں دکھائی دیں ۔ وہ اپنی زکوۃ سے چند سو روپے کا راش دے کر سکون محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس کے پانچ کلو آٹا، دو کلو گھی ، ایک کلو چینی ، ایک پاؤ چائے کی پتی دینے سے اُس خاندان کی سال بھرکی کفالت ہوگئی۔کوئی لفافوں میں ہزار ، پانچ سو روپیہ دیکر سمجھتا ہے کہ اس سے اچھا رمضان گزر جائے گا ۔ یہ زکوۃ نہیں ، بلکہ خیرات لگتی ہے جو مستحق مسلمانوں کو امداد نہیں بلکہ بھیک سمجھ کر دی جاتی ہے ، وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ کہ لوگ بہت ہیں ، کس کس کو پورا کریں گے ، اس لئے تھوڑا تھوڑا سہی لیکن کسی نہ کسی کو کچھ نہ کچھ پہنچ جاتا ہے ۔جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فی ہزار روپے نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہے اسی طرح زکوۃ کے نام پر دی جانے والی امداد نے بھی قوم کو بھکاری بنا دیا ہے ۔ گذشتہ دنو ں کراچی کے ایکسپو سنیٹر میں دنیا نے عجب نظارہ دیکھا کہ بچے کیا ، بوڑھے کیا ، خواتین بھی زکوۃ کے نام پر ایک تھیلے کے لئے بلند بانگ رکاؤٹیں عبور کرکے دوسری طرف جانے کی کوشش میں بے ہوش ہو رہے تھے ، زخمی ہو رہے تھے ۔ایسا لگتا تھا کہ جیسے ان لوگوں کو سالوں سال سے کھانا پینا نصیب نہیں ہوا ہے اور اگر یہ موقع ہاتھ سے نکل گیا تو شائد وہ زندہ نہیں رہ پائیں گے۔زکوۃ کے اصل مصرف کو سمجھا نہیں جاتا یا سمجھ کر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔پورے رمضان میں مختلف سیاسی و مذہبی جماعتیں اپنے ’ شہدا ‘ کے نام پر زکوۃ اور فطرہ اکھٹا کریں گی ۔اربوں روپیہ ان جماعتوں کے خزانے میں جمع ہو جائے گا ۔ کیونکہ یہاں تو اسلام بھی سیاسی ہو گیا ہے ، زکوۃ و فطرہ بھی سیاسی ہوگیا ہے ۔ سیاست کرنے والی جماعتیں اپنے کارکنان کو گھر گھر بھیج کر جبری زکوۃ و فطرہ اکھٹا کریں گی ، پھر مہینے کے آخر میں اپنے شہدا کے خاندان کو پانچ کلو آٹا، دو کلو گھی ، ایک کلو چینی ، ایک پاؤ چائے کی پتی یا ایک ہزار روپیہ دے کر زکوۃ سے زکوۃ نکالیں گی ۔ کوئی حساب کتاب نہیں ہے کہ کس نے کتنا چندہ جمع کیا ، کس نے کتنی زکوۃ اکھٹا کی ، کس نے کتنا فطرہ اکھٹا کیا ۔نہ دینے والے کو کچھ علم ، اور نہ ہی ریاستی اداروں کو اس سے کوئی سروکار ۔زکوۃ کا مقصد اگر یہی ہوتا کہ کچھ راشن کا سامان تقسیم کردیا جائے اور ایک ہزار روپے فی کس امداد کردی جائے تو اسلام نے صدقہ ، خیرات کیوں رکھے ہیں ۔ قوم مسلم چاہیے تو زکوۃ کی رقم سے کئی خاندانوں کو خود کفیل بنا کر معاشرے سے ایک زکوۃ لینے والے کو کم کرسکتے ہیں۔ایک بے سہارا و ر غریب بچی کے شادی کے اخراجات کرکے اسے باعزت طور پر رخصت کرسکتے ہیں۔زکوۃ بے روزگاری کے خاتمے کا وسیع قلبی اسلامی نظام کا ایک رکن ہے ۔ اگر زکوۃ کا صحیح مصرف ادا ہو تو معاشرے میں سرمایہ داری کی حوصلہ شکنی ہوگی۔زکوۃ ایک ہزار افراد کے بجائے دس افراد کو اس طرح دیں کہ وہ اپنے پیروں پر خود کھڑا ہوسکے ۔ اس کے لئے روزگار کا بندوبست کردیں تاکہ وہ پانچ کلو آٹا، دو کلو گھی ، ایک کلو چینی ، ایک پاؤ چائے کی پتی ہر ماہ خود اپنی کمائی سے خرید سکے ۔ کسی ہونہار بچے کے تعلیم کے اخراجات برداشت کرلیں ، تاکہ وہ معاشرے کا ایک قابل فرد بن سکے اور معاشرے میں فعال کردار ادا کرسکے ۔ اپنی زکوۃ و فطرے سے ایسے اسپتال میں علاج معالجے کی ضروریات کو آسان بنائیں کہ ان کیلئے مہنگی دوائیاں لینا ناممکن نہ رہے ۔ موذی امراض کے ان گنت مریض جان بہ لب ہیں ، بہتر علاج معالجے کی سہولیات انھیں میسر نہیں ہیں ، ایسے اسپتالوں کو اپنی زکوۃ و خیرات دیں جو حقیقی معنوں میں اس کا درست استعمال کرتا ہے۔ فلاحی تنظیموں کے نام پر لاتعداد ایسے ادارے وجود میں آچکے ہیں کہ اچھے برے کی پہچان ختم ہوگئی ہے ۔ اس کے لئے ایک فرد کے بجائے وہ اپنے دوست احباب کے ساتھ ایک گروپ کی شکل میں دور دراز علاقوں میں جہاں صحت و تعلیم کی سہولیات میسر نہیں ، وہاں ازخود اپنی نگرانی میں چھوٹے چھوٹے فلاحی مرکز بنا ئے تاکہ انھیں بڑے شہروں میں آنے کے بجائے اپنے علاقے میں وقت پر سب کچھ مل سکے اور موت کا شکنجہ غربت کی وجہ سے ان کے گرد حائل نہ ہوسکے۔سال میں ایک مرتبہ اپنے سرمایہ سے رقم نکالنے کا مقصد نمود و نمائش نہ رکھیں بلکہ فلاح انسانیت رکھیں ۔آپ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں آپ کی رقم سے اسلام و ملک دشمن جماعتوں کو مالی کمک تو نہیں مل رہی ، اسلام کے نام پر ہر جگہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنی ہوئی ہے ۔ کسی کا اسلام اور ہے تو کسی کا اسلام اور ہے ۔اسلام کے نام انسانیت کو تباہ کرنے کرنے والوں کی مالی امداد کا سبب آپ کی زکوۃ و فطرہ کی رقم تو نہیں بن رہی ۔ ایک مسلمان کو کافر تو دوسرے کو زندیق کہنے والوں کی جیبیں تو کہیں آپ کی دی ہوئی رقم سے بھری تو نہیں جا رہی۔کیا اس رقم سے انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ تو نہیں مل رہا ، کیا آپ کی رقم سے انتہا پسندوں کو تنخوائیں تو نہیں دی جا رہی ، انسانیت کو قتل کرنے ، بم دہماکے اور قتل وغارت کیلئے تو استعمال میں نہیں لایا جارہا ۔ یقین رکھیئے کہ آپ سے آپ کی زکوۃ کا بھی پوچھا جائے گا کہ اس کا استعمال کیسے کیا ، کیا لسانیت کے نام پر کسی کو زکوۃ دی یا قومیت کے نام ، یا پھر مسلک کے نام پر یا پھر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے والے اداروں کو ۔یا پھر غریب کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ، ایک فرد کو بھی معاشرے کا بامقصد فرد بنانے کیلئے ۔ بیوہ ، یتیم، مساکین پر کفالت کیلئے ، یا پھر نمود و نمائش کیلئے۔کسی کو غلامی سے نجات دلانے کیلئے ، کسی بے قصور قیدی کی رہائی کیلئے ، کسی جائز و بے گناہ کی ضمانت یا وکالت و کورٹ کے اخراجات کیلئے زکوۃ کا استعمال کیا ۔زکوۃ کے مصارف میں پانچ کلو آٹا، دو کلو گھی ، ایک کلو چینی ، ایک پاؤ چائے کی پتی دینا شامل نہیں ہے بلکہ انسانیت کی نشو ونما کیلئے رکے ہوئی رکاؤٹوں کو دور کرنے کیلئے زکوۃ کا استعمال بہترین مصرف ہے۔دین اسلام میں کسی انفرادی فرد کی بھلائی کیلئے قوانین و اصول وضع نہیں کئے گئے بلکہ تمام بنی نو ع انسان کیلئے ، اس کی بہتر نشو و نما اور رزق کے بہتے سر چشموں پر قابض سرمایہ دار گروہ سے نجات کیلئے درخشاں قوانین و اصول بنی نوع انسان کے لئے قرآن کریم کی شکل میں بھیجے ٓگئے ہیں ۔ اس روگردانی سے ہم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ، رمضان میں جز دانوں سے قرآن پاک کی تلاوت بغیر سمجھے بوجھے کرنا ،ہمیں ہمارے مسائل سے نجات نہیں دلا سکتا -
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 264413 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.