خواجہ سرا

خواجہ سرا کسے کہتے ہیں۔ یہ سوال عموماً ہر ایک کے دماغ میں کبھی نہ کبھی تو آیا ہی ہوگا۔ کچھ لوگ تو بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ خواجہ سرا جنسی لحاظ سے نہ مرد ہوتا ہے نہ عورت ۔ مگر آج خواجہ ون کے متعلق تاریخ کے جھروکوں پر نظر ڈٖالیں گے ۔ خواجہ سراؤں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود اک عام انسان کی۔ خواجہ سراؤں کی تاریخ میں ہمیں جو ذکر ملتا ہے وہ محفل دور میں۔

ان کا مغلیہ دور میں کام زنان خانے اور مردان خانے کے درمیان پیغام رسانی ہوتا تھا۔ یہ بادشاہوں ور ان کے بیگمات کے درمیان پیغام رسانی کیا کرتے تھے ۔ ان کے دیگر ناموں میں ہجڑا، کھسرا، مورت، محنشا، شامل یں۔ اس کے علاوہ ان کو درمیانی مخلوق اور تیسری جنس بھی کہاجاتا ہے۔ سائنسی طور پر انسان کی جب پیدائش ہوتی ہے تو بچے کے جنس کے تعین کا وقت مرد اور عورت کے کروموسومز آپس میں ملتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ کروموسومز جس کا تعین کرتے ہیں ۔ اگر میل کے کروموسومز غالب ہوں تو لڑکا ہوتا ہے اگر عورت کے کروموسومز غالب ہوں تو لڑکی ہوتی ہے۔ لیکن تیسری جنس کے کیس میں یہ اتفاق ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے کروموسومز برابر ہوجاتے ہیں جو عموماً کم ہی ایسا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے وہ نہ مرد ہوتا ہے نہ عورت۔

ایک بات جو کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ تیسری جنس میں بھی میل اور فی میل ہوتے ہیں اس کا تعین اسے ہوتا ہے کہ تیسری جنس میں فی میل کروموسومز اگر میل کروموسومز پر دوبارہ غالب آجائے تو وہ فی میل ہجڑے کہلاتے ہیں بالکل اسی طرح میل ہجڑوں کا بھی ہے۔

فی میل خواجہ سرادیکھنے میں عام لڑکیوں جیسے ہی دیکھتے ہیں ان کے چہرے پر داڑھی بھی نہیں ہوتی۔ میل ہیجڑوں کی داڑھی ہوتی ہے باقی جسامت عورت جیسے ہی ہوتی ہے۔

خواجہ سراؤں میں بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ پاکستان کے صوبہ سندھ میں خواجہ سراؤں کی باقاعدہ ڈیرے موجود ہیں۔ ان ڈیروں کو سندھی زبان میں مڑھی جاتا ہے جہاں سندھ کے خواجہ سراؤں کے سب سے اہم گروہ رہائش پذیر ہیں۔ سندھ میں خواجہ سراؤں کی تین قسمیں موجود ہیں۔ جن میں !
۱۔ اولاکھڑے فقیر ۲۔ ملائی کھڈڑے ۳۔ ناچور جن کو رقاص بھی کہاجاتا ہے

اولاکھڈے فقیروں کا دعویٰ ہے کہ وہ پیدائشی طور پر جنسی صلاحیتیوں سے محروم ہوتے ہیں وہ خوشی کے موقع پر نذرانے وصول کرکے آپس میں بانٹ کر گزارہ کرتے ہیں ان کا عموماً اٹھنا ، بیٹھنا معزز گھرانوں میں ہوتا ہے۔ دوسری قسم ہے ملائی کھدڑے ۔ یہ اکثرنشے کی عادی ہوتے ہیں اور روزمرہ کے اخراجات کیلئے میلوں میں موجود تھیٹر یا ہوٹلوں میں رقص کرتے ہیں ان میں اکثر جنس کارکن بھی ہوتے ہیں ۔ یہ خیرات نہیں مانگتے۔

تیسری قسم ناچور ہے یہ تقریباً 10سال کی عمر سے ہی شادیوں اور مزارات میں ناچتے اور گانے والی منڈیوں میں شامل ہوجاتے ہیں اورنمائش بینوں سے سے وصول کرکے گلوکاروں کو دیتے ہیں کبھی کبھار یہ خود بھی رقص کرتے ہیں۔ عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ ان کا ناچنا گانا تقریباً کم پڑ جاتا ہے پھر یہ کوئی موسیقی کا آلہ بجانا سیکھتے ہیں اور اپنی باقی کی زندگی اسی سے کام چلاتے ہیں۔ خیر خواجہ سراکی قسم کوئی بھی ہو ہمارے معاشرے میں ان کو کچھ خاص اہمیت نہیں دی جاتی ۔ اکثر ان کو نظر انداز کیا جاتا ہے عام طور پر ان کو شناختی کارڈ سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ جس کاکالم حکومت کیلئے قابل قبول نہیں ہوتا کیونکہ تیسری جنس کا کوئی کالم ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ان کو سکول ، کالجز میں بھی داخلے نہیں ملتے ۔ نہ ہی کوئی سرکاری نوکری ملتی ہے۔ اک بڑے عرصے تک ان کو ووٹنگ کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ۔ اب آہستہ آہستہ خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے کام ہورہاہے ۔ اس کام کیلئے خواجہ سراؤں کی اک تنظیم ہی بنی ہے جس کا نام Pakistan She male Association ہے جس کے پریزیڈنٹ الماس بوبی ہیں جو کہ خواجہ سراؤں کے حقوق کیلئے بہت زیادہ کوششیں کررہی ہیں۔ خواجہ سراؤں سماجی طور پر عموماً دو درجوں میں رکھا جاتا ہے۔

ایک جو کہ انٹرٹینمنٹ ایجنسی سے وابستہ ہوتے ہیں جس میں شادی بیاں کے تقریبات بچہ کی پیدائش یا سالگرہ کے موقع پر مدعوہوتے ہیں اور دوسرے درجے والے یا تو بھیک مانگتے ہیں یا پھر جسم فروشی کرتے ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ایک ناسور یہ بھی ابھرتا چلاآرہا ہے کچھ لوگ قدرتی طور پر بالکل ٹھیک ٹھاک ہوتے ہیں مگر یا تو شوق کے ہاتھوں یا کسی مجبوری کے تحت خواجہ سراؤں کا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ لوگ یا تو جسم فروشی سے وابستہ ہوتے ہیں یا پھر منشیات کے کاروبار سے منسلک ہوجاتے ہیں ۔ خود بھی زیادہ تر نشے کے عادی ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ نشے کی سپلائی کاکام بھی کرتے ہیں ۔ یہ جرائم پیشہ بھی ہوتے ہیں۔ جن کا حدف عام طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں جو جنسی طور پر بے راہ کا شکار ہوتے ہیں یہ اکثر گروپوں کی شکل میں کام کرتے ہیں ان سے جووارداتیں منسوب ہیں وہ کارلفٹنگ، سٹریٹ کرائمز، اعوان برائے تاوان شامل ہیں۔ ان کا طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ یہ لوگ خواجہ سراؤں کا بہروپ دھاکر اپنے شکاری کے تلاش میں سڑکوں کے کنارے یا محسوس اڈوں پر کھڑے ہوجاتے ہیں۔

ان کے جیسے جنسی بے راہ روی کے شکار افراد اپنی جنسی ٹیس کیلئے ان کو لفٹ دیتے ہیں یہ گاڑی میں سوار ہوجاتے ہیں اور پیچھے اپنے گروپ کو خبردار کردیتے ہیں۔ ان کے گروپ کے دوسرے ساتھی ان کا پیچھا شروع کردیتے ہیں۔ عام طور پر یہ لوگ مسلح ہوتے ہیں اسی طرح اپنے شکار کو پر عمال بنالیتے ہیں۔
حال ہی میں پولیس نے بڑے پیمانے پر یہ نکشاف کیا ہے کہ یہ لوگ تقریباً پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایسے گروہ متحرک ہیں اور آئے دن لوگ ان کا شکار ہوتے رہتے ہیں ۔ بظاہر یہ ضرور نظر آنے والے افراد جرائم پیشہ افراد سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں اور پولیس کی طرف سے گاہے بگاہے ایسی وارننگ جاری کی جاتی ہیں جن میں سڑک کے کنارے لفٹ کے انتظار میں کھڑی لڑکیوں اور تیسری جنس کے افراد سے ہوشیار کیا جاتا ہے اور میڈیا بھی اس معاملے میں اپنی مکمل ذمہ داری نبھاری ہے ۔ ٹی وی پر ایسے کئی پروگرامز نشر ہوتے ہیں جن میں سڑک کے کنارے کھڑے نقلی خواجہ سراؤں کے بے نقاب کیا گیا جو اصل میں عام افراد ہوتے ہیں مگر روپ بدل کر لڑکیوں کی طرح میک اپ کرکے سڑک کے کنارے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو کہ معاشرے میں جنسی بے راہ روی کے ساتھ ساتھ مختلف مہلک بیماریاں پھیلانے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس غلیظ کام کے پیچھے محرکات بظاہر تو غربت ہی ہے جس کی وجہ سے اکثر ٹھیک ٹھاک گھرانوں کے جوان بھی اس قسم کے گندگی میں خود کو ڈھال لیتے ہیں محض چند پیسوں کی خاطر، بے روزگاری، غربت اور جہالت کے مارے عوام اپنے اور خاندان کا پیٹ پالنے کے لئے کیسے کیسے روپ دھار لیتے ہیں یہ تو ان نقلی خواجہ سراؤں سے پتہ چل جاتا ہے۔

خوان نقلی خواجہ سراؤں کے مقاصد جسم فروشی ہو یا بھیک مانگنا ان کے پیچھے کے وجوہات غربت ہی ہے۔

خواجہ سرا معاشرے کا یاک دھتکارے ہوئے پہلو ہونے کے ساتھ کئی حوالوں سے ایک سنسنی خیز تجسس کا تأثر بھی اپنی ذات میں سموئے ہوئے ہیں۔ ان حوالوں میں مذہبی اور معاشرتی پہلو سرفہرست ہیں ۔ کچھ حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہیجڑے یا خواجہ سرا درحقیقت ’’جنات‘‘ کی اولادیں ہیں اور یہ جنت اور انسانوں کے مشترک بودوباش کا نتیجہ ہیں۔ کچھ حلقے انکے مذہب سے متعلق مختلف ابیامات کا شکار ہیں۔ ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتے وقت خدا اور رسول کے واسطے دیتے ہیں مگرعوام کی ایک بڑی تعداد انکے مذہبی رجحانات کے بارے میں یہ رائے رکھتی ہے کہ ان کا اسلام یا دوسرے کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں بعض حضرات تو یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ اپنے ۔۔۔ مذہبی عقائد کو مانتے ہیں۔ جوکہ گمراہ کن پراپیگنڈہ کے زمرے میں آتا ہے۔ ہجڑوں پر ہونے والی اب تک تحقیق اور بات کی شہادت نہیں دیتی کہ ہیجڑے یا خواجہ سراء کسی گمنام عقیدے کے پیروکار ہیں یا کسی دیو دیوتا کی پرستش کرتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ پاکستان میں کچھ مخصوص مزارا ت ایسے ہیں جہاں سے خواجہ سراؤں کی خاص روحانی عقیدت وابستہ ہے اور انکی کثیر تعداد حاضری دینے اور نذ نیاز کی غرض سے اکھٹی ہوتی ہے۔ اس میں سرفہرست عبداﷲ شاہ غازی ؒ (کراچی ) کا مزار اور منگھوپیر کی زیارات قابلِ ذکر ہیں۔ خواجہ سراؤ ں کی تدفین کے بارے میں بھی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ایک عام رائے کے مطابق عوام کی ایک بڑی تعداد اس بارے میں لاعلم ہے کہ خواجہ سرا کی تدفین اور جنازے کے امور مرد کی طرح انجام دئے جاتے ہیں یا عورت کی حیثیت سے۔ البتہ کچھ حلقوں کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا کی میت رات کے اندھیرے میں قبرستان جائی جاتی ے اور جنازے میں شریک تمام خواجہ سرا برہنہ پاہوتے ہیں۔ اس کے پیچھے پوشیدہ منطق یہ بیان کی جاتی ہے کہ رات کے اندھیرے میں کوئی اُنکی میت کو قبر میں سیدھا کھڑا کرکے دفنا یا جاتا ہے اور سیدھا کھڑا کرکے ہی اُس کی قبر بند کردی جاتی ہے۔ ایک نجی ٹی وی چینل کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں یہ تمام نظریات غلط ثابت ہوئے۔ کراچی کے ایک مضافاتی علاقے میں وفات پانے والے ایک خواجہ سرا کی تدفین کے مناظر دکھائے گئے جس میں اُس کی تدفین روایتی مسلم روایات کے عین مطابق ہوئی۔ اہل ِ علاقہ کی جانب سے بھی نمازِ جنازہ میں لیا گیا اور تدفین بحیثیت مرد طبی حوالے سے مطالعہ کیا جائے تو ہیجڑوں یا Transgendersکے کچھ کیسیز ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن میں آپریشن کے ذریعے جنس کو مکمل طور پر تبدیل کیا جاسکتا ہے ۔ ایسے مریض بقیہ زندگی ایک نارمل انسان کی طرح بسر کرسکتے ہیں اور کسی بھی ایکٹویٹی میں ایک نارمل انسان کی طرح حصہ لے سکتے ہیں۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو مسئلے کی سنگینی طبی سے زیادہ معاشرتی ہے۔ مشرقی معاشروں میں بالخصوص پاکستان میں اس کو ایک TABOO کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ خواجہ سراؤں پر ہم نے اپنی معاشرت کے تمام دروازے مضبوطی سے بند کر رکھے ہیں خواہ وہ تعلیم کا شعبہ ہو یا روزگار کا، معاشرے میں شناخت کے بحران تک سے دوچار یہ جنس ہمارے محدود کئے ہوئے بلکہ مسرور کئے ہوئے آپشنز پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے جن کو Filter outکرنے کے بعد ماسوائے گداگری اور جسم فروشی کے کچھ نہیں بچتا اور اُس پر المیہ یہ کہ یہی معاشرہ اِس پسے ہوئے طبقے کو اپنی جرائم کی سزا کی پاداش میں انہی جرائم کی دلدل میں مزید دھکیلتا جارہا ہے۔ یہی رویہ آہستہ آہستہ اس بظاہر بے ضرر نظر آنے والے طبقے کے اندر معاشرے کے خلاف پہلے سے موجود نفرت کو ایک زاویے کی شکل دیتا جارہا ہے اور ایسے کیسز سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میں تیسری جنس، سٹریٹ کرائمز، بھتہ خوری اور اغوا ء برائے تاوان جیسی وارداتوں میں باالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ بڑے شہروں باالخصوص کراچی، لاہوراور اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کے کئی گروہ جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں ۔یہ امر کس جانب اشارہ کرتا ہے ؟ یہ ہماری اجتماعی بے حسی کا ایک خوفناک سائڈافیکٹ Side Effect ہے جو ہم نے اس جنس کے ساتھ ناروا سلوک کرکے اپنے ہی معاشرے کو تحفظتاً دیا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی طور پر ہر معاملے میں حکومت کی جانب دیکھنے کی بجائے ہمیں خود اقدامات کرنا ہونگے ۔ اگر ہم بڑے پیمانے پر کوئی ایسوسی ایشن یا فنڈ ریزنگ نہ بھی کر پائیں تو کم از کم انکی افرادی قوت سے فائدہ اٹھا کر انکو چھوٹے چھوٹے کام دیے جاسکتے ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں کی صفائی ستھرائی کروائی جاسکتی ہے۔ مالی یا ڈرائیور کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ سلائی ، کڑھائی کے سینٹرز میں کھپایا جاسکتا ہے۔ الغرض بیسیوں کام ہیں جن میں اس افرادی قوت کو استعمال کیا جاسکتا ہے ، ابھی بھی وقت ہمارے ہاتھ میں ہے مبادا کہ دیر ہوجائے!
Zara Nasir
About the Author: Zara Nasir Read More Articles by Zara Nasir: 5 Articles with 7468 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.