فضائل ِ مولود کعبہ امیرا لمومنین امام حضرت علی ابنِ ابی طالب علیہ السلام قرآن کی نظر میں -1

لفظ "امام" اسلام کے کئی بنیادی تصورات کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اہلِ سنت کے لئے امام ایک عام سا لفظ ہے جو کسی بھی انسان کے لئے استعمال ہو سکتا ہے جس کو عزت دینی ہو یا جس کی دینی رہنمائی کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہو‘ تاہم اہلِ تشیع کے لئے اس لفظ کی بہت اہمیت ہے کیونکہ یہ امّت کی رہنمائی اس کے مستقبل اور اللہ کے احکامات سے وابستہ ہے۔

امامت اہل تشیع نقطہ نظر میں
شیعہ اسلام کے مطابق پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے آتے ہیں تاکہ لوگوں کی رہبری کریں اور اللہ کے دستور و احکام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ چونکہ پیغمبر ہمیشہ لوگوں کے درمیان نہیں رہے۔ لہٰذا ان کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے بعد اپنے جانشین مقرر کریں جو لوگوں کی رہبری کرے اور دین کے احکام اور دستور کی حفاظت کرے اور اسے لوگوں تک پہنچاتا رہے۔ جو شخص اللہ کی طرف سے لوگوں کی رہبری کے لئے منتخب کیا جائے، اسے امام کہا جاتا ہے۔ امام لوگوں کا رہبر اور دین کا محافظ ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے کچھ فرقے بالخصوص شیعہ حضرت محمد کے بعد12 اماموں کو مانتے ہیں جن میں سے پہلے امام علی علیہ السلام اور آخری امام مہدی علیہ السلام ہیں۔

امامت اہلسنت نقطہ نظر میں
فقہی اعتبار سے اہل سنت 4 اماموں کی تقلید کرتے ہیں۔(1)۔۔۔امام ابو حنیفہ(2)۔۔۔امام شافعی(3)۔۔۔امام احمد بن حنبل(4)۔۔۔امام مالک

اس کے علاوہ امام غزالی کو ان کی علمی خدمات کی بنا پر فقہ کا پانچواں امام کہا جاتا ہے‘ تاہم امام ابو حنیفہ کا مقلد ہونے کے باعث ان کو علیحدہ سے نہیں گنا جاتا۔

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السّلام (599 – 661) خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابو طالب علیہ السّلام اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد السلام اللہ علیہا ہے۔ آپ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ بچپن میں پیغمبر کے گھر انہی کے زیر نگرانی وہیں پرورش و تربیت پائی۔

شیعہ سنی مفکرین و محققین اور علمائے اہلِ سنت کے اعترافات کے مطابق مولائے موحدین امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام ایک جداگانہ شخصیت کے مالک تھے اور تمام صحابہ رسول اللہ میں ان کو انتہائی ممتاز مقام حاصل تھا۔ خدائے بزرگ نے سب سے زیادہ آیاتِ الٰہی انہی کی شان میں نازل فرمائی ہیں۔

ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں۔ یزید ابن رومان روایت کرتے ہیں کہ جتنی تعداد میں آیاتِ قرآنی علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہیں کسی اور کی شان میں نازل نہیں ہوئیں۔ اصبغ بن نباتہ علی علیہ السلام کے حوالے سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے، ایک چوتھائی ہم اہلِ بیت کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے، ایک چوتھائی سنت اور مثالوں پر مشتمل ہے اور ایک چوتھائی فرائض اور احکام کے بارے میں ہے۔ پس کرائمِ قرآن ہمارے لئے ہے، یعنی جن آیات میں جوانمردی، اخلاقِ حسنہ اور بزرگی بیان کی گئی ہے، واضح طور پر ان کا مصداق ہم اہل ِ بیت ہی ہیں۔
( حافظ الحسکانی کتاب شواہد التنزیل، حدیث 58، باب پنجم ، جلد1،صفحہ 43، اشاعت ِ اوّل اور شیخ سلیمان قندوزی حنفی کتاب ینابیع المودة، باب 42، صفحہ 148 اور دیگر )

(سورئہ مائدہ:آیت55)
ترجمہ: ”سوائے اس کے نہیں ہے کہ حاکم تمہارا اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور حالت ِ رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں“۔

تشریح: اس آیہ شریفہ جس میں ولایت ِ خدا اور ولایت ِرسول کے ساتھ ساتھ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام کا صریحاً ذکر ہے، کے شانِ نزول کے بارے میں شیعہ اور سنی مفسرین کا اتفاق ہے اور وہ لکھتے ہیں”ایک دن امیر المومنین علی علیہ السلام مسجد میں نماز میں مشغول تھے۔ جس وقت حضرت رکوع میں گئے تو ایک سائل مسجد میں داخل ہوا اور اس نے مدد کیلئے پکارا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حالت ِ رکوع ہی میں اپنی انگلی میں پہنی ہوئی انگوٹھی سائل کی طرف کردی۔ سائل نے وہ انگوٹھی خود آپ کی انگشتِ مبارک سے اتار لی اور خوشی خوشی مسجد سے باہر چلا گیا“۔

خدا کو علی علیہ السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ اس کی اہمیت کو بتانے کیلئے مندرجہ بالا آیت نازل فرمائی۔

اسی آیت کے شانِ نزول کے بارے میں حضرت ابوذر غفاری نے روایت بیان کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اس واقعہ کے خود شاہد تھے، نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے سر کو آسمان کی جانب بلند کیا اور خدا سے مناجات کیں اور یہ دعا مانگی ”خدایا! میں محمد تیرا نبی ہوں۔ خدایا! میرے سینے کو کھول دے اور میرے کام کو مجھ پر آسان کردے اور میرے لئے میرے خاندان میں سے علی کو میرا وزیر بنا دے اور اس سے میری کمر کو مضبوط کردے“۔

سورئہ بقرہ :آیت 274 میں اللہ تعالیٰ مولا علی علیہ السلام کو ایک نمونہ عمل قرار دیتا ہے
ترجمہ ”جو لوگ اپنے مال کو دن اور رات میں پوشیدہ اور ظاہر(راہِ خدا میں) صرف کرتے ہیں، ان کا اجر ان کے پروردگار کے پاس ہے اور ان کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے“۔(سورئہ بقرہ:آیت274)

تشریح: تمام علمائے شیعہ اور ایک کثیر تعداد علمائے اہلِ سنت نے روایاتِ متعدد کی بناء پر لکھا ہے کہ یہ آیت ِشریفہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور ابن عباس سے نقل کرتے ہوئے اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے پاس چار درہم تھے۔ ان میں سے ایک درہم آپ نے رات کو خیرات کیا، دوسرا درہم دن میں، تیسرا درہم چھپا کر اور چوتھا درہم ظاہراً مستحق افراد میں خیرات کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عمل کو بہت پسند کیا اور مندرجہ بالا آیہ شریفہ نازل فرمائی۔ اس طرح علی علیہ السلام کی شخصیت ِکامل کا تعارف کروایا۔

تعارفِ علی برائے منصب ِ امامت
ترجمہ ”اے رسول! جو کچھ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے (علی علیہ السلام کے بارے میں) نازل کیا گیا ہے، اسے پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو گویا تم نے اپنی رسالت ہی نہ پہنچائی اور اللہ آدمیوں کے شر سے تم کو محفوظ رکھے گا۔ بے شک اللہ منکروں کی رہبری نہیں فرماتا“۔(سورئہ مائدہ:آیت:67)۔

تشریح: یہ آیہ شریفہ حقیقت میں بہت ہی اہم پیغام کی حامل ہے یعنی وہ پیغام جس میں ذاتِ احدیت نے امیر المومنین علی علیہ السلام کو منصب ِ امامت اور وصیِ رسالت کیلئے اپنا واضح اور کھلا فیصلہ عوام تک پہنچوایا۔ اس آیت میں پیغمبر اسلام سے خطاب ہے اور نہایت تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے۔

”اے میرے رسول! وہ پیغام جو تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے، وہ لوگوں تک پہنچا دو اور اگر یہ پیغام تم نے لوگوں تک نہ پہنچایا تو ایسا ہے جیسے رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ اس حکم کے دینے کے بعد اپنے رسول کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی خوشخبری بھی دیتا ہے۔

ابن عساکر، سیوطی، ثعلبی اور بہت سے دوسرے علمائے اہلِ سنت روایات کی روشنی میں معتقد ہیں کہ اس آیت ِقرآنی میں جو حکم دیا گیا ہے، وہ تعارفِ ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام ہے۔ ابی سعید خدری سے روایت ہے کہ یہ آیت ِشریفہ غدیر خم کے موقع پر پیغمبر اسلام پر نازل ہوئی۔ ابن عباس سے اس آیت شریفہ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ یہ علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیت میں اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ علی کے بارے میں جو پیغام آپ کو بھیجا گیا ہے، اس کو لوگوں تک پہنچا دیں۔ اسی لئے پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے علی کا ہاتھ پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا”جس جس کا میں مولا ہوں، اس اس کا یہ علی مولا ہے۔ خدایا! علی کے دوستوں کو تو بھی دوست رکھ اور علی کے دشمنوں کو تو بھی دشمن رکھ“۔

علامہ طباطبائی تفسیر المیزان میں اس آیہ شریفہ کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ علمائے شیعہ اور اہلِ سنت سے روایات کی روشنی میں یہ بالکل واضح ہے کہ یہ آیت ولایت ِعلی کے سلسلہ میں پیغمبر خدا پر نازل ہوئی۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کچھ افراد(مخالفین وبدگمانِ لاعلم) آپ پر(اقرباء نوازی سے علی علیہ السلام جو آپ کے چچا زاد بھائی تھے، کو اقتدارِ حکومت دلوانے کی) الزام تراشی کریں گے۔ اس وجہ سے پیغمبر اسلام کو اس پیغام کو پہنچانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار تھا۔ یہاں تک کہ خدا کی جانب سے یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو یہ اطمینان دلایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دشمنوں کے شر سے بچائے گا۔ لہٰذا غدیر خم کے موقع پر آپ نے فرمایا ”جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہیں“۔

اسی طرح دیگر علمائے اہلِ سنت نے بھی اس کو نقل کیا ہے مثلاً حافظ ابوسعید سجستانی کتاب الولایہ اور بدرالدین حنفی کتاب عمدة القاری اور حموینی کتاب فرائد السمطین۔

تکمیلِ دین، اتمامِ نعمت ِ خدا اور تعارفِ علی بر منصب ِ امامت
”آج میں نے تمہارا دین تمہارے لئے کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کیا“۔(سورئہ مائدہ: آیت4)۔

تشریح : اس آیت کی شانِ نزول کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام حجة الوداع ادا کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے کہ آپ نے بمطابق حکمِ خدا سب کو غدیر خم کے مقام پر جمع کیا اور ان کو خطبہ دیا اور پھر علی کا دست ِ مبارک پکڑ کر بلند کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی جانشینی اور ولایت کا اعلان کیا۔ جب پیغمبر نے اپنا بیان تمام کیا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے مذکورہ بالا آیت کریمہ نازل ہوئی۔

معروف اہل سنت عالم دین حافظ الحسکانی اپنی کتاب شواہد التنزیل میں مندرجہ ذیل روایت ِ غدیر نقل کی ہے۔ وہ اسناد کے ساتھ ابو سعید خدری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے فرمایا”اللہ اکبر، اللہ کا دین مکمل ہوا اور اللہ کی نعمتیں تمام ہوئیں اور پروردگار راضی ہوا میری رسالت پر اور میرے بعد ولایت ِعلی ابن ابی طالب علیہما السلام پر“۔

مزید لکھتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ فرمانے کے بعد یہ بھی کہا”جس کا میں مولا ہوں، اس کے علی مولا ہیں، خدایا! جو کوئی علی کو دوست رکھے، تو بھی اسے دوست رکھ اور جو کوئی علی سے دشمنی رکھے، تو بھی اس سے دشمنی رکھ اور تو اس کی مدد فرما جو علی کی مدد کرے اور اس کو ذلیل و رسوا کردے جو علی کو رسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے“۔

علی ایک عظیم رہنما
ترجمہ ”(اے رسول)! سوائے اس کے نہیں ہے کہ تم تو ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کیلئے ایک ہادی ہوا کرتا ہے“۔(سورئہ رعد:آیت7)۔

تشریح: اس سے پہلے کہ ہم روایاتِ مربوط کو دیکھیں اور شانِ نزول پر غور کریں، مناسب ہوگا کہ ہم منذر(ڈرانے والا) اور ہادی(ہدایت کرنے والا) کے درمیان فرق واضح کریں۔ علمائے تفسیر کے نزدیک منذر وہ ہوتا ہے جو گمراہوں کو دلائل و مشاہدات کے ساتھ صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ نہ ماننے کی صورت میں گمراہی کے نتائج سے ڈراتا ہے۔ یہی پیغمبرانِ خدا کا کام اور ذمہ داری ہوتی ہے، لیکن ہادی وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے راہِ راست پر آنے کے بعد ان کی پیشوائی کرتا ہے بلکہ حقیقت میں ان کو صراطِ مستقیم سے بھٹکنے سے باز رکھتا ہے۔ یہ اولیاءاللہ کی اوّلین ذمہ داری ہوتی ہے۔ پس رسول شریعت کو نافذ کرتا ہے اور امام اس شریعت کی حفاظت کرتا ہے اور لوگوں کی ہدایت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔

اب اس فرق کے ساتھ ہم روایات کی طرف چلتے ہیں جو اس آیہ شریفہ کے ضمن میں بیان کی گئی ہیں طبری ایک مشہور عالمِ دین اور دانشمند ہیں جن کا تعلق اہلِ سنت سے ہے۔ اپنی تفسیر میں اس آیت کے بارے میں یہ روایت نقل کرتے ہیں ”ابن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی تو پیغمبر اسلام نے اپنا ہاتھ سینہ پر رکھا اور کہا کہ میں منذر ہوں اور ہر قوم کیلئے رہنما ہوتا ہے اور پھر علی علیہ السلام کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”تم ہی ہادی ہو ”اے علی !میرے بعد تمہارے وسیلہ سے ہی ہدایت یافتہ لوگ صراطِ مستقیم کی ہدایت پاتے رہیں گے“۔

حافظ ابو نعیم اصفہانی اور بہت سے دوسروں نے بھی یہ روایت نقل کی ہے جبکہ معروف عالم دین حموینی کتاب ”فرائد السمطین“ میں ابوہریرہ اسلمی سے اس طرح روایت کرتے ہیں۔ ”یعنی اس آیت میں ہادی سے مراد علی ابن ابی طالب علیہما السلام ہیں“۔

جاری ہے
آپ کی آراء راقم کے لئے باعث رہنمائی اور حوصلہ افزائی ہوگی
Tanveer Hussain Babar
About the Author: Tanveer Hussain Babar Read More Articles by Tanveer Hussain Babar: 85 Articles with 111986 views What i say about my self,i am struggling to become a use full person of my Family,Street,City,Country and the World.So remember me in your Prayers.Tha.. View More