حکم ربی تیسری اطاعت بھی قائم کرو

 اﷲ تعالیٰ نے نبی ٔ مکرم ،ہادیٔ سبل،آمنہ ؓکے دریتیم حضرت محمد ﷺ کو دنیا میں نبی ٔ آخر الزماںﷺ کی حیثیت سے مبعوث فرمایا ۔آپ ﷺ کی زندگی قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے ۔رب کائنات فرماتے ہیں کہ جس نے رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت کی گویا اس نے اﷲ کی اطاعت کی (النساء:80)۔

ایمان کی تکمیل کیلئے اطاعت رسولﷺ لازم وملزوم ہے ۔محبت الٰہی کا ذریعہ اطاعت رسولﷺ ہی ہے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی ﷺ ! ان سے فرمادیں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اﷲ تم سے محبت کرے تو میری پیروی کرو،اﷲ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا (آل عمران:31 )

ثابت ہوا کہ اطاعت رسول ﷺ ہی درحقیقت عبادت الٰہی کا مرکز ہے ۔جو بھی کام اطاعت رسول ﷺ سے ہٹ کر کیا جائے بظاہر وہ خواہ کتنا ہی خوبصورت نظر کیوں نہ آئے وہ عبادت تو دور کی بات معیاری بھی نہیں ہو سکتا ۔
اﷲ رب العزت فرماتے ہیں کہ اطاعت رسولﷺ ایمان والوں کیلئے اہم ترین بنیادی فریضہ ہے جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا ۔کلام الٰہی میں ارشاد ہے کہ اے نبیﷺ! فرما دیجئے کہ یہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک یہ تمھیں اپنے دنیاوی معاملات میں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں ،اور جو آپﷺ فیصلہ فرمادیں اس پر دل میں ذرا سی تنگی تک محسوس نہ کریں ۔(:النساء65) ۔مفسرقرآن مولانا مفتی تقی عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہاں اس سے مراد وہ حاکم ہے جو اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام سے بے نیاز ہوکر یا ان کے خلاف فیصلہ کرے ۔آیت نے واضح کردیا کہ اگر کوئی شخص زبان سے مسلمان ہونے دعویٰ کرے لیکن اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے احکام پر کسی اور قانون کو ترجیح دے تو وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔(آسان ترجمہ قرآن:191)گویا زندگی کے ہر شعبہ میں اﷲ و رسول اﷲ ﷺ کی اطاعت ایک ایمان والے کیلئے لازم ہے خواہ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی،عام فرد ہو یا حکمران کیلئے اطاعت رسول لازم ہے جو اطاعت رسولﷺ سے روگردانی کرے گا اس کا ایمان اﷲ کے ہاں قبول نہیں ہے۔

اطاعت کی تین اقسام ہیں ان تینوں اطاعتوں کو ازحد لازم قرار دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور جو تم میں صاحب اختیار(خلیفتہ المسلمین) ہو، ان کی بھی اطاعت کرو،پھر اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں اختلاف ہوجائے تواگر واقعی تم اﷲ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اسے اﷲ ورسولﷺ کے حوالے کردو یہی طریقہ بہترین ہے اور اس کا انجام بھی سب سے بہتر ہے۔ (النساء:59) ۔

تیسری اطاعت مفقود ہو چکی ،جسے زندہ رکھنا شائدآج کے مسلمان ضروری نہیں سمجھتے ۔ہمار ی نظر میں ذلت و پستی کی وجہ اس اطاعت کو نظر انداز کرنا ہے جو مسلمانوں کو عزت وعظمت،شان وشوکت ،غلبہ عطاء کرتی ہے۔ تیسری اطاعت کے قائم کیوں نہیں ہو رہی؟اس کی بنیادی وجہ فرسودہ،رحمان کے مقابلے میں انسان ساختہ، نظام ہائے زیست،نظام ہائے حکومتوں سے الگ تھلگ رہ کر ان کا انکار نہ کرنا،اﷲ کی زمین پر اﷲ کا نظام "نظام الٰہی،نظام حکومت ،نظام خلافت" قائم نہ کرنا ہے جبکہ اسلام رحمان کے مقابلے میں انسان ساختہ نظام ہائے زیست،نظام ہائے حکومتوں کے انکار ،ان سے الگ تھلگ رہ کر اسلام لانے کا مطالبہ کرتا ہے (البقرہ) اس کی زندہ وجاوید مثال ہمارے سامنے ہے کہ سرداران مکہ حضرت ابوطالب کے پاس وفد کی صورت میں آئے اور پیش کش کی کہ اپنے بھتیجے (حضرت محمدﷺ) سے کہو کہ عورت ،دولت،انسان ساختہ نظام کی حکومت لے لو مگر ہمارے دین،مذہب،فرسودہ ظالمانہ نظام حکومت،نظام زندگی کی مخالفت نہ کرو لیکن اﷲ کے پیغمبرﷺ نے تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں تو میں محمد ﷺپھر بھی ان کے فرسودہ ظالمانہ نظام حکومت،نظام زندگی کی مخالفت کرتا رہوں گا ۔یہاں تک کہ مجھے غلبہ مل جائے یا میں اس راستے میں کام آجاؤں۔
یہ وہ عظیم کارنبوت تھا جس نے عرب کی سرزمین پر قائم رب کے مقابلے میں انسان ساختہ نظام کی کمر توڑنے ،فنا کرنے میں کوئی کمپرومائز نہیں کیا ۔اس راہ مقدس پر چلتے ہوئے اﷲ کے محبوب حضرت محمد ﷺ ،صحابہ کرامؓ کو سخت سے سخت مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا۔صحابہ کرامؓ کی نظام قائم کرنے کے حوالے سے استقامت امت کیلئے قیامت تک مشعل راہ ہے،جو اطاعت رسولﷺ کے عنوان کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے ۔
دیکھئے!اطاعت کے اس اہم ترین فریضے کو ادا کرنے کیلئے صحابہ کرامؓ اپنی جانوں ،مالوں، اولادوں، جائیدادوں،وطن کی قربانی تک دے دی مگر دامن مصطفیٰ ﷺ نہیں چھوڑا ۔رسول اﷲ ﷺ نے قیام نظام کا فریضہ جب سرانجام دیا تو اﷲ نے فرمایا اب دین اسلام مکمل ہوگیا ۔کار نبوت پائیہ تکمیل تک پہنچ گیا تو اپنے محبوب ﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے پاس بلوا لیا۔یعنی تیسری اطاعت قائم ہوتی ہے تو دین اسلام مکمل ہوتا ہے۔

غور طلب مقام ہے کہ جب رسول اﷲ ﷺ دنیا میں تشریف لائے تو کرہ ارض پر انسان ساختہ نظام جہالت قائم تھا لیکن جب دنیا سے تشریف لے گئے تو اﷲ کا عطاء کردہ نظام خلافت قائم ودائم تھا۔یعنی رسول اﷲ ﷺ کی مقصد حیات رب کی زمین پر رب کا نظام قائم کرنا تھا جسے آپ ﷺ نے بدرجہ احسن کامیابی وکامرانی سے سرانجام دیا ۔سوال یہ ہے کہ کیا آج کے مسلمانوں نے نبی ﷺ کی اطاعت کو قبول کرتے ہوئے تیسری اہم ترین اطاعت کوقائم کرنے کیلئے مقصد زیست کا مقصد بنایا ہے ؟

رحلت پیغمبرﷺ کے بعد صحابہ کرام ؓ نے اطاعت رسول ﷺ کے اس ہم ترین پہلو کو اولین ترجیح سمجھتے ہوئے سرانجام دیا ۔صحابہ کرام ؓ نے تین دن ،تین راتیں لگا کر حضرت ابوبکر صدیقؓ کو جانشین پیغمبر مقرر کیا ۔خلفائے راشدینؓ ودیگر خلفائے اسلام نے اسی طرز پر اطاعت رسول ﷺ کو تھامے رکھا تو دنیا جنت نظیر وادی بن گئی جس کی کہانیاں ،واقعات ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جنھوں نے اطاعت رسول ﷺ سے ہاتھ کھینچا دنیا میں ان کو مغلوبیت کہ سزا ملی اوروہ اس قدر بیاختیار ہو گئے کہ سلطنت،حکومت ،طاقت ،وسائل ہونے کے باوجود "ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنا مقدمہ فیصلے کیلئے طاغوت(اﷲ کے مقابلے میں نظام حکومت چلانے والے باغیوں) کے پاس لے جانا چاہتے ہیں حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ اس کا کھل کر انکار کریں اور شیطان چاہتا ہے کہ انھیں بھٹکا کر پرلے درجے کی گمراہی میں مبتلا کردے۔ (النساء :60")

لیکن دور حاضرکے پرفتن دور میں اطاعت کی اس قسم کی طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ مسلمانوں کا ایک طبقہ اس وقت اسلامی نظام کوناقابل عمل تصور کررہاہے ،اور انسان ساختہ نظاموں کا موہرا بنا ہوا ہے ۔ان کا خیال ہے کہ جدید دور میں مسلمان ایک سربراہ کی سربراہی میں کیسے مجتمع ہو سکتے ہیں ایسے لوگوں کی خدمت میں گذارش ہے کہ اگر مغرب و یورپ پوپ کی سربراہی میں ایک ہو سکتے ہیں تو سچے دین کے حامل مسلمان ایسا کیوں نہیں کر سکتے ،آج یورپ ومغرب کی کرنسی ،فوج،معیشت،تعلیم،سرحدیں یک قالب ہوتی نظر آرہی ہیں ۔اﷲ ،رسولﷺ،دین اسلام کے نزدیک تیسری اطاعت قائم کرنا مسلمانوں پر اولین فرض ہے جسے ادا نہ کرنے والے مسلمان ناراضی ٔ رب العزت کا شکار ہو چکے ہیں۔سیکولر (لادین) طبقہ اسلامی نظام کا چہرہ دنیا کے سامنے اس قدر بھیانک انداز میں پیش کررہاہے کہ دین سے نابلد لوگ ان کے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر اہل دین سے مزید دور ہورہے ہیں جس کا نتیجہ بے حیائی ،عریانی،فحاشی،بے دینی کی صورت میں نمودار ہو رہا ہے۔ارباب علم ودانش عوام الناس کی توجہ اطاعت کے مذکورہ بالا اہم ترین پہلو کی جانب مبذول کروائیں تاکہ عبادت الٰہی کا حقیقی حق ادا ہو سکے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245883 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.