ماہِ عبادت …رمضان المبارک

رمضان المبارک کو دیگر تمام مہینوں پر فضیلت حاصل ہے۔ اس مہینہ میں اﷲ رب العزت کی رحمتوں، عنایات اور کرم نوازیوں کی عجیب شان ہوتی ہے۔ انہی برکات کا یہ ثمرہ ہے کہ اس میں ایک نفل کاثواب فرض کے برابر اورایک فرض کاثواب ستر فرائض کے برابرکردیاجاتاہے۔

اس مہینہ میں عبادات و ریاضات کا عالم کیسا ہونا چاہیے؟ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی اس حدیث پر نظر ڈالیے، فرماتی ہیں:جب رمضان کا مہینہ آتا تورسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کمر ِہمت کس لیتے اوراپنے بستر پرتشریف نہ لاتے یہاں تک کہ رمضان گزر جاتا۔

لیکن جب رمضان کی آخری دس راتیں آتیں توسیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا ہی فرماتی ہیں: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم آخری دس دنوں میں جو کوشش فرماتے وہ باقی دنوں میں نہ فرماتے تھے۔

رمضان المبارک میں چونکہ اجر و ثواب کئی گنا بڑھ جاتا ہے اس لیے جتنی بھی عبادات انسان کر سکتا ہو ضرور کرے۔ روز مرہ کی چند عبادات کو مستقل مزاجی اور اعتدال اور اطمینان سے کیا جائے تو ان شاء اﷲ بہت فائدہ ہو گا۔

1:تہجد کی فضیلت:
نماز تہجد کو اپنی پوری زندگی کا معمول بنانا چاہیے ، ورنہ کم از کم رمضان المبارک میں تو اسے ہر حال میں ادا کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ان دنوں میں ہمارے پاس اس کو ادا کرنے کا کافی وقت ہوتا ہے اور انسان کے دل میں ہدایت و روحانیت کا نور پیدا ہوتا ہے۔ چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:

حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ رات کے آخری تہائی حصہ میں آسمان سے دنیا کی طرف نزول کر کے فرماتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت طلب کرے کہ میں اسے بخش دوں؟‘‘

ایک حدیث پاک میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز درمیانی رات کی نماز تہجد ہے۔ ‘‘

ایک اور حدیث مبارک میں ہے: ’’اﷲ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں بندے سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ پس اگر ہو سکے تو تم ان بندوں سے ہو جاؤ جو اس مبارک وقت میں اﷲ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘

2:سحری کی فضیلت:
یہ اﷲ تعالی کا کرم ہے کہ اس ذات نے ہمیں جسمانی ضروریات کو پورا کرنے پر اجر وثواب عنایت فرماتے ہیں۔ سحری بھی ہماری ان جسمانی ضروریات میں سے ایک ہے جس پر اﷲ تعالی نے انعام و اکرام اور برکت سے نوازتے ہیں۔چنانچہ احادیث پاک میں ہے۔
۱: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا : سحری کیا کرو ، کیونکہ سحری کرنے میں یقینا برکت ہے۔
۲: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں فرق کرنے والی چیز سحری کا کھانا ہے۔
۳: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کے بارے میں فرمایا:سحری والی برکت جو اﷲ نے تم لوگوں کو عطا کی ہے اسے چھوڑو نہیں۔
۴: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا: سحری ضرور کرو خواہ ایک گھونٹ پانی سے ہی کرو۔
۵: رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :بے شک سحری کرنے والوں پر اﷲ رحمت کرتا ہے اور اﷲ کے فرشتے دْعا ان کے لیے کرتے ہیں۔

3:روزہ کی فضیلت:
روزہ رمضان المبارک کی بہت اہم عبادت ہے اس کے فضائل پر مشتمل چند احادیث پیش خدمت ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کو رمضان شریف میں پانچ چیزیں خاص طور پر دی گئیں ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں دی گئیں:
(۱) ان کے منہ کی بو اﷲ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔
(۲) ان کیلئے فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ افطار کے وقت تک دعا کرتے ہیں۔
(۳) جنت ہر روز ان کیلئے سجا دی جاتی ہے۔ پھر اﷲ رب العزت فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے مشقتیں اپنے اوپر سے ہٹا کر تیری طرف آئیں گے۔
(۴) اس مہینہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں اور لوگ رمضان میں ان برائیوں کی طرف نہیں پہنچ سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں جا سکتے ہیں۔
(۵) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کی جاتی ہے۔

صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے عرض کی:کیایہ شب قدرہے؟ ارشادفرمایا: نہیں، بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو مزدوری کام ختم ہونے کے وقت دی جاتی ہے۔

آنحضرت صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے ایک دن رمضان کا روزہ چھوڑ دے اور پھر تمام عمر کے روزے بھی رکھے تو اس ایک روزے کا بدل نہیں ہو سکتا۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: روزہ انسان کے لئے ڈھال ہے جب تک اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔

فائدہ: ڈھال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جیسے آدمی ڈھال سے اپنی حفاظت کرتا ہے اسی طرح روزہ سے بھی اپنے دشمن یعنی شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اور روزہ پھاڑ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں جھوٹ، غیبت اور اس قسم کے ناجائز کام کیے جائیں۔ لہذا روزہ کے حقیقی فوائد اور ثمرات اس وقت حاصل ہوں گے جب انسان ان گناہ کی چیزوں اور لایعنی کاموں سے بچا رہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی؛ ایک روزہ دار کی جب وہ روزہ افطار کرتے وقت مانگتا ہے، دوسرے عادل بادشاہ کی، تیسرے مظلوم انسان کی جس کواﷲ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ارشاد ہوتا ہے کہ (اے بندے!) میں تیری ضرور مدد کروں گا ، گو (کسی مصلحت کی وجہ سے) کچھ دیر ہو جائے۔

کعب بن عجرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں:ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہو جاؤ۔ ہم لوگ (قریب قریب) حاضر ہو گئے۔ جب آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے منبر کے پہلے زینہ پر قدم رکھا تو فرمایا :آمین۔ جب دوسرے زینہ پر قدم رکھا توپھر فرمایا: آمین، جب تیسرے پر قدم رکھا توپھر فرمایا آمین۔ جب آپ علیہ السلام خطبہ سے فارغ ہو کر نیچے تشریف لائے تو ہم نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے ایسی بات سنی ہے جو پہلے کبھی نہیں سنی ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اس وقت جبرئیل میرے پاس آئے تھے۔ جب میں نے پہلے درجہ پر قدم رکھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہوجائے وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہیں ہوئی، میں نے کہا :آمین، پھر جب میں دوسرے زینے پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے آپ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا:آمین،جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا: ہلاک ہو جائے وہ شخص جس کے سامنے ا س کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کی حالت میں آئیں اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کرائیں،میں نے کہا:آمین۔

حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ ارشادفرماتے ہوئے سنا: ’’رمضان میں اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس مہینے میں اﷲ تعالیٰ سے مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔‘‘

حضرت زید بن خالد رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے روزہ دار کا روزہ اِفطار کرایا یا کسی غازی کو سامانِ جہاد دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔‘‘

4:فرض نمازوں کی پابندی:
نماز اہم العبادات ہے ، اس کی پابندی ضروری ہے ، بے شمار آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ اس کی فضیلت ثابت ہے چند احادیث پیش خدمت ہیں :
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ جس نے نماز کی پابندی کی تو نماز اس کے لئے قیامت کے دن نور، حجت اور نجات کا سبب بنے گی‘‘

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مرتبہ پت جھڑ کے موسم میں باہر تشریف لے گئے اور ایک درخت کی دو ٹہنیوں کو پکڑ کر ہلایا جس کی وجہ سے درخت سے پتے جھڑنے لگے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ذر! ابو ذر نے عرض کی یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں حاضر ہوں، آپ نے فرمایا دیکھو جب کوئی مسلمان نماز پڑھتا ہے اور اس کے ذریعہ اﷲ کی خوشنودی اور رضا کا طالب بنتا ہے تو اس کے گناہ اسے طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ تو کسی کے دروازے پر نہر ہو وہ اس میں ہر روز پانچ بار غسل کرتا ہو کیا اس کے بدن پر میل کچیل رہ جائے گی ؟ عرض کیا نہیں۔ فرمایا یہی مثال پانچ نمازوں کی ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ ان نمازوں کے سبب خطاؤں کو مٹا دیتا ہے۔

فقیہ امت حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا : اے اﷲ کے رسول !اﷲ تعالیٰ کو بندے کا کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔

5:تلاوت قرآن:
قرآن کریم کو رمضان المبارک سے بہت نسبت ہے۔ اسی مبارک مہینے میں قرآن کریم نازل ہوا ، نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس مہینے میں حضرت جبرئیل امین سے قرآن کریم کا دَور(سننا اور سنانا)فرمایا کرتے تھے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :قرآن مجید پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے لیے سفارش کرے گا۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص قرآن میں ماہر ہے وہ معزز فرشتوں کے ساتھ ہوگا اور جو شخص قرآن اٹک اٹک کر مشقت کے ساتھ پڑھتا ہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔

حدیث پاک ہے کہ صاحب قرآن سے قیامت کے روز کہاجائیگا: قرآن مجید کی تلاوت اس طرح کرو جیسے دنیا میں ترتیل(ٹھہر ٹھہر کر) سے کرتے تھے اور بلند منازل طے کرتے جاؤ۔ جنت میں تمہارے لیے وہ جگہ متعین ہوگی جس جگہ آخری آیت کی تلاوت پر تمہاری سانس رکے گی۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، بیشک شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے جس میں سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی جاتی ہے۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اﷲ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ مقدار میں تھوڑا ہی کیوں ناہو۔ حدیث مبارک کے پیش نظر آپ کی سہولت کے لیے تلاوت کلام پاک کے حوالے سے ایک نقشہ پیش کیا جا رہا ہے
وقت------------------------تلاوت کی مقدار-----------------30 دنوں میں
30 منٹ(آدھ گھنٹہ )روزانہ-----------ایک پارہ----------------ایک ختم قرآن
60 منٹ(ایک گھنٹہ )روزانہ-----------دو پارے-----------------دو ختم قرآن
90 منٹ(ڈیڑھ گھنٹہ )روزانہ---------تین پارے-----------------تین ختم قرآن
120 منٹ(دو گھنٹے)روزانہ-------چار پارے------------چار ختم اورآٹھ سپارے
150منٹ(اڑھائی گھنٹے) روزانہ---- پانچ پارے--------------چھ ختم قرآن
اگر مستقل مزاجی سے تلاوت کی جائے تو اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔

6:توبہ و استغفار کی فضیلت:
ہم فرشتے بھی نہیں کہ کبھی ہم سے گناہ نہ ہو اور ہمیں شیطان کی طرح ہمیشہ گناہ بھی نہیں کرتے رہنا چاہیے بلکہ اگر گناہ ہو جائے تو توبہ استغفار کر نی چاہیے تاکہ آئندہ کے لیے ہم اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانیوں سے بچ سکیں۔ تاہم اگر بار بار بھی توبہ ٹوٹ جائے تب بھی ہمیں ناامید نہیں ہونا چاہیے۔

رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:شیطان نے (بارگاہِ الٰہی میں) کہا : (اے باری تعالیٰ!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی جسموں میں روحیں باقی رہیں گی گمراہ کرتا رہوں گا۔ اﷲ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا : مجھے بھی اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے یعنی بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔‘‘

7:صدقہ وخیرات کی فضیلت:
رمضان المبارک میں جہاں اور اعمال کا اجر بڑھ جاتا ہے اسی طرح صدقہ و خیرات کا اجر و ثواب بھی بڑھ جاتا ہے۔ چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں :

حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جود و سخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان المبارک میں جبکہ جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تھے آپ کی سخاوت بہت ہی بڑھ جاتی تھی، جبریل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ کے پاس آتے تھے، آپ سے قرآنِ کریم کا دَور کرتے تھے، اس وقت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فیاضی و سخاوت اور نفع رسانی میں بادِ رحمت سے بھی بڑھ کر ہوتے تھے۔

حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رمضان میں صدقہ کرنا افضل ہے۔

نوٹ : اس مہینہ میں اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور وجوبی صدقات تو ادا کرنا تو انسان کے ذمہ ہیں ان کے ساتھ ساتھ کوشش کرنی چاہیے کہ نفلی صدقات کا اہتمام بھی کیا جائے۔ کسی نادار روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، کسی محتاج کی مدد کرنا، کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا، یتیم اور بیواؤں کا خیال رکھنا وغیرہ ایسی نیکیاں ہیں کہ انسان ان کو اس ماہِ مقدس میں ضرور ادا کرے۔

8:صبر و تحمل کی فضیلت:
بعض اہل علم فرماتے ہیں کہ صبر و تحمل تقریباً ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ صبر میں غصہ اور اشتعال کو روکا جاتا ہے اور تحمل میں غصہ اور اشتعال کو برداشت کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں روزوں کی وجہ سے خشکی آجاتی ہے اور مزاج میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے اس لیے ایسے موقع پر اپنے آپ پر قابو پانا اور صبر سے کام لینابہت ضروری ہے۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے غصہ پر قابو پانے والے بردبار اور حلیم مزاج شخص کی تعریف و توصیف فرمائی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث موجود ہے : پہلوان وہ شخص نہیں جو غصے کے وقت لوگوں کو پچھاڑ ڈالے بلکہ پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر کنڑول کرے۔

9:نوافل کی فضیلت:
جیسا کہ حدیث پاک میں یہ بات بالکل وضاحت کے ساتھ آچکی ہے کہ رمضان المبارک میں نوافل کا ثواب فرضوں کے ثواب تک جا پہنچتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ فرائض کے علاوہ سنن اور نوافل کا بھی ذوق شوق سے اہتمام کریں۔ تہجد ، اشراق ، چاشت ،تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجداوراوابین وغیرہ کو اپنا معمول بنائیں۔
Muhammad Ilyas Ghumman
About the Author: Muhammad Ilyas Ghumman Read More Articles by Muhammad Ilyas Ghumman: 7 Articles with 6153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.