نشانِ رَاہ - زندہ و جاوید تحریروں کا مجموعہ

شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کو ہم سے بچھڑے ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے،16فروری 1948ء کو سہارن پور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی” جامعہ نعیمیہ“ گڑھی شاہو لاہور کے بانی مفتی محمد حسین نعیمی( جنہوں نے 1950 جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی) کے صاحبزادے تھے، آپ نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی، ڈاکٹر صاحب نے ایم،اے، ایل ایل بی اور پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی رویت ہلال کمیٹی کے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن بھی رہ چکے ہیں، انہوں نے جامعہ نعیمیہ کو کمیپوٹر جیسی جدید تعلیم سے آراستہ کیا، وہ ایک متحرک مذہبی رہنما تھے، انہوں نے تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھرپور حصہ لیا اور کئی بار جیل گئے، ڈاکٹر صاحب تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلسوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے، چار سال قبل انہوں نے تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پلیٹ فارم سے امریکہ کے خلاف ایک بہت بڑی ریلی نکالی، جس پر انکے خلاف انسداد دہشتگردی کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا، لیکن وہ باعزت بری ہوگئے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی ہمیشہ دین کی خدمت کو ترجیج دیتے تھے، انہوں نے حکومت کی طرف سے کبھی کوئی عہدہ قبول نہیں کیا۔

ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے10جون 2009ء کو ایوان اقبال لاہور میں پاکستان بچاؤ کنونشن سے اپنے آخری خطاب میں فرمایا تھا کہ” علماء نے پاکستان بنایا تھا اور اب مل کر اسے بچائیں گے اور ضمن میں وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔“آپ کی شہادت آپ کے ارشاد کی آئینہ دار ہے،12 جون 2009ء کو جمعہ کے روز جامعہ نعیمیہ میں ایک خودکش حملے میں شہید ہونے والے ڈاکٹر سرفراز نعیمی کا شمار ملک کے اعتدال پسند سوچ رکھنے والے مذہبی رہنماؤں میں ہوتا تھا، ڈاکٹر سرفراز نعیمی بے باک اور نڈر شخصیت کے مالک تھے، انہوں نے خودکش حملوں کے حرام ہونے کا نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ وہ پاکستان میں انتہا پسندی کے بھی سخت مخالف تھے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ پاکستان کو انتہا پسندی سے بچانا پوری قوم کا اولین فریضہ ہے، جسے ادا کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے، انہوں نے سوات اور مالا کنڈ کے فوجی آپریشن کی کھل کر حمایت کی اور ملک میں جاری شدت پسندی کی لہر کے خلاف متحرک رہے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے فتنہ کا قلع قمع کرنے کے لئے 22 دینی جماعتوں پر مشتمل ایک پلیٹ فارم” تحفظ ناموس رسالت محاذ “بھی تشکیل دیا۔

ڈاکٹر سرفراز نعیمی بے لوث اور انتہائی سادہ شخصیت کے مالک تھے، آپ ایک سچے عاشق رسول تھے اور آپ نے اپنی ساری زندگی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزار دی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی وہ بزرگ شخصیت تھے جن کے رگ و پے میں وطن عزیز کی محبت اور قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، حق گوئی و بے باکی آپ کا طرہ امتیاز اور ہر دور میں باطل کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے رہنا آپ کا خاصہ تھا، درحقیقت ایمان، حق گوئی اور عقیدہ کامل پر ڈٹ کر رہنے اور ”بلغو اعنی ولوایة“ پر عمل پیرا ہونے والے مجاہد شہید پاکستان ڈاکٹر سرفراز نعیمی ایک ایسے زندہ و جاوید کردار کا نام ہے جس کی زندگی نمود و نمائش، تصنع و بناوٹ اور دنیاداری سے پاک تھی، ایک بڑے دارالعلوم کے ناظم اعلیٰ، مفتی اور صدر مدرس کے باوجود عاجزی و انکساری اور سادہ لوحی آپ کی شخصیت کے نمایاں وصف تھے، ڈاکٹر سرفراز نعیمی ریڈیو، ٹی وی کے مقرر اور سرکاری و دینی حلقوں میں نمایاں پہچان رکھنے کے باوجود نہ عالموں جیسا رعب و دبدبہ رکھتے تھے اور نہ ہی دانشوروں جیسی تکلف و نزاکت، معاملہ فہمی، دور اندیشی اور تمام مذاہب و مسالک کے ساتھ رواداری آپ کی پہچان اور وجہ شناخت تھی، بلاشبہ آپ ایک ایسے مذہبی سکالر تھے، جن کو قرآن اور حدیث پر مکمل عبور حاصل تھا، آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی اور فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے، یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ ڈاکٹر صاحب دین کی سربلندی اور وطن عزیز کے استحکام کے لئے جہاد کرتے ہوئے شہادت کی عظمیٰ کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ مفتی محمد حسین نعیمی کے لائق اور قابل فخر فرزند کی زندگی کا اک اک لمحہ اسلام اور پاکستان کیلئے وقف تھا، جرات و استقامت کے پیکر ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے درس و تدریس کے ساتھ لکھنے پڑھنے پر بھی توجہ دی، آپ نے باقاعدگی سے 1996ءسے 1998کے دوران ”نشان راہ“ کے عنوان سے روزنامہ جنگ میں کالم لکھے، آپ کی انہی بکھری ہوئی تحریروں کو جمع کر کے ”نشان راہ “کے عنوان سے آپ کی زندگی میں شائع کیا گیا، زیر نظر کتاب ”نشان راہ دوم“ آپ کے انہی کالموں کا مجموعہ ہے جو کہ آپ کی شہادت کے بعد شائع ہوئی ہے، ڈاکٹر صاحب نے اپنے اِن مضامین میں قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اصلاح کار کا آغاز سب سے پہلے اپنی ذات سے کرنا چاہیے، آپ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم معاشرے میں اپنے اپنے کردار کی اصلاح کرنا شروع کردیں اور اپنے افعال و اعمال کو بہتر بنالیں تو معاشرے کے بہت سے مسائل از خود حل ہوسکتے ہیں۔

اس حوالے آپ اپنے ایک مضمون”قربانی مانگنے والے“ میں لکھتے ہیں کہ” ہمارے معاشرے میں عجیب طرح کی روایت قائم ہوتی چلی جارہی ہے، ہر ایک بغیر امتیاز، تفریق اور تحریر کے دوسروں سے قربانی دینے کی درخواست کرتا نظر آتا ہے، بڑے خلوص سے، درد دل سے، شعور کی اتھاہ گہرائیوں سے، ملک کے نام پر، وطن کے نام پر، قوم کے نام پر، بگڑی ہوئی معیشت کے نام پر، دشمن طاقتوں کے حوالے سے، عالمی تناظر میں قربانی دینے کی اپیلیں ہورہی ہیں، بھکاریوں کی مانند ہاتھ پھیلا پھیلا کر، سائلانہ، ملتجانہ اور عاجزانہ انداز میں قربانی دینے کیلئے آمادہ کیا جارہا ہے۔“آگے چل کر ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں”آقائے دو جہاں حضور ختمی مرتبت، رحمت دو عالم، نور مجسم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمیں یہی سبق سکھا رہی ہے کہ جہاد کے موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بطون مبارک پر اگر پتھر بندھا ہوا تھا تو آقائے دو جہاں کے بطن مبارک پر اس سے کہیں زیادہ پتھر بندھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مبارکہ یہی تعلیم دے رہی ہے کہ قربانی طلب کرنے سے پہلے قربانی پیش کی جائے، ماضی کی عظیم المرتبت ہستیوں کے عظیم کارناموں کو بھول جانے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ قوم کے قائدین اگر آج قربانی طلب کرنے سے پہلے قربانی دینے کی سنت پر عمل پیرا ہوں تو قوم آج بھی اپنے قائدین کو دل و جان سے زیادہ چاہتی ہے۔“

ڈاکٹر سرفراز نعیمی اپنے ایک اور مضمون ” ایٹمی دھماکہ ہی مستقل علاج ہے“ میں ارباب اقتدار کی بزدلی اور ابن الوقتی کو نمایاں کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”قوموں کی زندگی کی باگ دوڑ جب مصلحت کوش، مصلحت اندیش اور مصلحت بین حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اور مصاحبوں کے ہاتھ میں آجاتی ہے تو پھر وہ اقتدار کی ”لیلیٰ“ کے فراق کا تصور کرتے ہی مصلحتوں کے نام پر حقائق کا مقابلہ کرنے کے بجائے مستقبل کی نادیدہ حالات کا معروضی انداز میں اس ”درد سوزی“سے نقشہ کھینچتے ہوئے تصویر کشی کرتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید مستقبل کی باگ دوڑ کی تمام لگامیں انہوں نے اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئی ہیں اور مستقبل کی ترقی کی راہیں اُن کے سامنے مؤدبانہ انداز میں ہاتھ باندھے موجود ہیں اور صرف ان کے چشم نازنین کے اشاروں کی منتظر ہیں، عقل و خرد، بصیرت و بصارت کا واسطہ دیتے ہوئے، فہم و فراست کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے احتیاط و اجتراز کا نعرہ لگاتے ہوئے اور عالمی تناظرات کے دامن میں چھپ کر وطن کے تحفظ کی قسم کھانے والوں کو انہی تیروں سے چھلنی کرنے لگتے ہیں جو تیر اصل میں دشمن کے ہاتھوں میں ہونے چاہئیں۔“

ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے یہ معرکة الآراء مضامین علمی اور ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سادہ اور عام فہم انداز رکھتے ہیں اور آپ کے مضامین میں دور حاضر کے عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ وقت کی ضرورت اور افادیت بھی جھلکتی ہے، ڈاکٹر صاحب کا طرز اسلوب سادہ اور ایسا دل نشیں ہے کہ قاری اِس کے سحر سے نکل نہیں پاتا، آپ کی تحریر دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور اہل مغرب کے افکار ناپختہ کی قلعی کھولتی ہے اور مغربی علوم و فنون سے مرغوب مسلمانوں کو اسلام کی روشنی سے دیکھنے، سمجھنے اور پرکھنے کا قرینہ عطا کرتی ہے، آپ کا طرز تحریر ناصحانہ ہی نہیں انتہائی مشفقانہ بھی ہے، ڈاکٹر صاحب کے یہ کالم روز مرہ کے دینی معاملات، معاشرتی اور سماجی رویوں کے عکاس اور مقصدیت، لطافت اور جاذبیت سے لبریز ہیں، زیر نظر کتاب میں آپ کے 43کالموں کا جناب محمد ضیاءالحق نقشبندی صاحب نے انتخاب پیش کیا ہے اور اسے ادارہ” نعیم المصنفین“ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور، فون نمبر92426293289 نے شائع کیا ہے، بقول پیرزادہ اقبال احمد فاروقی صاحب ”ضیاءالحق نقشبندی نے بکھرے ہوئے پتوں کو اکٹھا کرکے پھولوں کے گلدستے بناکر قارئین کی محفل مطالعہ کو سجادیا ہے،انہوں نے ذروں کو سمیٹ کر آفتاب بنادیا ہے، قطروں کو اکٹھا کر کے دریا بہا دیئے ہیں۔“برادرم محمد ضیاءالحق نقشبندی کی یہ گرانقدر کاوش قابل مبارکباد اور لائق مطالعہ ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313671 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More