اس قربانی میں کوئی پیغام ہے شاید

مولانا مطیع الرحمن نظامی کو گزشتہ ہفتے پھانسی دینے کا واقعہ بنگلہ دیش میں قائم حسینہ واجد حکومت کی پاکستان دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے اس سے پہلے بھی پاکستان سے محبت کے جرم میں حسینہ واجد کی طرف سے قائم کیے گئے نام نہاد اور غیر قانونی جنگی عزائم کے ٹربیونل کی طرف سے ملا عبدالقادر، قمرالزمان، علی احسن مجاہد،میر قاسم علی اور صلاح الدین چوہدری کو پھانسی دی جا چکی ہے ۔مولانا مطیع الرحمن کا جرم بھی صرف اور صرف یہی تھا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتے تھے ۔ وہ متحدہ پاکستان جمیعت کے آخری ناظم اعلیٰ تھے اور انہوں نے بنگلہ دیش کی علیحدگی کی جنگ میں مکتی باہنی اور بھارتی فوجوں کی کھل کر مخالفت کی تھی اور پاکستان کا ساتھ دیا تھا ۔ مکتی باہنی اوربھارتی فوجوں نے جس وقت مشرقی پاکستان پر حملہ کیا تو ہر محب وطن پاکستانی نے اپنے وطن کے دفاع کےلئے ہر ممکن کوشش کی تھی ایسا کرنا نہ کوئی جرم تھا اور نہ ہی ہے۔ حقیقت میں جرم تو بھارتی فوج اور بھارت کے ایجنٹ عوامی لیگ مکتی باہنی کے مسلح دستے کررہے تھے اور جب پاکستان دو لخت ہوگیا اور بھارتی ایجنٹ عوامی لیگ اقتدار میں آئی تو بنگلہ دیش میں پاکستان کا دفاع کرنیوالوں کو چن چن کر قتل کیا جانے لگا ۔ ظلم و ستم اور قتل وغارت کے ایسے ہولناک واقعات بنگلہ دیش کی سرزمین نے نہ جانے کیسے برداشت کیے ہونگے ۔1974 ءمیں دہلی میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے مطابق تینوں ممالک پابند تھے کہ ماضی کے کسی بھی واقعہ کی بنیاد پر تینوں ممالک میں کہیں بھی کسی شخص پر کوئی کیس نہیں بنایا جائے گا ۔ تینوں ملکوں کے مابین ہونے والے اس سہ افریقی معاہدے پر اسوقت کے پاکستان کے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو شہید،بنگلہ دیش کے شیخ مجیب اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے دستخط کیے ۔لیکن پاکستان دشمنی میں پاگل شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد شیخ اپنی حکومت قائم ہوتے ہی 2010ءمیں اپنے باپ کے کیے ہوئے معاہدے پر بھی قائم نہ رہی اور جنگی عزائم کے نام سے ایک نام نہاد ٹربیونل قائم کرکے پاکستان کا ساتھ دینے والے جماعت اسلامی کے قائدین سمیت سیاسی مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور گزشتہ دس مئی کی رات جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ مولانا مطیع الرحمن نظامی کو بھی پھانسی دیدی گئی ۔ حسینہ واجد حکومت کی جانب سے اس انسانیت سوز واقعہ پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جارہا ہے ۔ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں شہید مولانا صاحب کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں لاکھوں مسلمانوں نے شرکت کی دوسری جانب اس دلخراش واقعہ پر حقیقی دکھ و تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ترکی نے اپنا سفیر بنگلہ دیش سے واپس بلا لیا ۔ بنگلہ دیش سمیت جماعت اسلامی پاکستان نے بھی اس واقعہ کےخلاف ملک بھر احتجاجی مظاہرے کیے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے صرف لفطوں کی حد تک واقعہ کی مذمت تو کی لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا جبکہ پاکستانی حکومت 1974ءمیں ہونے والے معاہدے کا فریق ہونے پر اس معاملہ کو اقوام متحدہ میں اٹھا سکتی تھی اور انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کا دروازہ بھی کھٹکایا جا سکتا تھا ۔ اگر پاکستانی حکومت نے ایسا کیا ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی اور مولانا مطیع الرحمن نظامی شہید سمیت کئی انتہائی قیمتی اور بے گناہ لوگ ہمارے درمیان موجود ہوتے ۔ حکومت کی اس مجرمانہ خاموشی نے جہاں محب الوطنوں کو مایوس کیا ہے وہیں وطن دشمن قوتوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے اور ملک کے دفاع کی جنگ لڑنے والوں کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑنے والے بے یارو مدد گار ہیں۔ دوسری جانب یہ واقعہ نہ صرف عالمی قوانین کے منہ پر زور دار طمانچہ بلکہ انسانی حقوق کی عالمی تنظیوں کی کار کردگی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔خود ساختہ انٹرنیشنل ٹریبونل بنا کر جماعت اسلامی اور بی این پی کے رہنماو ¿ں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلائے جارہے ہیں اور انصاف کے جملہ تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے ان رہنماو ¿ں کے حق دفاع کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ اس وقت تک جماعت کے رہنماؤں کو جو سزائیں سنائی گئی ہیں، انہوں نے بنگلہ دیش سمیت اسلامی دنیا میں ایک آگ سی لگا دی ہے حقیقت یہ ہے کہ انھیں صرف اور صرف پاکستان سے محبت پر ظلم اور سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ایک طرف حسینہ واجد بھارتی حکومت کی ایماءپر جماعت اسلامی کے رہنماﺅں کو پھانسیاں دیتی رہی تو دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم بھارتی وزیراعظم کو لاہور میں شاہانہ خوش آمدید کہتے اور تحائف دیتے رہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے متعدد بار حکومت پاکستان اور ایران ، سعودی عرب ، یمن، جرمنی سمیت دیگر اسلامی ممالک کے سفیروں سے ملاقاتیں کرکے انہیں اس ظلم اور قتل وغارت کےخلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانے کی درخواستیں کرتے رہے لیکن کسی نے معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا ۔ مولانا صاحب کو پھانسی دئیے جانے کے بعد قومی اسمبلی میں ایک قرار داد منظور کی گئی لیکن اب اس قرارداد سے کیا حاصل ہوسکتا ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو یہ پھانسیاں جماعت اسلامی کے بزرگوں کو نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنیوالوں کو دی جارہی ہیں ۔ نام نہاد ٹریبونلز کے ذریعے سیاسی مخالفین کےخلاف جنگی عزائم کے مقدمات اور سزاﺅں پر رد عمل کے جو سیاسی اور نظریاتی پہلو ہیں وہ بنگلہ دیش کی معاشی ترقی اور سماجی ارتقاءپر بری طرح اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔ ایسے اقدامات حسینہ واجد شیخ کے سیاسی انتقام کے ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ دراصل حسینہ واجد اگلے انتخابات کے سلسلے میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد سے بھی خوفزدہ ہے اور دونوں جماعتوں کو انتخابات سے پہلے نقصان پہنچانا چاہتی ہے لیکن نمجھے حسینہ واجد کی عوامی لیگ اگلے الیکشن میں چوتھے نمبر پر بھی نظر نہیں آرہی بنگلہ دیش میں آئندہ اتحادی حکومت جماعت اسلامی اور بی این پی قائم کریگی ۔ بلاشبہ مولانا صاحب کی اس قربانی میں اسلامی انقلاب کا پیغام پوشیدہ ہے جسے اب بنگلہ دیش میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ایک دوست شاعر ظفر اقبال قیصر نے کیا خوب تصویر کھینچی ہے۔
الزام وفا میں آزمایا جا رہا ہے
بے گناہ خون بہایا جا رہا ہے
کیا جرم ہے وضاحت تو کرو کوئی
جو فیصلہِ موت سنایا جا رہا ہے
یہ کیسی عدالت ہے میرے شہر کی
منصف پتھر سا بٹھایا جا رہا ہے
اس قربانی میں کوئی پیغام ہے شاید
بے حس قوم کو جگایا جا رہا ہے
خاموش ہے مسلمان آج پھر قیصر
وہی قصہِ کربلا دہرایا جا رہا ہے

Sohail Ahmad Mughal
About the Author: Sohail Ahmad Mughal Read More Articles by Sohail Ahmad Mughal: 19 Articles with 11385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.