زندگی ایک بچے کی نظر میں(حصہ اول)

زندگی۔۔۔زندگی کا مشاہد ہ کیا ہے ۔۔۔؟ اس بات کا بخوبی مطالعہ تب کیا جا سکتا ہے جب آپ کسی بچے کی زندگی کا بخوبی مشاہد ہ کریں کہ وہ اپنی زندگی کیسے گزارتا ہے۔ ۔۔۔! زندگی کو اگر بچوں کے طریقہ کار پر گزارا جائے تو زندگی کامیاب تر ہو سکتی ہے، جب کوئی بچہ جاگ رہا ہواور وہ ہشاش بشاش ہو تو اس کی زندگی کا مشاہد ہ کریں تو آپ کو ایسا لگے گا کہ یہ بچے زندگی کیسے گزارتے ہیں۔ وہ ہر چیز کے اندر مماثلت تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اور تو اور ہر چیز کو جاننے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کس طرح وہ زندگی کے اندر غموں سے نجات بھر ی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے سب کا دل بہلارہے ہوتے ہیں۔ ہر کسی کے ساتھ چاہت اور ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دوسرا آدمی بھی ان کے ساتھ چاہت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آئے گا۔ مٹھی میں کھیلتے ہیں، اور احساس پیدا کرتے ہیں کہ بعد مرنے کے اسی مٹھی میں مل جانا ہے۔آپس میں لڑتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر بعد دوست بن کر سبق دیتے ہیں کہ اپنے بھائی سے ناراض نہ رہا جائے، تھوڑا سا کھانا کھاتے ہیں اور سبق دیتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے کھاؤ نہ کہ کھانے کے لیے زندہ رہو، ریت کے گھر بنا کر خود توڑ دیتے ہیں تاکہ احساس پیدا ہوکہ دنیا عارضی گھر ہے۔۔ ابد ی نہیں۔۔۔!اکثر والدین یا اساتذہ بچوں کو سبق دیتے ہیں کہ زندگی کیسے گزاریں مگر ادھر ایک بات توجہ طلب ہے کہ بچے بھی ہم کو کچھ سبق دیتے ہیں کہ جو ہم کو ایک بڑے سے بڑا استاد بھی نہیں دے سکتا، اکثر ہم لوگ بچوں کی باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مگر اصل حقیقت تو یہ ہے کہ بچے اپنی زندگی سے ہم کو بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم میں سیکھنے اور سمجھنے کی چاہت و طلب ہو تو ہم ان استاد بچوں سے بہت کچھ مثبت انداز میں سیکھ سکتے ہیں۔ اور ہمارے اندر بہت سے مثبت تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں، بچوں کے ذہنیت کے اندر نہ تو کسی قسم کا انتشار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی منفی سوچ ہوتی ہے ، بچوں کے جو بھی کام ہوتے ہیں وہ دل کے ساتھ کیے ہوئے ہوتے ہیں، جو کہ پوری لگن اور دلچسپی کے ساتھ کرتے ہیں۔ بچوں کو اپنی زندگی اور اپنے کیے گئے کام کے اوپر پورا یقین اور پورا اعتماد ہوتا ہے ، اور وہ اپنی ناکامی و نامرادی کا سوچے بغیر اپنی منزل کی طر ف کامزن رہتے ہیں۔ بچوں کے اندر بے پنا ہ خوبیوں کے باوجود بھی ہم اکثر بچوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم کو بچو ں سے کون کون سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے وہ تفصیل کے ساتھ بیان کیے دیتا ہوں۔

ماضی / گزری باتوں کو بھلا دیں: اکثر بچوں کو دیکھا گیا ہے کہ اگر ان کے والدین یا کوئی بڑا ان کے ڈانٹ ڈپٹ کرے تو وہ کچھ دیر رونے کے بعد وہ بھو ل جاتے ہیں اور پھر سے اس شخص کے ساتھ گل مل جاتے ہیں۔ یا پھر اکثر جب آپس میں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں تو کھیلتے کھیلتے آپس میں لڑ پڑتے ہیں ، اور پھر خود ہی کچھ دیر کے بعد آپس میں راضی ہو کر ایک جگہ کھیلنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا یا کہ اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کا بدلہ مسکراہٹ کے ساتھ دینا یا کہ کسی کی غلطی کو معاف کر دینا اور ہمیشہ ہنستے مسکراتے ہوئے دوسروں کے ساتھ میل جول رکھنا ہی تواصل زندگی ہے۔

اپنی کی گئی غلطی کو تسلیم کرنا: بچوں میں یہ عادت عموماََ پائی جاتی ہے کہ جب کبھی وہ کوئی غلطی کرتے ہیں تو وہ آ کر اپنے والدین کو آگا ہ کرتے ہیں تا کہ اُن کے والدین کو علم ہو۔ بچوں میں یہ بات بڑی پسندیدہ ہے کہ وہ چائے غلطی چھوٹی کریں یا کہ کوئی بڑی اپنی کی گئی اس غلطی کو وہ چھپاتے نہیں بلکہ اپنے بڑوں کو یا والدین کو اس سے آگا ہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسائل و مشکلات و پریشانیوں سے آسانی سے بچا جا سکتا ہے،ہم کو بھی بچوں کی اس عادت کو اپنانا چاہیے کیونکہ زندگی نام ہی غلطیوں کا ہے، اگر آپ سے غلطی نہ ہو گی تو آپ کو تجربہ نہ ہوگا۔ آپ کا اگر تجربہ نہ ہوگا تو آپ زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ آپ سے سر زد ہوئی غلطی کو تسلیم کر یں اور اپنی غلطی پر ڈٹے رہنے کے بجائے اس سے سبق حاصل کریں اور آئندہ زندگی میں ایسی غلطی سے بچا جائے۔

جستجو و لگن کے ساتھ کام کرنا: جب آپ کوئی نئی چیز سیکھ رہے ہو تو خود کو وقت دیں اور اپنے اس مطلوبہ و مقصودہ مقام کو اپنی منزل و اپنی مراد سمجھ اور جان کر اس کو چھوڑیں نہیں ، بلکہ جس کام کے کرنے کی آپ نے تھان لی ہے تو اس کو پورا بھی کرنے کی کوشش کریں۔ آسان طریقہ تو یہ ہے کہ جس طرح بچے کسی بھی سبق کو نظم یا نغمے کی صورت میں ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں، بالکل اسی طرح آپ بھی اپنے کام پر پوری دلچسپی ظاہر کریں اور لگن کے ساتھ اس کو پایا تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اس کے لیے آپ کے راستے میں ہزاروں رکاوٹیں آئیں گی، مگر آپ نے ہر مشکل اور ہر منزل کو طے کرنا ہے۔

رویہ و لہجہ میں نرمی: بچوں کے اند ر ایک کیفیت دیکھی گئی ہے کہ وہ نرم و پیار بھرے انداز میں کسی کا بھی دل بڑی آسانی سے جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بعض بچے تو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر آپ ان پر غصہ بھی کریں گے تو وہ بڑے نرم و دھیمے لہجہ میں آپ سے گفتگو کریں گئے کہ آپ کا سارے کا سارا غصہ جلد ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ہم کو بھی بچوں کے اس رویہ سے سبق حاصل کرنا چاہیے اور دوسروں کو اپنا شیدائی و دیوانہ بنانے کے لیے اپنے گفتار و کردار اور لہجہ میں نرمی پیدا کرنی چاہیے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے کہ آپ کسی کو بھی اپنا شیدائی بنا سکتے ہیں۔

دنیا کو فانی سمجھیں: بچے اکثر ریت کے گھر بنا کر ان کے ساتھ کھیلتے ہیں اور کچھ ہی دیر کے بعد ان کو توڑ بھی دیتے ہیں۔ یہ بچپن کا ایک کھیل نہیں بلکہ وہ ہمارا گھر کا بنانا، کھیلنا اور جب کھیل سے جی بھر جانا اور جاتے وقت اسی گھر کو توڑتے ہوئے جانا، یہ سب کچھ اس دنیا اور دنیا میں بسنے والی تمام مخلوقات کی مثال ہے ، جس طرح وہ مکان عارضی تھا اسی طرح دنیا کو بھی اپنا عارضی گھر سمجھا جائے، اس دنیا کو فانی سمجھ کر زندگی بسر کرنے میں ہی ہمارے واسطے افادیت اور فلاح ہے۔ (جاری۔۔۔۔حصہ دوئم)
Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 113 Articles with 182489 views Poet, Writer, Composer, Sportsman. .. View More