اسلامی تاریخ اور ہمارے حکمران

آپ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے سٹارٹ کر لیجئے ‘ محبوب خالق کائنات حضرت محمدﷺکے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ کرام کے مشورے سے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو جانشین رسولﷺ مقرر کیا گیا۔عالم اسلام کے پہلے امیرالمومنین منتخب ہونے کے اگلے روز آپ نے قصد کیا کہ آپ اپنی تجارتی سرگرمیوں کا آغاز کریں تاکہ معاشی معاملات کو انجام دیا جا سکے۔ راستے میں حضرت عمرؓ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے آپ سے عرض کیا ” یا امیرالمومنین ! آپ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟“ آپ نے فرمایا ”تجارت کی غرض سے بازار کی طرف جارہا تھا“۔ حضرت عمر نے فرمایا ” اب آپ امیر المومنین ہیں‘ تجارت اور مسلمانوں کے باہمی معاملات ایک ساتھ کیسے چلیں گے ؟“۔ آپ نے فرمایا ” بات تو آپ (عمر) کی درست ہے مگر اہل وعیال کی ضروریات کیسے پوری کی جائیں گی؟“۔ حضرت عمر نے عرض کیا ” آئیے حضرت ابوعبیدہ ؓکے پاس چلتے ہیں اور ان سے مشورہ کرتے ہیں۔ (واضح رہے کہ حضرت ابوعبیدہ ؓکو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امت کا امین مقرر کیا تھا اسی لئے بیت المال کی نگرانی بھی آپ ہی کے ذمہ تھی) حضرات شیخین ‘امین الامت کے پاس پہنچے اور صورتحال ان کے سامنے رکھ دی۔ امین الامت نے فرمایا ” اب ابوبکرؓ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔ مسلمانوں کے مسائل اور معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ خلافت کے معاملات کو نبٹانے کے لئے طویل وقت اور سخت محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر خلیفہ تجارت کریں گے تورعایا کا حق ادا نہ کرسکیں گے۔ لہذا ان کی اور ان کے اہل وعیال کی ضرورت کےلئے بیت المال سے وظیفہ مقرر کردینا چاہیے۔ اب سوال یہ تھا کہ وظیفہ کی مقدار کتنی ہو؟ اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ ” جتنا مدینے کے کسی ایک مزدور کی آمدنی ہوتی ہے اتنا کافی رہے گا“۔ عرض ہوا کہ اتنے کم سے تو آپ کا گزارہ نہیں ہو سکے گا۔ آپ نے فرمایا ”اگر اس سے ایک عام آدمی کے گھر کا گزارہ ہوسکتا ہے تو خلیفہ کا بھی ہونا چاہیے اگر نہیں ہوسکتا تو اس کا مطلب ہے کہ ایک عام مزدور کس طرح گزارہ کرتا ہوگا“۔ چناچہ خلافت اسلامی کے اس پہلے تاجدار کا وظیفہ ایک عام مزدور کے مساوی مقرر ہوا۔ بعد ازاں آپ نے اس قلیل رقم میں مزید کمی کروا دی۔ واقعہ یوں ہے کہ آپ کو میٹھا مرغوب تھا۔ اب روز جو مقدار بیت المال سے عطا ہوتی اس میں ہی گزارہ کرنا دشوار تھا چہ جائیکہ میٹھا کہاں سے آتا ؟ آپ کی زوجہ محترمہ نے یہ کیا کہ روز جو آٹا بیت المال سے آتا تھا اس میں سے چٹکی چٹکی جمع کرنا شروع کردیا۔ جب اس کی مقدار زیادہ ہوگئی تو ایک روز میٹھا تیار کرکے دسترخوان پر رکھا گیا۔ آپ نے فرمایا ”یہ کہاں سے آیا“ زوجہ محترمہ نے عرض کیا” گھر میں بنایا ہے“آپ نے فرمایا ” جو مقدار ہم کو روزانہ ملتی ہے اس میں تو اس کی تیاری ممکن نہیں“ ۔زوجہ محترمہ نے سارا ماجرا عرض کیا۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا” اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہم کو اتنی مقدار ( جو روز کفایت کی گئی) ہم کو روزانہ زیادہ ملتی ہے اس سے کم میں بھی گزارہ ہوسکتا ہے۔ لہذا اس کو بیت المال میں داخل کروا دیا جائے اور آئندہ سے روزانہ ملنے والے وظیفے سے یہ مقدار کم کردی جائے“۔یہ ایک تاریخ ساز حقیقت ہے کہ خلیفہ المسلمین، جانشین پیغمبر حضرت ابو بکر صدیق نے خلافت کا منصب و ذمہ داری سنبھالتے ہی پہلے روز اپنے خطبے میں جس منشو ر کا اعلان فرمایا پورے دور خلافت میں اس کے ہر حرف کی مکمل پاسداری کی۔ آپ کی دینی ومذہبی خدمات تاریخ اسلام کا روشن باب ہیں۔ اسی طرح آپ ایک اور مثال لے لیجئے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق ؓ کی جن کا فرمان تھا کہ” دریائے فرتات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوکا مرے تو اسکا بھی حساب مجھ سے مانگا جائے گا“۔ خلافت راشدہ کے ایسے ہزاروں نہیں لاکھوں واقعات تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہیں جو ابد تک انسانیت کےلئے مشعل راہ ہیں ۔ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا تھا قیام پاکستان کا بنیادی مقصد ہی اسلام تھا ۔ لیکن ہمارے ملک پر قابض حکمرانوں نے اپنی بادشاہت قائم کررکھی ہے اور قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ لاکھوں افراد کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہوتی اور ہزاروں بھوکے مر جاتے ہیں‘ بھوک کے ستائے لوگ خود کشیاں کررہے ہیں لیکن حکمرانوں کی عیاشیاں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور ٹھاٹھ باٹھ کی کوئی حد نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے ایک وقت کے کھانے کے خرچ سے ہزاروں بھوکے اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں ۔ لوگوں میں اپنے اور بیوی بچوں کے علاج معالجہ کروانے کی طاقت نہیں اور حکمرانوں کو سوئی بھی چبھ جائے تو لندن سے پیچھے کوئی ڈاکٹر نہیں ملتابلکہ حکمرانوں کے کتوں کا علاج بھی ماہر ڈاکٹروں سے بھاری فیسیں ادا کرکے کروایا جارہا ہے۔ نام نہاد جمہوریت کے یہ دعویدار عوام کو اپنی رعایا اور غلام سمجھتے ہیں اور اپنے محلوں میں عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ عوام لاقانونیت، بدامنی، دہشت گردی، بےروزگاری، بھوک کی آگ میں جل رہی ہے کسی کی جان محفوظ ہے نہ مال ۔ ذرا اندازہ کیجئے ایک طرف وہ وقت تھا جہاں خلیفہ وقت کو ایک جانور کے بھوکا مرنے کا احساس ستایا کرتا تھا اور دوسرا یہ دور ہے کہ بھوک و افلاس کے ستائے لوگ نہ صرف خود کشیاں کرنے بلکہ اپنے بچوں تک کو بیچ دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ ایک طرف ماں اپنے جگر گوشوں کو پانی بھرے گڑھے میں غوطے دیکر مار دیتی ہے تو دوسری طرف باپ اپنے ہاتھوں سے قبریں کھود اپنے معصوم بچوں کو یہ کہہ کر پانی میں زہرملا کر پلا دیتا ہے کہ ”لو بیٹا یہ پی لو پھر کبھی بھوک نہیں لگے گی“ اور خود بھی زہر پی لیتا ہے۔ لیکن حکمران اور ان کے عزیز رشتہ دار ایسی شاہانہ زندگیاں گزار رہے ہیں جن کا ایک عام انسان تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر سو بھوک کا دور دورہ ہے ایک طرف عوام بھوک، افلاس اور قحط سالی کا شکار ہیں تو دوسری طرف ہمارے حکمران اقتدار کی بھوک سے تڑپ رہے ہیں ۔ دولت، شہرت، طاقت اور انسانی جسموں کے بھوکے ان سیاستدانوں نے غریب عوام کے منہ سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے ۔ حکمرانوں کے پالتو کتوں کی مہنگے ترین امپورٹڈ فاسٹ فوڈ اور اعلیٰ کھانوں سے تواضع کی جارہی ہے اور غریبوں کے بچے کچرا کنڈیوں پر خوراک کی تلاش میں چکرلگاتے نظر آتے ہیں ۔
Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 11270 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.