آئین کی پاسداری ضروری ہے

آج ہمارا معاشرہ انتہائی انتشار کا شکار ہو چکا ہے، اس کی بنیادی وجہ باہمی اعتماد کا فقدان ہے، کیونکہ اختلافی امور پر کشادہ دلی سے گفتگو کرنے اور تنقید کو برداشت کا رواج نہیں رہا،چاپلوسی کا کلچر عام ہو چکا ہے ،اسی وجہ سے تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد، تنظیمیں اور جماعتیں دھڑے بندیوں کی شکار ہیں۔ کسی بھی ملک کے ادیب ،شاعر اور دانشور اسی ملک کی تہذیب و ثقافت اور معاشرت کی عکاسی اور زندگی کے مجموعی رویوں کی نشان دہی کرتے ہیں ، مگر ہمارے ہاں مخصوص مفادات کے زیر اثر یہ لوگ مختلف طبقات کے درمیان غلط فہمیوں کے شجر اگانے میں مصروف ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں۔

ہمیں ملک حاصل کئے 69 برس گزر چکے ہیں،اس عرصے میں ہمیں اﷲ عزوجل نے بہت سی کامیابیوں سے نوازا ہے،اسی لئے ہم نے اتنے قلیل عرصے میں ترقی کی بہت سی منازل طے کر لی ہیں،حالانکہ اتنے برس کسی قوم کے لئے زیادہ نہیں ہوتے ،لیکن ہمارے ہاں حالات بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں،ہم اس سے زیادہ ترقی کر سکتے تھے ،لیکن ہماری اپنی غلطیوں نے ہمیں خرابیوں کی انتہا پر پہنچا دیا ہے، ہم نے ماضی کی غلطیوں سے سبق کیا سیکھنا تھا،اسے بار بار دھراتے رہے ہیں۔ہم اپنے آئین کا ہی احترام نہیں کرتے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں ملک کو 1947ء سے لے کر 1956ء تک کسی آئین کے بغیر چلایا گیا،1973ء کا آئین اس وقت کی کابینہ متفقہ طور پرپاس کیا گیا،ہر پارٹی نے اسے سراہا،لیکن 24گھنٹے تک بھی یہ منظور شدہ آئین اپنی حالت برقرار نہ رکھ سکا تھا اور اس میں ترامیم کا آغاز کر دیا گیا۔بعد ازاں متعدد بار آئین معطل کیا گیا۔جہاں مجموعی صورت حال اس طرح کی ہو، وہاں آئین کے احترام کا تصور دھندلا ہی ہوتا ہے۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بوجہ علالت لندن میں مقیم ہیں، امور مملکت کو چلانے کے لئے ان کی موجودگی آئینی طور پر ضروری ہے،خاص طور پر سالانہ بجٹ کی منظوری اور مشترکہ پارلیمنٹ سے صدر پاکستان کے خطاب کے موقع پر ان کی موجودگی آئینی طور پر لازم تھی۔ایسے حالات میں آئین میں جو کچھ کیا جانا چاہئے تھا، نہیں کیا گیا،ماضی کی شرم ناک روایت ایک بار پھر دہرائی گئی ، مگرتمام ادارے خاموش ہیں، سیاستدان ، پارلیمنٹ اور عدلیہ کہیں سے کوئی آہٹ سنائی نہیں دے رہی۔جب ملک کے بنیادی ادارے ہی آئین کی پامالی پر چپ سادھ لیں تو یہ خاموشی ملک و قوم کے لئے انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کا شمار ملک کے بڑے رہنماؤں میں ہوتا ہے،جس کا ہر کسی کو احساس بھی ہے،بدقسمتی سے ہمارے ہاں پہلے ہی سنجیدہ اور سمجھ دار قیادت کا فقدان رہا ہے ،ہم نے اپنے نہایت قیمتی لیڈروں کو کھودیا ہے، اﷲ تعالیٰ میاں نواز شریف کو صحت مند اور لمبی عمر عطا کرے۔بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وزیر اعظم نے برطانیہ میں اپنا علاج کروا کر اپنے ڈاکٹروں کی توہین کی ہے،کیا ملک میں ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں، جہاں ان کا علاج ہو سکتا وغیرہ وغیرہ۔ہمارے ہاں صاحب حیثیت لوگ عام طور پر علاج کے لئے بیرونِ ملک علاج کو ترجیح دیتے ہیں،حکمران تو اکثر معمولی بیماری کے علاج کے لئے بھی برطانیہ ، امریکہ دوڑتے ہیں، وہ تو علاج کا خرچہ بھی عوام سے لیتے ہیں، گزشتہ دنوں چودھری شجاعت اپنی ناک کے آپریشن کے لئے بیرون ملک گئے تھے، آصف علی زرداری کا علاج بھی امریکہ کے سوا کہیں نہیں ہوتا،جنرل (ر) پرویز مشرف بھی بیرونِ ملک بھاگے ہیں،یہ تمام طبقات علاج کے لئے اپنے ڈاکٹروں سے زیادہ بیرونِ ملک ڈاکٹروں کو ترجیح دیتے ہیں ،ویسے بھی بڑے سے بڑا سرجن اپنے قریبی لوگوں کا آپریشن کرتے ہوئے جھجکتا ہے،کیونکہ ان سے جذباتی تعلق جو ہوتا ہے ،اسی لئے میاں نواز شریف نے برطانیہ کے ڈاکٹروں سے آپریشن کروانا مناسب سمجھا،لیکن وزیر اعظم نے اپنی بیماری پر آنے والے تمام تر اخراجات اپنی جیب سے دیئے ہیں۔

کیا یہ بات درست ہے کہ پورے ملک میں ایک بھی اس معیار کا ہسپتال موجود نہیں ،جہاں پاکستانی اشرافیہ اپنا علاج کروا سکیں؟ایسا ہر گز نہیں ہے،یہاں ہسپتال بھی ہیں ،ماہر ڈاکٹروں کی بھی کمی نہیں ،لیکن یہاں علاج کروانا حکمران طبقے کے لئے شایدباعثِ عار ہے،جبکہ عوام کے لئے موجود سرکاری ہسپتالوں کا معیار انتہائی ناقص ہے، نہ دوا ہے،نہ سہولتیں ہیں، جبکہ دواؤں اور دیگر سہولتوں کے نام پر جو بھاری رقوم سرکاری ہسپتالوں کو دی جاتی ہیں ، وہ کہاں جاتی ہیں،کوئی اس کا حساب لینے کو تیار نہیں؟

بہر حال وزیر اعظم اوپن ہارٹ سرجری کے بعد صحت یاب ہو رہے ہیں ، امید ہے جلد ملک واپس آکر امورمملکت کو زیادہ احسن طریقے سے چلائیں گے، وزیر اعظم کی علالت کے موقع پر عوام نے ان کی صحت کے لئے دعائیں کی ہیں،اب انہیں بھی سوچنا چاہئے کہ عہدے اور منصب اپنی خواہشات پورے کرنے کے لئے نہیں،بلکہ قوم کی اصلاح اور ان کے مسائل کے سدِباب کے لئے ہوتے ہیں۔ہمیں ذاتی عناد کو پسِ پشت ڈال کر ایک ہونا ہوگا،تاکہ ہم ملک و قوم کو درپیش تمام چیلنجوں سے نبرد آزما ہو سکیں اور ملک اور آنے والی نسلوں کو درست سمت میں گامزن کریں۔آئین کی پاسداری کواپنا فرض اوّلین بنانا ہو گا،کیونکہ آئین کا احترام نہ کرنا انتہائی خطرے کی نشانی ہے۔
Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 96001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.