ضمنی انتخابات:جرم سیاستدانوں کا ہے تو عوام اور قومی خزانہ کیوں بوجھ اٹھائے؟

کیا آپ لوگوں کو کسی سرکاری یا نجی کمپنی کے کسی کام کا ٹینڈر بھرنے کا موقع ملا ہے یا اس کی معلومات ہیں؟ اگرچہ یہ ہماری فیلڈ نہیں ہے لیکن کچھ موٹی موٹی باتیں ہمیں معلوم ہیں کہ جس کام کا ٹھیکہ دیا جارہا ہوتا ہے اس کے لئے خواہشمند کمپنیوں اور اداروں سے ٹینڈر طلب کئے جاتے ہیں وہ خواہش مند کمپنیاں اور ادارے کام کی نوعیت کے حساب سے کام کی لاگت کا ایک تخمینہ لگاتے ہیں اور وہ اس کی کوٹیشن بنا کر دیدی جاتی ہے۔ اب جو کمپنی ٹھیکہ دے رہی ہوتی ہے وہ تمام کوٹیشنز کا جائزہ لیتی ہے اور اس میں دو باتوں کو ترجیح دی جاتی ہے اول یہ کوٹیشنز کا موازنہ کیا جاتا ہے اور جو کمپنیاں یا ادارے کم از کم لاگت میں مطلوبہ کام پورا کرنے کی پیش کش کرتی ہے ان میں سے کم از کم تین یا چار کو منتخب کرلیا جاتا ہے اور پھر یہ دیکھا جاتا ہے ان منتخب شدہ کمپنیوں کی مارکیٹ میں کیا ساکھ (گڈ وِل) ہے اس کا ریکارڈ کیسا ہے۔؟ اس کے کام کا معیار کیا ہے؟ آیا وہ مطلوبہ کام اپنے مقررہ وقت پر مکمل کر بھی سکے گا یا نہیں؟ ان تمام باتوں کے بعد کسی ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی پیشکش کے مطابق کام شروع کرے اور اس میں دو باتیں سب سے اہم ہوتی ہیں پہلی بات تو یہ کہ جس کمپنی کو بھی ٹھیکہ دیا جاتا ہے وہ کام شروع کرنے سے پہلے مکمل لاگت کا دس یا بیس فیصد حصہ بطور زر ضمانت وہاں جمع کراتی ہیں تاکہ اگر کمپنی ٹھیکہ لینے کے بعد کام ادھورا چھوڑ جائے تو اس کا زر ضمانت ضبط کرلیا جاتا ہے اور دوسری بات کہ ایسی کمپنی کو بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے کہ اب آئندہ اس کمپنی کو کسی بھی ٹینڈر میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ اور پھر یہ ہوتا کہ کوئی کمپنی اپنی دی ہوئی کوٹیشن اور معاہدے کے مطابق وہ کام نہ کر سکے اور کام چھوڑ جائے تو پھر اسی کام کے لئے نیا ٹینڈر نہیں جاری کیا جاتا بلکہ اس صورت میں جو کمپنی دوسرے نمبر پر ہوتی ہے اس کو اس کی پیش کش کے مطابق یہ ٹھیکہ دیدیا جاتا ہے۔ کیونکہ اگر اب نئے سرے سے ٹینڈر جاری کیا جائے تو ایک تو یہ کمپنی یا ادارے کے پیسے اور وقت کا زیاں ہوتا ہے اور پھر ایک نئے سرے سے سارے کام کو کیا جاتا ہے، اور اس میں یہ عین ممکن ہوتا ہے کہ کام مکمل نہ کرنے والی کمپنی یا گروپ کسی دوسرے نام سے یا دوسری کمپنی کی آڑ لیکر دوبارہ اس ٹینڈر میں شامل ہوجائے۔

قارئین کرام یہ کچھ موٹی موٹی باتیں تھیں جو کہ ہم نے آپ سے بیان کی ہیں یقیناً اس کی تفصیلات میں جائیں گے تو مزید باریکیاں بھی ہونگی جو ہمارا موضوع نہیں ہیں۔ اس وقت آپ لوگوں سے یہ ساری باتیں ہم اس لئے بیان کر رہے ہیں کہ اس وقت ملک میں ضمنی الیکشن کا موسم آیا ہوا ہے۔ کئی فراڈ ارکان اسمبلی کی جعلی ڈگری کے باعث ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی گئی اور پھر وہاں ضمنی الیکشن منعقد کرائے گئے۔ کئی حلقہ جات میں الیکشن ہوچکے ہیں اور کئی حلقہ جات میں ابھی ہونا باقی ہیں۔ محترم قارئین یہ کتنی افسوس اور ظلم کی بات ہے کہ ایک فرد ایک جعلی ڈگری کی بنیاد پر ایک الیکشن جیتتا ہے، اس کی بنیاد پر وہ اسمبلی میں جانے کا حق حاصل کرلیتا ہے۔ ساری مراعات حاصل کرلیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ جناب وہ تو جس ڈگری کی بنیاد پر اسمبلی کا رکن بنا ہے وہ ڈگری ہی جعلی تھی۔ اس رکن کو محض نا اہل قرار دے کر اسمبلی سے فارغ کیا جاتا ہے۔ اور جب ضمنی الیکشن ہوتے ہیں تو وہی فرد ایک بار پھر الیکشن میں حصہ لیتا ہے اور پھر رکن اسمبلی بن کر قانون اور آئین کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے۔ اور تو اور چور رکن اسمبلی بھی موجود ہیں جو کہ چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہیں اور ان کو عدالت نے بری نہیں کیا بلکہ مدعی نے ان کو معاف کردیا تو عدالت نے یہ مقدمہ خارج کرلیا ہے اور وہ رکن اسمبلی اب نہایت ڈھٹائی سے یہ کہتی ہیں کہ چونکہ جس بنیاد پر مجھے نا اہل قرار دیا گیا تھا وہ مقدمہ ختم ہوگیا ہے اس لئے اب میں دوبارہ عدالت سے رجوع کرونگی کہ میری نااہلی کا فیصلہ واپس لیا جائے اور میری اسمبلی کی رکنیت بحال کی جائے۔( شرم تم کو مگر نہیں آتی )

اب جب ضمنی الیکشن ہونگے تو اس میں حکومت کا لاکھوں روپے کا خرچہ ہوگا کیوں کہ اب نئے سرے سے یہاں کاغذات جمع کرائے جائیں گے، بیلیٹ پیپر پرنٹ کرائے جائیں گے، اس حلقے میں ایلکشن ڈیوٹی کے لئے کئی اسکول ٹیچرز اور عدالتی اسٹاف کو تعینات کیا جائے گا اور ان کو اس الیکشن ڈیوٹی کی مد میں بھاری الاؤنس ادا کئے جائیں گے۔ الیکشن والے دن اس حلقے میں سرکاری چھٹی کا اعلان کیا جائے گا تو اس مد میں معیشت کو پہنچنے والا نقصان الگ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جنرل الیکشن کے مقابلے میں ضمنی الیکشن میں لڑائی جھگڑے زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ صرف کسی ایک یا دو حلقے میں انتخابات ہو رہے ہوتے ہیں اس لئے تمام پارٹیاں اپنی افرادی قوت کو مجتمع کر کے وہاں پہنچا دیتی ہیں جس کے باعث خون خرابہ ہوتا ہے۔ (گزشتہ رات لاہور میں بھی یہی ہوا، جبکہ اس سے قبل پنڈی میں ضمنی الیکشن کے دوران ایک فرد کو قتل کیا گیا، اس کے علاوہ بارہ مئی دو ہزار چار کو کراچی میں بھی ضمنی الیکشن کے دوران نو افراد کو قتل کیا گیا تھا) جبکہ اس ساری صورتحال میں نا اہل رکن اسمبلی کا کیا بگڑا؟ جواب ہے کہ کچھ بھی نہیں نہ اس کو کوئی اثر ہوا، نہ اس کی پارٹی اس سے متاثر ہوئی بلکہ نااہل رکن اسمبلی دوبارہ الیکشن میں کھڑے ہوجاتے ہیں ( اس کی مثال پی پی پی اور ن لیگ کے دو ارکان ہیں جنہیں عدالت نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر ناہل قرار دیا اور پارٹی نے ان لوگوں کو دوبارہ ٹکٹ دیے اور وہ لوگ دوبارہ الیکشن میں کھڑے ہوئے۔ )

قارئین کرام یہ ساری باتیں دیکھ کر ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس فورم کے ذریعے متعلقہ حکام تک اپنی بات پہنچائی جائے کہ الیکشن میں بھی ٹینڈر کا طریقہ اختیار کیا جائے، یعنی تمام امیدواروں سے پانچ سال کی تنخواہ اور مراعات کا بیس فیصد بطور زر ضمانت پیشگی وصول کیا جائے اور یہ رقم اسمبلی کی معیاد پوری ہونے پر ان کو واپس کی جائے، جبکہ کرپشن، فراڈ، چوری یا کسی بھی وجہ سے نا اہل قرار دئے جانے کی صورت میں ان کی یہ رقم بحق سرکار ضبط کرلی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی اخلاقی جرم میں ملوث ہونے کے باعث نا اہل ہونے کی صورت میں ان کو ادا کی گئی تنخواہ اور مراعات بھی واپس لی جائیں جبکہ نا اہل ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن کسی بھی حلقے میں ضمنی الیکشن نہ کرائے بلکہ چونکہ کرپٹ اور فراڈی رکن اسمبلی نے عوام کو دھوکہ دیا، قانون کی خلاف ورزی کی، اور ایک اہل شخص کا حق مارا اور چونکہ اس نے کرپشن اور فراڈ کے باعث اپنی سیٹ گنوائی ہے اس لئے اب اس کو یا اس کی پارٹی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس حلقے میں ضمنی الیکشن کا مطالبہ کریں بلکہ جنرل الیکشن میں ووٹوں کے لحاظ سے جو بھی امیدوار دوسرے نمبر پر تھا اس کو رکن اسمبلی بنا دیا جائے۔ تیسری اور آخری بات یہ کہ اگر ضمنی الیکشن نا گزیر ہی ہو تو پھر جس پارٹی کا امیدوار کرپشن یا اخلاقی جرم میں ملوث پایا گیا اور اس کو نا اہل قرار دیا جائے تو پھر نہ صرف اس امیدوار کو بلکہ اس کی پارٹی کو بھی کم از کم اس حلقے میں الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ دی جائے تاکہ آئندہ دوسری پارٹیوں کو بھی عبرت حاصل ہو اور وہ کرپشن اور فراڈ سے گریز کریں۔

یہاں ایک سوال یا اعتراض پیدا ہوسکتا ہے کہ اس طرح تو جو امیدوار دوسرے نمبر پر ہوگا وہ اپنے مخالف کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کرسکتا ہے ہمارے پاس اس کا حل بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی رکن اسمبلی مناسب طور سے اپنا کام کررہا ہو اور اس دوران خدانخواستہ اس کا انتقال ہوجائے یا اس کا قتل ہوجائے تو پھر اس صورت میں بھی ضمنی الیکشن کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ فرد جس گروپ یا پارٹی کا ہے اسی پارٹی کو اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے کسی دوسرے فرد کو اس حلقے سے اسمبلی کی رکنیت کے لئے نامزد کریں اور پھر اس نامزد فرد کو انتخابات کے بغیر براہ راست اسمبلی کی رکنیت دے دی جائے۔ اس قانون کا فائدہ یہ ہوگا کہ کسی مخالف امیدوار کے دماغ میں یہ خناس نہ آئے کہ میں اس کو راستے سے ہٹا دونگا تو اس کے بعد میرا نمبر آئے گا۔ بلکہ جب مخالف امیدوار کو پتہ ہوگا کہ مخالف کو راستے سے ہٹانے کے باوجود بھی یہ سیٹ مجھے نہیں ملے تو وہ اپنے ارادے سے باز رہے گا۔

قارئین محترم یہ ہماری تجاویز تھیں جو کہ ہم نے اپنے فہم و دانش کے مطابق دی ہیں ان میں کوئی کمی یا کمزوری رہ سکتی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان باتوں پر عمل کیا جائے تو مجموعی طور پر اس کے بہت مثبت اثرات مرتب ہونگے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1462113 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More