کیا آپ اپنی والدہ کی مدد کریں گے؟

مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے برطانیہ میں مقیم انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر سید نزیر گیلانی نے ایک مرتبہ بتایا کہ جب یہ احساس ہونے لگے کہ’’ کاز‘‘ سے متعلق اچھی تحریر کا اثر نہیں ہو رہا تو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب آگ پر برتن میں پانی گرم کرنے کو رکھا جاتا ہے تو آگ جلنے کے باوجود کچھ وقت کے لئے پانی پر کوئی اثر نظر نہیں آتا،لیکن آگ کے مسلسل جلنے کی وجہ سے کچھ دیر میں پانی یوں کھولنے لگتا ہے کہ جیسے یہ پانی کبھی ٹھنڈا تھا ہی نہیں ۔یعنی معاشرے پر اثر کے لئے مستقل مزاجی سے،حالات و مشکلات کو اثر انداز ہونے دیئے بغیر، متواتر علم و شعور کی روشنی پر مبنی تحریروں کو جاری رکھا جانا چاہئے،جلد یا بدیر اس کا اثر رنگ لاتا ہے،اس کے اثرات ذہنوں پر،معاشرے میں نظر آنے لگتے ہیں۔انسان دوسروں کی مشکلات ،مصائب دور کرنے میں دلچسپی لیتا ہے اور انسانیت کی خدمت کواپنا مذہبی فرض سمجھتے ہوئے اس انسانیت کی ترویج کرتا ہے جس کا حکم ہر مذہب میں شامل ہے لیکن سب سے بڑھ کر اس کی تلقین اسلام میں کی گئی ہے۔لیکن افسوس جس سے اسلام میں بچنے اور جن باتوں پر عمل کرنے کو کہا،اسلام کے نام پر ہی اس کے برعکس انداز اپنایا جانا حاوی نظر آتا ہے۔

تقریبا دو ہفتے سے کوئی کالم نہ لکھنے کی کوئی خاص وجہ تو نہ تھی لیکن اہم موضوعات ہونے کے باوجود ایسا نہ کر سکا۔کچھ موضوع مسئلہ کشمیر اور پاکستان کے امور سے متعلق ہیں،چند موضوعات کی بعض اصحاب نے نشاندہی کرتے ہوئے اس پر تحریر کرنے کو کہا تھا لیکن وعدہ کرنے کے باوجود اب تک ایسا نہ کر سکا۔ان میں ایک اہم موضوع آزاد کشمیر میں پاکستان ٹیلی ویژن کا محدود و عارضی سیٹ اپ،ناکافی اور غیر موثر نشریات،ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے متعدد ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے پروپیگنڈے کا پی ٹی وی، پاکستانی چینلز،سرکاری و نجی ریڈیو سے کوئی جواب نہ دینا،آزاد کشمیر میں قائم ٹی وی اور ریڈیو کی نشریات کا دائرہ کار محدود ہونا،میڈیا کے محاذ پرکشمیر کاز کو بری طرح نظر انداز کرنے کے اہم امور پر مبنی ایک موضوع بھی شامل ہے۔ایک قاری کا کہنا ہے کہ اس پر لکھا جائے کہ آزاد کشمیر کے عوام الیکشن میں اچھے لوگوں کو ووٹ دیں۔اس کے علاوہ بھی چند عنوانات پر لکھنے کا وعدہ تو کر لیا لیکن نامعلوم ایسا ہو گا کب۔بعض اوقات موضوع تو اہم ہوتا ہے لیکن ماحول ایسا ہوتا ہے کہ اس میں اس متعلق بات کرنا مناسب نہیں ہوتا۔اسلام آباد میں دوروزہ کشمیر کانفرنس پہ بھی لکھنے کا ارادہ تھا لیکن ڈاک کے ذریعے ملنے والے پشاور کی ایک خاتون کے خط نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کر دیا۔

مہر تاجہ بی بی نے خط کے ساتھ اپنے شناختی کاروڈ کی تصدیق شدہ کاپی،بنک اکاؤنٹ کی سٹیٹمنٹ اور پاسپورٹ سائیز میں اپنی تصویر بھی بھیجی ہے۔واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ غربت سے قطع نظر،ان کا تعلق کسی اچھے خاندان سے ہے۔میری تعریف میں اچھا خاندان وہ ہوتا ہے جو اخلاقیات،اخلاقی قدروں پہ یقین رکھتے ہوں۔’’ کیا آپ اپنی والدہ کی مدد کریں گے‘‘ کے عنوان کے خط میں یہ خاتون لکھتی ہیں،
پیارے بیٹے اطہر وانی،آداب ،جیتے رہو،

میرا نام مہر تاجہ بی بی ہے۔میں ایک بیوہ خاتون ہوں ۔میرا بیٹا ایک سرکاری محکمہ میں چپڑاسی ہے۔ساری زندگی لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتے کرتے تھک چکی ہوں۔اب عمر کی آخری سیڑھی پر کھڑی ہوں ۔میرے مرحوم شوہر کے علاج کا قرض اور میری دو جوان بیٹیوں کی شادی کے لئے میرے بیٹے نے ایک بنک سے تین سال کی ایڈوانس تنخواہیں قرضے کی مد میں لی۔بنک کا ریفرنس نمبر962338ہے۔ایک چپڑاسی کی تنخواہ کتنی ہو گی،شاید آپ کو معلوم ہوگا۔2014سے2016تک ہم نے جس اذیت اور سختی سے زندگی گزاری اور بنک کا قرضہ باقاعدگی سے ادا کرتے رہے،یہ اﷲ تعالی کو معلوم ہے۔بنک ہر ماہ بمعہ سود میرے بیٹے کی تنخواہ سے 6226روپے کٹوتی کرتا ہے ۔یقین جانئے جب پہلی تاریخ سر پر آتی ہے تو میرے بیٹے کا دل گھبرا جاتا ہے کہ مالک مکان کرایہ مانگنے آئے گا تو اسے کرایہ کہاں سے دے گا۔گیس اور بجلی کابل،گھر کی دال روٹی کیسے خریدوں گا اور پورا مہینہ کس طرح گزارہ کریں گے؟قرضے کے دوران بنک والوں نے میرے بیٹے کو اس بات سے بے خبر رکھا کہ اس پر 18فیصد سود بھی شمار ہو گا ۔میرے بیٹے کو سود کے بارے میں کچھ پتہ نہیں تھا ۔جب سود کے بارے میں میرے بیٹے کو علم ہوا تو اس کے پیروں سے زمین نکل گئی ۔میرے بیٹے نے حکومت کے تمام دروازے کھٹکھٹائے کہ کسی طریقے سے میرا یہ قرضہ معاف ہو جائے ،مگر وہاں سے بھی مایوسی ہوئی۔اب ہم پر بنک کا ٹوٹل قرضہ 1,80,709=/(ایک لاکھ اسی ہزار سات سو نو) روپے بمعہ سود بقایہ ہیں۔میں آپ سب لوگوں کی والدہ کے برابر ہوں اور ایک والدہ پہلی بار آپ لوگوں کی دہلیز پر جھولی پھیلا نے آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی والدہ کو خالی جھولی نہیں جانے دیں گے اور اپنی والدہ کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ضرور ڈالیں گے۔میں خیبر پختون خواہ اور وفاقی حکومت کے ان سنگ دل اور بے رحم اراکین سے اپیل نہیں کروں گی جن کے سینے میں کوئی خوف خدا نہیں ہے۔میں ایک بیوہ خاتون ہوں،آپ لوگوں سے مخاطب ہوں کہ بیشک مجھے نقد رقم نہ دیں اور بنک میں جا کر میرے بیٹے کا قرضہ 1,80,709=/(ایک لاکھ اسی ہزار سات سو نو) روپے جمع کر کے ہمیں سود کی اس دلدل سے آزاد کرائیں اور میرے بیٹے کو اطلاع کریں۔میرے پاس آنسوؤں اور سسکیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ۔آپ سب لوگوں کے لئے میرے دونوں ہاتھ ہمیشہ دعاؤں کے لئے اونچے رہیں گے۔یہ دنیا بھی آپ جیسے نیک دل لوگوں کی وجہ سے آباد ہے۔ اس دنیا میں نیک لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔میری اور میرے یتیم بچوں کی ڈھیروں دعائیں لیں۔اﷲ تعالی آپ سب لوگوں کو میرے جیسی مجبور بیوہ خواتین کی مدد کرنے کی توفیق فرمائے،آمین

آپ سب کی والدہ ،مہر تاجہ بی بی بیوہ رفیع اﷲ (مرحوم)نزد رینگ روڈ محلہ انیس آباد نمبر 2یوسف آباد پشاور۔رابطہ0306 5568823

خط کے ساتھ منسلک بنک سٹیٹمنٹ کے مطابق نیشنل بنک آف پاکستان کی پشاور برانچ کا یہ اکاؤنٹ کرامت اﷲ ولد رفیع اﷲ کا ہے جو اس بیوہ خاتون کا بیٹا ہے۔بنک کا CF no 9623 اور اکاؤنٹ نمبر3011705315ہے۔میری قارئین کرام سے التماس ہے کہ اس بیوہ خاتون ،جس نے ایک ماں کے مان کے ساتھ ہم سے اپنی مصیبت دور کرنے کو کہا ہے،اس کو بنک کے اس سود سے نجات دلا تے ہوئے اﷲ تعالی کی رضا اور رحمت حاصل کریں ۔انشاء اﷲ تعالی۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 625150 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More