چین ایک فیکٹری تو بنا نہیں سکتا!

جب سے ہم نے چین کے کہے میں آ کے ایک سڑک بنانے کی حامی بھری ہے دنیا ہے کہ لٹھ لے کے ہمارے پیچھے پڑی ہے۔امریکہ کہ آج بھی جسے ہم اپنا دوست حامی وفادار اورملجیٰ و ماویٰ سمجھتے ہیں بلکہ مسلمان ہونے کے باوجود کچھ معاملات میں معبود بھی،کبھی ایک بہانے ہم پہ چڑھائی کرتا ہے تو کبھی دوسرے بہانے۔تازہ حملہ اس نے نوشکی کے آس پاس کیا۔مقصود نہ صرف ہمیں دنیا کے سامنے ننگا کرنا تھا بلکہ تحریک طالبان افغانستان کو بھی ہمارے پیچھے لگانا تھا وہ تو بھلا ہو افغانی طالبان کا کہ پشتون ہونے کے باوجود انہوں نے غوروفکر کر کے اعلان کر دیاکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ملا منصور پہ حملے کے پیچھے کیا عوامل کار فرما تھے۔پھر افغانستان ہے جس کے لاکھوں باشندوں کوہم نے عشروں سے سر پہ بٹھا رکھا ہے۔انہوں نے ہماری اقتصادیات کو یر غمال بنا رکھا ہے۔کاروبار پہ ان کا قبضہ ہے بلکہ پاکستانیوں کے لئے بننے والے گھروں پہ بھی۔کچھ تو ہماری" نادرہ بی بی" کے طفیل پکے پاکستانی بن گئے اور باقاعدہ ہماری سیاست میں دخیل ہیں۔اس کے باوجود افغانستان ہم پہ ہمہ وقت نہ صرف انگشت نمائی کرتا ہے بلکہ انگشت زنی بھی۔ہمارا ایک اور اسلامی ماں جایا ہے جسے ہم نے امہ کے چکر میں ہمیشہ سینے سے لگایا۔اس کی سرد مہری کے باوجود ہمیشہ اس کے ناز اٹھائے لیکن جونہی امریکہ نے اسے گود لیا وہ بجائے امریکی داڑھی نوچنے کے ہماری داڑھی کے بالوں کو تنکے سمجھ کے ان میں کل بھوشن جیسے کھٹمل گھسیڑ رہا ہے۔پھر ہیں کل بھوشن کے والد گرامی جن کی تخلیق کا واحد مقصد پاکستان اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ان پہ نہ تعلقات اثر کرتے ہیں نہ کوئی منت ترلہ حالانکہ ہم نے انہیں کہاں کہاں مسکہ نہیں مارا۔ہمارے وزیر اعظم اﷲ انہیں عمر ِ خضر دے زندگی اور موت کی کشکمکش میں بھی مودی سے آشیرواد لینا نہیں بھولتے اور آخری سمے جب بندے کو یا ماں یاد رہتی ہے یا خدا ہمارے وزیر اعظم مودی کی آواز میں راحت پاتے ہیں۔

چین جس کے لئے ہم نے یہ سارے درد سہے دور کھڑا ہو کے ہماری حالتِ زار کے گویا مزے لیتا ہے۔مجال ہے جو کبھی اس نے ہماری حمایت میں کوئی اشارہ بھی دیا ہو۔شاعر کہتا ہے کہ
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے
میری نمازِ جنازہ۔۔۔ پڑھائی غیروں نے

بد قسمتی سے چینی مسلمان نہیں اس لئے ان کے وضو کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔اس لئے چینی زبانِ حال سے پکار پکار کے ہمیں گویا کہہ رہے ہیں کہ" جاگدے رہنا بھائیو تے ساڈے تے نہ رہنا بھائیو"چینی تو خیر جیسے بھی ہیں لیکن ہماری مثال بھی اس فربہ خاتون کی طرح ہے جس کے گھر میں چور گھس آیا تو وہ کسی طرح چور کو قابو کر کے اس کی چھاتی پہ چڑھ بیٹھی۔میاں سے کہا جاؤ اور دوڑ کے پولیس کو بلا لاؤ۔میاں کو کچھ تاخیر ہوئی تو چور نے خاتون کے نیچے سے آواز لگائی او بھائی جاتے کیوں نہیں۔میاں بولا جوتے نہیں مل رہے۔چور نے سماجت کے انداز میں کہا۔بھائی اﷲ کے واسطے میرے پاؤں سے اتارو اورپہن کے پولیس کو ترنت بلا لاؤ ورنہ جان رکھو کہ میں زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوں۔ہم امریکہ پہ گریں تو اس وقت تک نہیں اٹھتے جب تک کسی خون آشام کیڑے کی طرح ہمیں نوچ کے علیحدہ نہ کر دیا جائے۔انہوں نے کب کب ہمیں علیحدہ نہیں کیا اور کب کب ہم دوبارہ ان کے ساتھ نہیں چمٹے۔

چینی بڑے کایاں لوگ ہیں انہوں نے جغرافیہ بھی پڑھ اور سمجھ رکھا ہے اور تاریخ بھی۔جغرافیہ نہ پڑھے ہوتے تو ابھی تک کہیں ارومچی اور سنکیانگ ہی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے۔ہمارے مزاج کے ہوتے تو ہانگ کانگ ہی کے مسئلے پہ اپنی ہڈی پسلی ایک کروا کے زخم چاٹ رہے ہوتے۔انہوں نے پہلے ہانگ کانگ کو خوبصورتی سے قابو کیااور جغرافیئے کے علم کی بناپہ انہوں نے اندازہ لگایا کہ ہماری آئندہ کی اقتصادیات اور معیشت کا انحصار پاکستان کے راستے گوادر کی بندرگاہ تک پہنچنے میں ہے۔ہماری تو روزی روٹی کا مسئلہ تھا ہم نے تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے چین کے ساتھ بھی چمٹ جانے کی بھرپور کوشش کی لیکن چینیوں نے ہمارے ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہری دوستی کے بلند بانگ دعووں میں آنے کی بجائے ہمیں ایک مناسب فاصلے پہ رکھ کے ہم سے صرف کاروبار کی بات کی۔چینی فی الوقت ہمیں صرف تسلی دلاسہ دے رہے ہیں ساتھ ہی ساتھ وہ ایران کی چاہ بہار کا آپشن بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں۔گوادر ان کے لئے سونے کی چڑیا ہے لیکن تاریخ کے اچھے طالبعلم اور اچھے کاروباری ہونے کے ناطے وہ سارے انڈے ایک ٹوکری میں نہیں رکھ رہے۔

چین امیر ترین ملک ہے اتنا کہ امریکہ تک اس کا مقروض ہے۔ادھر ہم ہیں کہ دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں لیکن چین ہے کہ نوٹ دکھا رہا ہے دے نہیں رہا۔جس کی وجہ سے ہمارا موڈ بنتا ٹوٹتا رہتا ہے۔چین کیا کچھ نہیں بنا رہا۔ہر وہ چیز جو دنیا میں کہیں بن رہی ہے اور بنائی جا سکتی ہے وہ چین بنا رہا ہے۔ہمارا لیکن اسے قطعاََ کوئی خیال نہیں۔

کیا چین چاہے تو اپنے ہمالیہ سے بلند اور بحیرہ عرب سے گہرے دوست کے لئے تھوڑی غیرت نہیں بنا سکتا۔ تھوڑی حمیت اور تھوڑی سی حیا اور شرم۔نہیں بن سکتی تو اپنے خزانوں ہی سے بھلے تھوڑی تھوڑی یہ جنس ادھار ہی دے دے ۔چین لیکن سرے سے انکاری ہے۔یہ کیسا دوست ہے ہمارے لئے ملی غیرت کی ایک فیکٹری نہیں لگا سکتا۔مجھے تو ابھی سے اس پہ شک ہونے لگا ہے جو آج زبانی ہمارے دفاع میں کھڑا نہیں ہوتا کل ہمارا کشکول کیسے بھرے گا اور کشکول بھی وہ جس کا پیندہ ہی نہیں۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268564 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More