نواب خيربخش مری – بلوچوں کو ‘پسمانده’ اور ‘ناخوانده’ رکهنے والے عظيم ترقی پسند قوم پرست رہنما

نواب خيربخش مری چھياسی سال کی عمر ميں انتقال کرگئے اور کوئٹہ ميں بلوچ شہداء کے نيوکاہان قبرستان ميں ہزاروں بلوچ سوگواران، مرد و خواتين کی موجودگی ميں آزاد بلوچستان کے پرچم ميں سپردخاک کردئيے گئے. بلوچوں کے اس ليڈر ، سکالر، استاد اور کامريڈ نواب کے چند بڑے سياسی، علمی اور فکری اوصاف رہے تهے
نواب خيربخش مری چھياسی سال کی عمر ميں انتقال کرگئے اور کوئٹہ ميں بلوچ شہداء کے نيوکاہان قبرستان ميں ہزاروں بلوچ سوگواران، مرد و خواتين کی موجودگی ميں آزاد بلوچستان کے پرچم ميں سپردخاک کردئيے گئے. بلوچوں کے اس ليڈر ، سکالر، استاد اور کامريڈ نواب کے چند بڑے سياسی، علمی اور فکری اوصاف رہے تھے

بہت دہمے، نرم اور معتدل لہجے و انداز ميں بلوچ مزاحمتی تحريک کی راہنمائی کرنے والے يہ نواب کبھی بھی “اعتدال پسند” نہيں رہے. پاکستان ميں بلوچوں کی ‘ترقی’ کے مخالف تھے. پاکستان کے ساتھ کوئی ‘معاہدھ’ نہيں کرگئے. ‘پنچابيوں’ کے ساتھ کسی بھی صورت نہيں رہنا چاہتے تھے. پاکستان ميں بلوچوں کے’ حقوق’ کی بات نہيں کرتے تھے. کسی بھی پاکستانی آئين پہ دستخط نہيں کی. ‘تعليم’ کے حق ميں نہيں تھے اور ‘جمہوريت’ کو بھی پسند نہيں کرتے تھے. انہوں نے گريٹر بلوچستان کا آئيڈيا ديا. سٹڈی سرکلز چلائے. بلوچ مزاحمت کاروں کی گوريلاتربيت کی. وھ بلوچستان نيشنل پارٹی اور نيشنل پارٹی وغيرھ کو کبھی بلوچ قوم پرست پارٹياں تسليم نہيں کرتے. مسلح جدوجہد پہ پختہ يقين رکھنے والے ليڈر تھے. اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی پارلمانی سياست ميں حصہ لينے کو قرار ديتے تھے. وھ اپنی اس غلطی پہ بڑے نادم تھے. وھ حقيقی معنوں ميں بلوچ قومی تحريک کے سب سے موثر مفکر رہے. اتنے موثر کہ موت بھی ان کے اثر کو زائل کرنے ميں کامياب نہيں ہوسکی.

بلوچوں ميں سب سے زيادھ تعصب بھری کہانياں اور مغالطے مری قبيلے کے حوالے سے پائے جاتے ہيں ليکن بلوچ آزادی پسند مجاہدين کا سب سے محبوب ليڈر اسی مری قبيلے کا نواب رہا. اس قبيلے کا شمار انتہائی پسماندھ، غريب اور ناخواندھ قبيلوں ميں ہوتا ہے ليکن بلوچوں کو جديد سوچ اور جديد نيشنلزم کا سرچشمہ بھی اسی قبيلے ميں ملا. بلوچوں کی مزاحمتی تحريک اور نيشنلسٹ سياست ميں يہ ‘جديديت’ سرمايہ دارانہ جديديت کے خلاف رہی. بالکل ايک مارکسی جديديت يا جديد مارکسزم کے طور پر. اسی لئے تو بلوچ قومی تحريک کے حوالے سے بڑے فکری الجھنوں کے باوجود لوگ خيربخش کو مارکسزم سے ہٹ کرکے ديکھنے ميں کامياب نہيں ہوسکے. ان کی مارکسی سوچ پہ بھی بڑی تنقيد رہی ليکن وھ اس حوالے سے بڑے واضح تھے کہ پنجابی مزدور ان کا کامريڈ نہيں بن سکتا. سياست ميں اہميت اس کی تو نہيں ہوتی کہ کون مزدور کی کٹيگری ميں آتا ہے کون نہيں. اہميت تو اس کی ہوتی ہے کہ کون کامريڈ بننے کيلئے تيار ہوسکتا ہے اور کامريڈ بننے کيلئے اس کے پاس کتنی معروضی گنجائش ہوسکتی ہے. پنجاب ميں رياستی قوم پرستی نے تو يہ گنجائش کب سے ختم کی ہے. ابھی جب ماما قدير کا لانگ مارچ دس ملين زندھِ دلان کے شہر لاہور ميں پہنچا تو اسے جوائن کرنے کيلئے دس زندھ دلان لاہور بھی بمشکل تيار نہيں ہوسکے. خير بخش پہ يہ حقيقت کئی سال پہلے آشکار ہوئی تھی. خير بخش تو صحيح معنوں ميں ايک دورانديش سياستدان اور سياسی دانشور تھے.

بلوچستان کے مسئلے پر پاکستانی رياست کا جو يہ بڑا مشہور موقف رہا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو وہاں کے سردار پسماندھ رکھنا چاہتے ہيں ، يہ کوئی اور سردار کی بات نہيں کی جارہی ، خيربخش کی بات کی جارہی ہے. سردار تو سارے کسی نہ کسی شکل ميں رياست کے ساتھ ملے ہوئے آئے ہيں اور بلوچستان کو ‘ترقی’ دينے کے کام ميں سرگرمِ عمل رہے ہيں. يہ صرف ايک سردار تھے خيربخش مری جو بلوچستان کو “پسماندھ” رکھنا چاہتے تھے. (بلوچستان کو ‘پسماندھ’ رکھنے ميں غوث بخش بزنجو، سر دار عطاء اللھ مينگل اور نواب اکبر بگٹی کا کردار نواب خيربخش مری کی نسبت کچھ کم رہا )

خيربخش کی اپنی ايک فلاسفی تھی. ان کی اپنی ايک سياسی ڈکشنری تھی جس ميں ” ڈيولپمنٹ “کا مطلب تھا “ری کالونائزيشن، استحصال، استعماريت”. ترقی کی جو تعريف رياست، لبرل دانشور اور اين جی اوز والے کرتے ہيں ہمارے اکثر قوم پرست شعوری يا لاشعوری طور پر اس تعريف کو تسليم کرچکے ہيں ليکن ايک خيربخش مری تھے جنہوں نے اس تعريف کو تسليم کرنے سے انکار کرديا، اس کے خلاف منظم سياست کرنے کا فيصلہ کرديا. خيربخش سے رہنمائی لينے والے بلوچ سرمچار “ترقی” کے خلاف لڑتے رہے. وھ “ترقی” کی مخالفت ميں اس حد تک گئے کہ بدترين قدرتی آفات کے دوران بھی رياستی “امداد” اور “خيرات” سے انکار کرتے رہے، امداد او ر خيرات کے کام ميں سرگرم پاکستانی آرمی کو بلوچ علاقوں ميں آنے نہيں ديتے. خيربخش مری کہا کرتے تھے کہ بلوچ تو کبھی پنجابيوں کے ساتھ نہيں رہے ہيں وھ کيوں بلوچوں کو ترقی دينا چاہتے ہيں؟ وھ انتہائی نرم لہجے ميں پنجابيوں کو مخاطب کرکے بتاتے تھے، “ہم کبھی آپ کے ساتھ نہيں رہے ہيں، ہميں چھوڑ دو، ہم آپ کے ساتھ نہيں رہنا چاہتے ہيں.” ان کی داستان يا نريٹيو ميں کبھی “ہمارا ملک”، “ہمارا پاکستان” اور “ہماری حکومت” جيسے تراکيب آپ کو نہيں مل سکتے. وھ اپنے ليے پاکستانی کہلانا ايک گالی سمجھتے تھے.

نقاد اور ڈی کنسٹرکشنيسٹ نواب نے بی بی سی کو ايک انٹرويو ميں بتايا ہے، “ہمارے يہاں جو روٹی بچتی ہے، اسے ‘ودھی’ کہتے ہيں، جو پسماندھ لوگوں کو دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ يہ ‘ودھی والے’ ہيں، يعنی مانگ کرکھانے والے. اسے اچھا نہيں سمجھا جاتا. پنجاب سمجھتا ہے کہ ہميں حصہ دينا ہے. اس کو برے معنی ميں سمجھتے ہيں يعنی ہم ودھی والے ہيں، پسماندھ ہيں. دہلی والے (مشرف) اور امريکہ کے غلام پنجابی ہميں پسماندھ کہتے ہيں.”

رياستی کے ڈيويلپمنٹ ڈسکورس کی شديد مخالفت کرتے ہوئے وھ بہت سادھ سا سوال اٹھاتے تھے کہ کيا پنجابی کا نظام سوشلسٹ يا کميونيسٹ ہے کہ وھ خير بخش سے زيادھ بلوچوں کے دوست بنے بيٹھے ہيں؟ ان کے نزديک پنجابيوں کی حثيت ہر دور ميں امپائرز کے فرمانبردار اور اطاعت گزار لوگوں کی رہی تھی، استحصال کرنے والوں کے ساتھ روزگار ميں شريک ان لوگوں کو صرف ايک کام آتا ہے يعنی دوسرے لوگوں کا استحصال کرنا.

دانشور نواب “ترقی” کو بہت ہی پوسٹ ماڈرن معنوں ميں ليتے تھے. وھ ڈيولپمنٹ ڈسکورس کا گلوبل سياست سمجھتے تھے . صرف پاکستانی رياست کی حد تک نہيں جس کا ہر ترقياتی منصوبہ ايک بڑی فوجی چھاؤنی کے قيام سے شروع ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پہ ڈيولپمنٹ کا جو ڈسکورس رہا ہے وھ انسانوں کے استحصال اور محکوميت کے ايک دور کی سياست کا عکاس ہے. ری کالونائزيشن يا نيو کالونائزيشن کا دور. خيربخش نے کبھی بھی پاکستانی رياست کو پوسٹ کالونيل تناظر ميں نہيں ليا اور اس تناظر کا تو بڑا ہی خلاف رہا جس ميں عوام کی سياست کی اہميت ختم ہوجاتی ہے اور ہر بڑی تبديلی کيلئے ہميشہ بيرونی قوتوں کی طرف ديکھا جاتا ہے. ان کی نظر ميں کسی بھی معاشرے ميں تبديلی خود اسی معاشرے کے لوگ ہی لانے کا حق رکھتے ہيں اور وہی اصلی تبديلی ہوتی ہے. ليکن يہاں پہ ايک نکتے کی بڑی اہميت ہے ، خيربخش مری نظام کے اندر، موجودھ رياست کے اندر رھ کر کسی بھی تبديلی کے حق ميں نہيں تھے يعنی وھ شراکت داری (co-optation) کی سياست نہيں کرتے تھے. وھ پاکستانی سپريم کورٹ ميں چھ نکات پيش کرنے والوں جيسے نہيں تھے. وھ کسی زرداری اور نوازشريف کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے والوں سے ايک سو اسی زاويے کے فاصلے پر کھڑے تھے.

جب پاکستان کے حکمران طبقات بلوچستان کی “پسماندگی” کا حوالہ ديتے ہيں تو ان کے بيانيے ميں يہ واضح ہوتا ہے کہ بلوچوں کا کلچر(سرداری نظام) اس تمام پسماندگی کا ذمہ دار ہے . بالفاظ ديگر وھ بلوچستان ميں اس رياست کو قبوليت نہ ملنے کا رونا روتے ہيں جو لوگوں کو “موڈرنائز” کرنے کا کام کرتی ہے. جہاں تک سرداری نظام کا مسئلہ ہے تو اس نظام سے انگريز استعمار اور پاکستانی رياست نے ہميشہ بڑ ا کام ليا ہے.

۱۹۷۲ء ميں جب بلوچستان ميں نيشنل عوامی پارٹی کی حکومت تھی، سردار عطاء اللھ مينگل وزيراعلی اور نواب خيربخش مری نيپ کے صوبائی صدر تھے، بلوچستان اسمبلی نے سرداری نظام کے خلاف قرارداد پاس کی. اس قرارداد ميں اور قرارداد کے حق ميں ہونے والی تقريروں ميں واضح طور پر کہا گيا ہے کہ قبائلی لحاظ سے سرداری نظام کی اپنی ايک افاديت رہی ہے، ليکن جب انگريزوں نے سرداروں کو خريدنا شروع کرديا اور پھر پاکستانی رياست نے رويال خاندانوں کو نوازنے کا کام جاری رکھا تو اس سے لوگوں کو بڑا نقصان پہنچا اور وھ اپنے حقوق سے محروم ہوگئے. اس قرارداد ميں وفاقی حکومت سے سرداری نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ کيا گيا ليکن بھٹو صاحب نے تنخوھ داری کے اس نظام يا دہندے کو ختم کرنے کی بجائےآٹھ مہينے بعد نيپ کی حکومت کو ختم کرديا، بلوچستان پہ فوج کشی شروع کردی اور نيپ کی ليڈرشيپ کو مشہور حيدرآباد ٹريبيونل ميں قيد کرديا. بھٹو صاحب نے ‘قوم’ کے سامنے سچ بات رکھی، انہوں نے کہا ، “اس پارٹی (نيپ) کی لڑائی ميری شخصيت کے ساتھ نہيں تھی،ان کا تصادم ميری حکومت اور پارٹی کے ساتھ نہيں تھا. ان کی جنگ، نيپ کی جنگ پاکستان کے خلاف تھی. وھ شروع سے پاکستان کے خلاف تھے. ا ن کا تعلق انڈين نيشنل کانگريس سے تھا. پاکستان کے قيام کے بعد انہوں نے ايک نئی جماعت بنائی اور اسے نيشنل عوامی پارٹی کا نام ديا. نام تبديل کيا جاسکتا ہے ليکن رويہ نہيں. گہری جڑيں رکھنے والی خصوصيات تبديل نہيں ہوسکتیں، ذہنيت تبديل نہيں ہوئی، دل نہيں بدلا. ميں آپ کو يقين دلاتا ہوں اگر انہوں نے پاکستان کو تسليم کيا ہوتا اور اس کے ساتھ وفاداری کی ہوتی تو آج وھ حکومت کرتے. کوئی بھی ا ن کو ختم کرنے کی خواہش نہيں رکھتا. ليکن ان کی بڑی مختلف بنياد تھی.”

سيکولر نيپ کے خلاف خاکيوں، فرشتوں اور نوائے وقتوں کی پشت پناہی کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو پھر خو د انہی قوتوں کے ہاتھوں ايک انتہائی ناروا انجام تک پہنچ گئے. بھٹو صاحب کی برطرفی کے بعدخاکی لوگ حيدرآباد جيل آنا شروع ہو گئے تھے کہ نيپ کی قيادت کا اعتماد بھٹو کے خلاف اور ايک آمر کے حق ميں کسی نہ کسی طريقے سے حاصل کيا جائے. ان کا يہ خيال تھا کہ نيپ کے راہنماؤں اور کارکنوں، خصوصاً بلوچوں کے ساتھ تو بھٹو صاحب نے بڑا ظلم کيا ہے وھ بڑی آسانی سے بھٹو صاحب کے خلاف ايک ڈکٹيٹر کا ساتھ دينگے ليکن معاملہ بڑا مختلف تھا. نيشنل عوامی پارٹی تو بائيں بازو کی سياست کی ايک نمائندھ جماعت تھی وھ جب ايک بدمعاش جمہوريت کے خلاف مضبوطی سے كھڑی ہوسکتی تھی تو ايک جابر ڈکٹيٹر کو کس طرح تعاون فراہم کرسکتی تھی.

موجودھ اے اين پی کے ايک ليڈر افراسياب خٹک نواب خيربخش مری کے ساتھ ايک جماعت، ايک جيل اور جلاوطنی ميں ساتھ رہے ہيں. وھ حيدرآباد جيل ميں جنرل ضياء الحق کی آمد کی کہانی سناتے ہوئے ايک دلچسپ واقعے کا ذکر کرتے ہيں کہ جب جنرل ضياء نے حيدر آباد جيل ميں ولی خان، غوث بخش بزنجو اور عطاء اللھ مينگل سےالگ الگ مختصر ملاقاتيں کيں، ان سے کہا کہ ميرے دل ميں آپ لوگوں کيلئے بڑا احترام ہے اورميرا يہ باور ہے کہ آپ”اسلامی جمہوری پاکستان” ميں ايک اہم کردار ادا کرينگے ليکن نواب خيربخش کو يہ بات نہ کرسکے، صرف عليک سليک کی اس لئے کہ خيربخش نے سينے پہ لينن کا ايک بڑا بيج لگايا ہوا تھا. بھٹو صاحب کے دور ميں جب بلوچستان ميں فوج کشی جاری تھی تو کراچی سے سردار عطاء اللھ مينگل کے بڑے بيٹے اسداللھ مينگل کو اٹھايا گيا تھا اور کافی عرصے سے لاپتہ تھے. جنرل ضياء الحق نے جيل ميں اس ملاقات کے دوران سردار عطاء اللھ کو بتايا کہ بدقسمتی سے اسد مينگل مزيد زندھ نہيں ہيں، وھ وفات پاچکے ہيں. افراسياب خٹک بتاتے ہيں کہ جب جيل کے سارے ساتھی سردار عطاء اللھ کے ساتھ تعزيت کرنے کيلئے جمع ہوگئے، سردار عطاء اللھ نے کہا کہ ان کا بيٹا بھی ايک بلوچ تھا اور بھی بہت زيادھ بلوچ قتل چکے ہيں ان کا بيٹا انہی ميں سے ايک ہے ان سے مختلف نہيں.

پاکستانی رياست نے نواب خيربخش کو بھی وہی زخم ديا جو سردار عطاء اللھ کو ديا تھا اور خيربخش کا بالکل وہی ردعمل تھا جو عطاء اللھ کا تھا. ان دونوں سرداروں کو اپنے دو بيٹوں کی قبروں کی زيارت بھی نصيب نہيں ہوئی اور ان کو يہ ثبوت بھی نہ ملی کہ اسد اور بالاچ کو قبريں نصيب ہوئی ہونگي يا نہيں؟ شہيد اسدمينگل کے بھائی اخترمينگل اور شہيد بالاچ مری کے بھائی چنگيز مری ميں صرف اتنا فرق ہے کہ اول الذکر کچھ کم پاکستان کے ساتھ ملے ہوئے ہيں اور آخرالذکر کچھ حد ہی سے زيادھ. ليکن خيربخش نے تو اپنی وراثت کو جہاں پہ بھی کوئی آزاد کی جنگ لڑنے والا بلوچ سرمچار رہتا ہے اس کے حوالے کرديا جو ان کے جنازے کے دورا ن ثابت بھی ہوگيا کہ ان کا اصل وارثت کون ہے. اب صرف حربيار نہيں، صرف ڈاکٹر اللھ نظر نہيں، جدھر بھی کوئی بلوچ سرمچار ہے وھ اپنے آپ کو خيربخش کا حقيقی وارث سمجھتا ہے.

انسانی حقوق کی تنظيموں اور اين جی اوز کے رپورٹس ميں بلوچ خواتين کی ايک انتہائی ‘پسماندھ’ تصوير ہميں ديکھنے کو ملتی ہے. ان خواتين کو تو خيربخش مری نے اتنی بڑی ‘پسماندگی’ ميں يرغمال بنا رکھی تھيں کہ جب وھ وفات پاگئے تو انہی ‘پسماندھ’ بلوچ خواتين نے باہر نکل کرکے ان کے ترقی يافتہ سرکاری بيٹے چنگيز مری سے ان کی ميت کو زبردستی چھين ليا اور آزاد بلوچستان کے جھنڈے ميں اسے لپيٹ کرکے اپنی مرضی سے بلوچ شہداء کے قبرستان ميں سپردِخاک کرديا. صرف ‘پسماندھ’ لوگ ہی کسی کی خونی وراثت کے حق کو ٹکرا سکتے ہيں. يہ کام تو ترقی يافتہ اور مہذب لوگوں کا نہيں. يہ کام کوئی ‘ترقی يافتہ’ اور ‘تعليم يافتہ’ جنرل عبدالقادر تو نہيں کرسکتا. بلوچ خواتين اب اتنی زيادھ ‘پسماندھ’ ہوچکی ہيں کہ وھ سينکڑوں کی تعداد ميں نکل کرکے آزاد بلوچستان کے نعرے لگاتی ہيں، جدوجہد کرتی ہيں، لانگ مارچ کرتی ہيں. فرزانہ مجيد اس ‘پسماندگی’ کی ايک بڑی مثال ہے جو کوئٹہ سے کراچی پھر کراچی سے اسلام آباد پيدل ايک تاريخی لانگ مارچ کرگئی اور اسلام آباد ميں بين الاقوامی برداری اور ميڈيا کو بتايا کہ وھ اپنی ‘پسماندگی’ ميں اب اس نتيجے پہ پہنچ چکی ہے کہ پاکستانی رياست سے کوئی مطالبہ کرنے کی بجائے دنيا کے نوٹس ميں صرف يہ بات لانا چاہتی ہے کہ پاکستانی رياست نے بلوچوں کو ‘ترقی ياقتہ’ بنانے کيلئے اس کے بھائی ذاکر مجيد اور ہزاروں بلوچ سياسی کارکنان کو کس ‘نامعلوم بلند مقام’ پہ پہنچايا ہے. ان تمام ‘پسماندگيوں’ کے پيھچے خيربخش مری کا ايک بڑا ہاتھ تھا.

نواب خيربخش کو پتہ تھا کہ ان کی زندگی ميں بلوچستان آزاد نہيں ہوسکتا ہے ليکن ان کو يقين تھا کہ وھ ايک مقدس ہدف کی طرف جارہے ہيں، وھ ديکھ رہے تھے کہ بلوچوں کی آزادی کی تحريک تيزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اور بلوچوں ميں پاکستان کے خلاف نفرت ميں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے.

امريکی مصنف سليگ ايس ہيريسن نے اپنی کتاب In Afghanistan’s Shadow: Baloch Nationalism and Soviet Temptation ميں خيربخش مری کا بڑا دلچسپ شخصياتی اور سياسی خاکہ پيش کيا ہے. جس ميں نواب مری کی سوچ قوم پرستی اور مارکسيت کے ايک خوبصورت اميزے کی صورت ميں سامنے آتی ہے. ہيريسن کے خيال ميں نواب مری مارکس اور لينن کے نظريات کو ايک بلوچ صورتحال ميں ڈال کرکے نيشنل کميونيزم کے طور پر اپنانا چاہتے ہيں.

بلوچ قوم اور پاکستا ن ميں ديگر محکوم اقوام کا طبقاتی سوال ان کے قومی سوال سے علحيدھ نہيں. خيربخش ديگر قوم پرستوں سے اس لئے بھی بڑے مختلف رہے کہ وھ قومی سوال کی وضاحت ميں کبھی طبقاتی پہلو کو نظرانداز نہيں کرتے. بلکہ اکثر تو طبقاتی پہلو کو بنيادی اہميت ديتے تھے. باقی تو اب طبقاتی مسئلے کا ذکر تک نہيں کرتے. جمہوریت بچاؤ، عدليہ بچاؤ اور ميڈيا بچاؤ نعرے ديگر قوم پرستوں کے مقبول سياسی نعرے بن گئے ہيں. اقتدار کی شراکت داری، حصہ داری اور ميڈيا پروجکشن و پاپولزم ميں بلوچوں اور پشتونوں کے “اعتدال پسند” قوم پرستوں کو اسلام آباد مل گيا ليکن ان ايونيوز پہ سفر کرنے سے منکر خيربخش مری کو لاکھوں بلوچوں کے دلوں ميں ہميشہ کيلئے بسنے کی بڑی پروقار رہائش گھ مل گئی. بس اتنا ہی فرق ہے خيربخش کا اور باقيوں کا-
Khan Zaman Kakar
About the Author: Khan Zaman Kakar Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.