چند اہم فیصلے جو بہت ضروری ہیں وگرنہ

 امریکہ صرف اپنے مفادات کا پکا ہے وہ کسی کا بھی دوست اور ہمدرد نہیں ہوسکتا ۔ 1965ء اور 1971ء پاک بھارت جنگوں کے دوران امریکہ کا کردار کسی سے ڈھکاچھپا نہیں ہے ۔ پھر بھی ہمارے حکمرانوں کے سر پر امریکہ کی جھوٹی محبت اورڈالرو ں کاایسا نشہ طاری ہے کہ وہ ناک بھی رگڑتے ٗ جوتے بھی کھا تے ہیں اور بھیک بھی مانگتے ہیں کبھی فقیروں کی بھی کوئی عزت ہوا کرتی ہے۔یہ ڈالر کس کے اکاؤنٹ میں جاتے ہیں کچھ پتہ نہیں۔ایک عدالتی کمیشن خیرات میں ان ڈالروں کے حساب کے لیے بھی قائم ہونا چاہیئے ۔9/11 کاسانحہ امریکہ میں رونما ہوا لیکن غصہ پاکستان پر نکالا گیا ۔ہم نے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرکے اونٹ کو خیمے میں داخل ہونے کی خود دعوت دی۔مشرف ٗ زرداری ٗنواز شریف اور عمران سب کے سب امریکی غلاموں کا مختلف روپ ہیں ۔ جو امریکی اشیر باد سے ہی اقتدار میں آتے ہیں اسی لیے سر اٹھاکر بات کرنے کی جرات نہیں کرتے ۔ جب تک ڈالروں کی بھیک ما نگی جاتی رہے گی نہ تو ڈارون حملے رک سکتے ہیں اور نہ ہی ملک میں سی آئی اے کا بچھا ہوا جال ختم ہوسکتا ہے ۔ اب جبکہ امریکی ڈارون حملے میں طالبان لیڈر ملا منصور اختر کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے ۔ذہنوں میں کئی سوال اٹھ رہے ہیں ۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگرہمارا دفاع واقعی مضبوط ہے تو امریکی ڈارون بچ کے کیسے نکل گئے ۔کیا اب بھی ہمارے ریڈار حالت سکون میں تھے اگر جواب نفی میں ہے تو پھر ہماری فضائیہ نے ڈارون کو اپنی حدود میں داخل ہونے سے کیوں نہیں روکا۔ چند سال پہلے ایران میں بھی ڈارون داخل ہوئے تھے لیکن ایرانی فضائیہ نے ڈارون تباہ کرکے ہمیشہ کے لیے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنالیا ۔جبکہ پاکستانی حکمرانوں کی زبانیں گنگ اور خارجہ پالیسی صفرنظر آرہی ہے ۔وزیر اعظم لندن میں خاموشی سے ملک کو عالمی سطح پر بدنام ہوتا دیکھ کر خاموش ہیں ۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے پر معذرت کی بجائے امریکی صدر کہتے ہیں کہ جہاں بھی دہشت گرد ہوں گے ہم وہاں کاروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں گویا لاہور ٗ کراچی اور اسلام آباد میں شک کی بنیاد پر ایسے حملوں کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔ کہا یہ جارہا ہے کہ ملامنصور ایران سے علاج کرواکر پاکستان کے راستے افغانستان جارہا تھا اگر واقعی ایسا تو ڈارون نے ایران میں حملے کی جرات کیوں نہیں کی۔کیا یہ سیاہی ہمارے ہی ماتھے پر ملنی تھی ۔ملا فضل اﷲ جو ہزاروں پاکستانیوں کا قاتل ہے وہ افغانستان میں موجود ہے امریکی ڈارون کو وہ کیوں نہیں آتا ۔ اس کا تو صاف مطلب ہے کہ ملامنصور اختر کو ہلاک کرنا نہیں پاکستان کو بدنام کرنا ہی مقصد تھا ۔ایف 16 کی سپلائی اور 80 کروڑ ڈالر کی امداد کے التوا اور سخت پابندیوں کے بارے میں اطلاعات نے ہمیں مزید ندامت کی گہرائیوں میں پھینک دیا ہے ۔ہم نے امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہزاروں فوجی شہیداور معذور کروا لیے ۔ بیس ار ب ڈالر سے زائد اثاثوں اور املاک کے نقصان کے ساتھ ساتھ پچاس ہزار شہری بھی قبروں میں پہنچا دیئے ۔ کراچی میں بحری فضائی اڈے پر کھڑے اربوں ڈالر کے اورین اواکس طیارے تباہ کروالیے ۔ کامرہ ائیرنوٹیکل کمپلیکس اور جی ایچ کیوپر یلغار بھی ہوئی۔ کیا یہ امریکی اشیربادکے بغیر ممکن ہوسکتا تھا ہرگز نہیں ۔اتنا نقصان اٹھانے سے کیا حاصل ہوا ۔چند کروڑ ڈالراور وہ بھی بھیک کی شکل میں ۔ یہ بھی پتہ نہیں امریکہ سے ملنے والے یہ ڈالر مشرف کی تجوری میں بندگئے یا زرداری کے ۔ایک طرف ملکی سا لمیت اور خود مختار ی داؤپر لگ چکی ہے تو دوسری جانب چیف جسٹس کی صدارت میں عدالتی کمیشن بنانے کے باوجود عمران خان گلی گلی کوچے کوچے جلسے کر کے اختلافات اور انتشار کی آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں ۔ باہمی تکرار ٗ شعلہ بیانی اور احتجاجی سیاست نے ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیاہے ۔ ۔ تیسری جانب الیکٹرونکس میڈیا کی حد سے بڑھتی ہوئی آزادی نے ایک ایسا ماحول قائم کردیا ہے جس نے پوری قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے ۔ ہر ٹی وی چینل پر نام نہاد مبصرین اور مفکرین کی لمبی تقریریں اور زہر آلودتجزیئے انسانی ذہن کو کچھ اس طرح مفلوج کررہے ہیں جسے آج نہیں تو کل آسمان سر پر ٹوٹ پڑے گا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جہاں ہمارے سیاست دان دشمن ممالک کے پے رول پر ہیں وہاں صحافیوں اور تجزیہ نگاروں میں بھی کچھ لوگ بھی ملک دشمنی میں بہت آگے نکل جاتے ہیں ۔ ملک پر جانیں قربان کرنے والوں کی کوریج کے لیے وقت اور جگہ نہیں لیکن جو شخص پاکستان کو سرے عام گالی دیتا ہے اس کی پریس کانفرنس کو تمام چینلز براہ راست دکھا کرقومی یکجہتی جنازہ نکالنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ زرداور ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والی صحافت کوکنٹرول کرنے کے لیے ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کرکے نافذ کرنا ہوگا جس میں حساس معاملات پر نہ مذاکرے ہوں اور نہ ہی کسی جلسے یا پریس کانفرنس کی براہ راست کوریج کی اجازت ہو ۔ ذہنوں کو مفلوج کردینے والی بریکننگ نیوز پرتو مکمل پابندی ہونی چاہیئے ۔وہ ٹی وی چینل جو بھارتی ڈرامے اور فلمیں دکھاکر بھارتی کلچر اور تہذیب کو پروان چڑھا رہے ہیں ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں۔جس طرح ہفتے میں گوشت کا دو دن ناغہ ہوتا ہے اسی طرح ٹی وی چینلز کو بھی دو دن بند رکھ کر قوم کو ذہنی سکون فراہم کرنا ہوگا ۔ وگرنہ نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں حد درجہ اضافہ ہوجائے گا۔ قصہ مختصر یہ کہ اب یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کہ ہمیں اگر غیرت مند قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو امریکی غلامی اور ڈالروں کی بھیک چھوڑ کر قومی خو دداری کو فروغ دینا ہوگا۔ اپناملک سنبھالا نہیں جاتا اور افغانستان کی فکر لاحق ہورہی ہے۔ یہ وہی افغانستان ہے جس کی خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ بلوچستان میں تخریب کاروائیوں کرتے ہوئے گرفتار ہوچکے ہیں۔بھارت ٗ ایران اور افغانستان مل کر پاکستان کو گھیرے میں لے رہے ہیں اگر اب بھی ہمیں ہوش نہ آئی تو شاید ملک کی سا لمیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا ۔جس طرح سانپ کو دودھ پلانے سے اس کا زہر نہیں مرتا اسی طرح بھارت افغانستان اور ایران سے بہتری کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے جو گوادر پورٹ کوناکام بنانے کے لیے سر جوڑ کر اکٹھے ہوچکے ہیں۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 673118 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.