لغات واصطلاحات (١١)

جواب:(معاذ) اسم مذکر،میم کے فتحہ وضمہ دونوں کے ساتھ ہے،فتحہ کی صورت میں مصدر میمی ہے،جس کا معنی ہوگا:پناہ مانگنا،تعویذ کو بھی معاذکہتے ہیں،تعویذ اور معاذ کا مادہ ایک ہی ہے ،عَوذٌ سے دونوں مشتق ہیں،استعاذہ اورتَعَوُّذ یعنی أعوذباللہ بھی اسی سے ہے،مُعاذ میم کے ضمے کے ساتھ باب افعال سے: محفوظ،کسی کی پناہ میں۔ مُعوّذ:باب تفعیل سے اللہ کی میں ،مُعاذ اور معوذ کے معنی ایک ہیں،حضرتِ معاذ بن جبل ؓ(متوفی 18ھ) مشہور صحابی ہیں، جب اہل یمن نے حضور ﷺسے درخواست کی کہ ہمارے ساتھ آپ ایک ایسا آدمی بھیج دیجئے جو صرف امیر ہی نہ ہو، بلکہ معلّم بھی ہو، تو اس موقع پر آپ ﷺ کی نظرمبارک معاذ بن جبلؓ پر پڑی، چنانچہ آپ نے ان کو اشارہ کرکے بلایا اور کہا کہ اے معاذ!
سوال:شیخ میرے اکلوتے بیٹے کانام معاذ ہے،اس کا صحیح تلفظ اور معنی بتایئے،نیز تاریخی پس منظر بھی بیان فرمائیں۔(جمیل احمد خان یوسفزئی،حیات آباد،پشاور)۔ تم یمن چلے جاؤ تمہاری وہاں ضرورت ہے، پھر آپ نے تبلیغ سے متعلق کچھ نصیحتیں فرمائی اور ان کو وہاں کا گورنر مقرر فرمادیا اور کہا کہ اے معاذ! واپسی میں شاید تم مجھ سے نہ مل سکوگے، یہ سننا تھا کہ حضرت معاذ ؓ کے آنسو بہہ پڑے آپﷺ کے بھی آنسو شدت محبت کی وجہ سے بہہ پڑے، پھر جب روانہ ہونے لگے، تو حضور ﷺ پیدل چل رہے تھے اور حضرت معاذ بن جبل سواری پر تھے، حضور ﷺساتھ ساتھ چل کر نصیحت بلکہ وصیت فرمارہے تھے، اے معاذ! لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرنا، مشکلات پیدا نہ کرنا، انہیں خوشی ومسرت کا پیغام سنانا، ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے انہیں دین سے نفرت ہوجائے۔
اس وقت سرکار دوعالم ﷺ کتنے خوش تھے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ جب حضرت معاذ نے عرض کیا کہ اگر مجھے فیصلہ کرنے کے لیے قرآن وسنت میں کوئی چیز نہ ملے تو اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، حضور ﷺکو اس جواب سے اتنی خوشی ہوئی تھی، کہ فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اللہ کے رسول کے فرستادہ کو اس چیز کی توفیق دی جس سے اللہ کا رسول راضی ہے۔
پھراس وقت وہ حالت بھی عجیب تھی، کہ جب حضورﷺنےان سے فرمایا: اے معاذ! ہوسکتا ہے آج کے بعد تم مجھ سے پھر نہ مل سکو، شاید واپسی میں تمہارا گذر میری مسجد اور قبر کے پاس ہی سے ہوگا۔
یہ سننا تھا کہ اس محبِّ صادق کے پاؤں سے زمین نکل گئی اور زار وقطار رونے لگے، روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺنے اپنا روئے انور مدینہ منورہ کی طرف پھیرلیا اور یہ ارشاد فرمایا: ”ان اولی الناس بیَ المتقون حیث کانوا ومن کانو“ یعنی میرے قریب ترین وہ لوگ ہیں جو متقی ہوں جہاں بھی ہوں اور جو بھی ہوں۔
چنانچہ یہی ہوا کہ جب حضرت معاذ یمن سے واپس آئے تو سرکار دوعالم ﷺدنیا سے پردہ فرماچکے تھے اور وہ نبی کریم ﷺ کی قبر پر حاضر ہوکر رورہے تھے۔
یہ خوبرو، خوش اخلاق، کشادہ دست، کریم النفس، خوش بیان اور شیریں بیان معاذ بن جبل بن عمرو بن اوس بن عائذ الانصاری ہیں، جو اٹھارہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے اس وقت تک آنحضرت ﷺ نے مدینہ ہجرت نہ فرمائی تھی، یہ مدینہ سے جاکر مشرف باسلام ہوئے تھے، بیعت عقبہ میں شریک ہونے والے ستر جلیل القدر صحابہ میں سے ایک یہ بھی تھے۔
اٹھارہ سال کی عمر، ابھرتی جوانی، سینہ میں موجزن ارمان، دنیا میں گھسنے کا خیال اور مستقبل کے عزائم کو پختہ کرنے کا زمانہ، مگر اسلام لانے کے بعد انھوں نے اپنی زندگی تبلیغ اسلام، تعلیم قرآن اور شرک کے خاتمے کے لیے وقف کردی، چنانچہ حضرت عمروبن جموح ؓ کوبت پرستی اور بتوں سے متنفر کرنے والوں میں ان کا بھی کردار تھا۔
دین کے مسائل سیکھنے اور قرآنی علوم پڑھنے میں اس طرح لگ گئے کہ ان کو دینی علوم میں مہارت تامہ حاصل ہوگئی، پھر سرورکائنات ﷺنے ان کے بارے میں وہ بشارت دی جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔
جماعت صحابہ میں آپ کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ زبانِ نبوت ترجمان حقیقت سے آپ کو یہ سند عطا ہو ”اعلم امتی بالحلال والحرام معاذ بن جبل“ کہ میری امت میں سب سے زیادہ حلال وحرام سے واقف معاذ بن جبل ہیں۔
مسروق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی موجودگی میں آیت پاک ”اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کانَ اُمَّةً قَانِتًا للّٰہِ“ پڑھی گئی تو انھوں نے فرمایا کہ معاذ بھی ایک امت تھے، اللہ کے فرمانبردار تھے، ان کے متعلق آپ ﷺ سے دریافت کیاگیا تو آپ نے فرمایا، جانتے ہو ”امت“ وہ شخص ہے جو لوگوں کو خیر کی باتیں سکھاتا ہے۔ (فتح الباری جلد۸، صفحہ ۴۹۴)
ابومسلم خولانی کا بیان ہے کہ ایک روز میں دمشق کی جامع مسجد میں آیا تو وہاں عمر رسیدہ صحابہ کرام تشریف فرماتھے اور ان میں ایک نوجوان سُرمیلی آنکھوں والا اور چمکیلے دانتوں والا تھا، جب یہ حضرات کسی بات میں اختلاف کرتے تو یہ لوگ اس نوجوان کی طرف رجوع کرتے۔میں نے پوچھا یہ جوان کون ہے؟ بتایاگیا کہ یہ معاذ بن جبل (ان کی کنیت ابوعبدالرحمن، لقب امام الفقہاء ہے) ہیں، پھر ان سے بڑھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو خوش نصیب افراد میں شامل فرمایا اور وہ کتابت قرآن کے شرف سے مشرف ہوئے، یہ ان پر اعتماد کامل اور علم کی پختگی کی ایک دلیل تھی، اسی طرح فتح مکہ کے بعد جب لوگ گروہ در گروہ دائرہ اسلام میں داخل ہورہے تھے، تو ان میں مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے آپ ﷺکی نظر انتخاب انہی پر پڑی اور انہیں کو اس کام کے لیے متعین فرمایا۔
حضرت معاذ کے متعلق نبی پاک ﷺ کا یہ ارشاد بھی منقول ہے ”معاذ امام العلماء یوم القیامة برتبة“ معاذ کو قیامت کے دن علماء کی پیشوائی حاصل ہوگی اور ایک بڑا درجہ ان کو ملے گا۔
جنگ بدر میں جو کم عمر بچے شریک ہوئے تھے، معوذ اور معاذ تھے، جس میں ابو جہل بھی شامل تھا ،جنگ شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ زور پکڑتی گئی تلواروں کی آوازیں زخمیوں کی چیخیں عجیب خوفناک سماں تھا حضرت ابن مسعود بھی اسی جنگ میں شریک تھے ان کے دائیں بائیں معوذ اور معاذ اپنے ہاتھوں میں تلواریں لیے دشمن کا صفایا کررہے تھے، کمسنی میں نوجوانوں جیسے کام کرنے والے ان بچوں نے حضرت ابن مسعود سے دریافت کیا کہ ابو جہل کہا ہے، فرمایا ، تم ابو جہل کو کیوں پوچھ رہے ہو، معاذ نے کہا ہم نے سنا ہے کہ وہ بدبخت رسول ا للہ کی شان میں گستاخیاں کرتا ہے ہم اسے جہنم رسید کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ابو جہل کفار مکہ کا بڑا جنگجو سپہ سالار ہے وہ بڑا ہی چالاک اور مکار ہے تم اس تک کیسے پہنچو گے، دونوں نے زیادہ ضد کی تو کہا کہ میں تمہیں ابو جہل کے آنے پر اطلاع دوں گا۔لڑائی کے دوران ابن مسعود کی نظر ابو جہل پر پڑی تو انہوں نے کہا، وہ سامنے ابو جہل آرہا ہے۔
ابو جہل کو دیکھتے ہی معوذ اور معاذ تلواریں ہاتھ میں لیے عقاب کی مانند ابو جہل پر جھپٹے، اتنا بڑا جنگجو سردار اچانک اس حملے سے گھبرا گیا وہ ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ دونوں بچوں نے اپنی تلواریں ابوجہل کے پیٹ میں گھونپ دیں ابو جہل شدید زخمی حالت میں نیچے گرا اور زخموں کی شدت سے تڑپنے لگا، اسی عالم میں ابن مسعودوہاں پہنچے اور ابو جہل کو واصل جہنم کردیا۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817521 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More