موت کی سیلفی!

 سرائے عالمگیر سے خبر آئی ہے کہ ایک نوجوان نے کسی جگہ سانپ دیکھا تو اسے پہلا خیال یہ آیا کہ کیوں نہ اس کے ساتھ ’’سیلفی‘‘ بنا لی جائے۔ اپنے تخیل میں رنگ بھرنے کے لئے اس نے اپنا موبائل نکالا اور سیلفی بنائی، وہ اپنی کارکردگی پر بہت خوش ہوا، مزید ورائٹی پیش کرنے کے لئے اس نے ایک اور سیلفی لی، پوز بدلتے گئے اور سیلفیاں بنتی گئیں، حتیٰ کہ معاملہ دسویں سیلفی تک جا پہنچااوربات اس سے آگے نہ بڑھ سکی، کیونکہ سانپ کے ساتھ اس قدر سیلفیاں بنانے کے بعد نوجوان کا اعتماد کافی بحال ہو چکا تھا۔ اسی بڑھتے ہوئے اعتماد کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیلفیوں کا سلسلہ دوسری دہائی تک نہ پہنچ سکا ، سانپ نے بے تکلف ہوتے ہوئے نوجوان کو ڈس لیا اور یہی سیلفی نوجوان کی زندگی کا آخری عمل تھا، جسے وہ لے کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگا۔ گزشتہ روز اسی قسم کی ایک خبرمظفر گڑھ سے بھی آئی، کسی انتہائی خطرناک کنارے پر کھڑے ہو کر سیلفی بناتے ہوئے نوجوان اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور دریا کے گہرے پانیوں کی نذر ہوگیا، سیلفی کی منزل کے حصول میں زندگی کا خاتمہ کر بیٹھا۔ سیلفی نہ بنی ، زندگی کا سفر بھی تمام ہوا۔

جب سے زندگی نے آئی ٹی کی سواری شروع کی ہے، رفتار قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ کمپیوٹر تو دور کی بات ہے، موبائل میں کچھ آپشنز کو ’ٹچ‘ کریں ، آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں سیلفی بنائی، کچھ آپشنز دیئے اور اپنی تصویر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ اس تیز رفتاری کے علاوہ آئی ٹی نے انسانی حواس پر بھی قبضہ کرلیا ہے، اور اس سے تیسرا کام یہ ہوا کہ اصطلاحیں بھی تبدیل ہوکر رہ گئی ہیں، محاورے بھی بدل گئے ہیں۔ اگر کبھی فرصت پا کر کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم اردو سے بھی بہت دور ہوتے جارہے ہیں۔ اردو کے محاورے اور ضرب الامثال کی کہانی دھندلا ہی نہیں رہی، منظر سے غائب ہو رہی ہے۔ بے شمار اصطلاحیں آتی اور ختم ہوتی جارہی ہیں، لوگ آئی ٹی کی زبان بولنے اور سمجھنے لگے ہیں۔ یہ تبدیلی صدیوں یا دہائیوں کی نہیں، بلکہ ایک آدھ عشرہ میں بات یہاں تک پہنچ گئی ہے،خاص طور پر نوجوان نسل کے ہاتھ جب سے موبائل آئے ہیں انہیں ایک لمحے کی فرصت نہیں، ان کی پہلی ترجیح ایس ایم ایس، وٹس ایپ، فیس بک اور دیگر سرگرمیاں ہیں۔ انہی آلات کی مدد سے انہوں نے اردو کو انگلش میں لکھنا شروع کردیا ہے، شارٹ ہینڈ کی روایت عام ہو چکی ہے، لفظ مکمل نہیں لکھا جاتا۔ گویا موبائل سے صرف سیلفیاں ہی نہیں بنائی جاتیں۔

سیلفی کی ٹرم بھی نئی برآمد ہوئی ہے، آپ اپنے موبائل سے اپنی ہی تصویر بنا سکتے ہیں، چہرے کے زاویے جیسے بھی بنائیں، تصویر کسی جاندار کے ساتھ بنائیں یا بے جان کے ساتھ، چڑیا گھر میں بندر کے ساتھ بنائیں یا کسی ویران جگہ پر سانپ کے ساتھ، کوئی پریشانی نہیں۔ تاہم سیلفی سے ایک بہت اہم رویہ سامنے آتا ہے، جسے عرفِ عام میں خودنمائی کہتے ہیں، اپنے ہاں یہ روایت بھی زور پکڑ چکی ہے کہ کسی بھی موڈ میں بیٹھے ہوئے یار لوگ سیلفی بناتے ہیں اور اگلے ہی لمحے اسے سوشل میڈیا کی نذر کردیا جاتا ہے، اور پھر ’لائیک‘ اور ’کمنٹس‘ کی کہانی شروع ہوتی ہے، بات آگے بڑھتی جاتی ہے، یوں ایک نئی اور طویل مصروفیت کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ خود نمائی کوئی قابلِ تحسین عمل تو ہے نہیں، لائیک اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ وہ لینے بھی ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنی پوسٹ کو دوسروں کے اکاؤنٹ میں ٹیگ بھی کردیتے ہیں، جو کہ بذاتِ خود ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔ گویا یہ ایک بے مقصد قسم کی مصروفیت ہے، جس میں ہماری نئی نسل کی بھاری اکثریت مگن ہو چکی ہے۔ خود نمائی کے خود غرضانہ عمل کے ساتھ اپنا اور دوسروں کا وقت بھی ضائع کیا جاتا ہے۔ سیلفی کو منفرد اور دلچسپ بنانے کے لئے بہت پاپڑ بیلے جاتے ہیں، جن کی دو تازہ مثالیں کالم کے آغاز میں دی گئی ہیں۔ موت کے منہ میں جاکر سیلفی بنانا کونسا تاریخی کارنامہ ہے، یا کونسی خوبی ہے کہ جس کی بنا پر کسی نوجوان کا نام دنیا میں روشن ہو جائے گا، اس کے والدین اور آنے والی نسلیں ان پر رشک اور فخر کرسکیں گی۔ یقینا ایسی موت پر ہر کوئی ہمدردی نہیں افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ ایسی موت خود کشی کے مترادف ہے۔ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے نوجوان بچوں کو قیمتی موبائل دیتے وقت انجام سوچ لیا کریں، کیونکہ موبائل اصلی موت کی جگہ اخلاقی موت کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔
د
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 430539 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.