حضرت عمرؓ اور ایک ناراض شوہر..

سخت گرمی کے باعث عرب بدو کی پیشانی سے پسینا ٹپک رہا تھا۔ وہ پتھر توڑنے میں مشغول تھا۔ آخری ضرب لگاتے ہی اس کی ہمت جواب دے گئی۔ وہ بوجھل قدموں سے گھر کی جانب چل پڑا۔ گھر داخل ہوتے ہی اسے بیوی ہنگامہ خیز آواز میں بچوں کو ڈانٹتی ہوئی ملی۔ بیوی نے اس کی خستہ حالت تو دیکھی، مگر پروا نہ کیے بغیر صحن سے ہوتی یوں اندر چلی گئی گویا وہ گھر آیا ہی نہ ہو! بدو غصہ ضبط کر گیا۔ لوگوں کی ازدواجی زندگیوں کے حالات اس کی نگاہوں کے سامنے گھوم کر رہ گئے۔

ام المومنین حضرت سودہؓ بنت زمعہ کے شوہر، سکران بن عمرو انتقال فرما گئے۔ اس کے بعد وہ اپنے مشرک باپ کی سختیوں کے سامنے بکھر کر رہ گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا کوئی سہارا اور کفالت کرنے والا نہ رہا۔ تب نبی کریمﷺ نے ان کے حال پر رحم فرمایا۔ بوڑھی ہونے کے باوجود انھیں رشتۂ ازدواج میں منسلک فرما لیا تاکہ ان کی یتیم بیٹیوں کی پرورش فرما سکیں۔ اس بدو کے ذہن میں یہ تمام واقعہ گھوم گیا۔

وہ پھر خودکلامی کرنے لگا: ام المومنینؓ بوڑھی تھیں، مگر آپﷺ نے انھیں قبول فرمایا، میں بھی اپنی بیوی کو اس کی سختی کے باوجود برداشت کروں گا، شاید اس کے اخلاق بہتر ہو جائیں۔ وہ پھر کمرے میں جا کر بیوی سے بات چیت کرنے لگا۔ بیوی فوراً اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگی۔ وہ سمجھ گیا کہ ایسی خاتون سے نباہ کرنا اس کے بس سے باہر ہے۔ پھر بیوی کی آواز بلند ہوتی چلی گئی۔ وہ اور پریشان ہو گیا اور اس کی بداخلاقی پر تلملا کر بولا: ’’کیا تو نے حضورﷺ کا فرمان نہیں سنا؟‘‘
بیوی: ’’اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے سچ فرمایا ہے مگر…‘‘ شوہر: مگر کیا؟ کیا آپﷺ نے نہیں فرمایا، اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ کسی انسان کو سجدہ کر لے، تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ کیونکہ خاوند کا اس پر بہت بڑا حق ہے۔
بیوی: تمھیں کس حق کا دعویٰ ہے؟ اگر تم محنت کرتے ہو، تو میں بھی محنت کرتی ہوں اور یہ بچے…
شوہر: (بات کاٹتے ہوئے) کیا بگاڑ دیا انھوں نے تمھارا؟
بیوی: ان کے شوروشغب اور مطالبات نے مجھے بے حال کر ڈالا ہے۔
شوہر: تم انھیں آداب سکھائو، اور ان کے لیے حسنِ سیرت کا نمونہ بن جائو۔
بیوی: تم خود ان کے لیے بھلائی کا نمونہ کیوں نہیں بن جاتے؟
شوہر: تم پر بھلائی کی کوئی بات اثرنہیں کرتی۔
بیوی: تم اپنی نصیحتیں اپنے پاس ہی رکھو۔ میں پہلے ہی تمھاری نصیحتوں سے تنگ آئی بیٹھی ہوں۔
شوہر: اللہ کی قسم، میں امیر المومنین کے پاس تمھاری شکایت کروں گا۔

وہ بدو اپنے حال سے تنگ آ کر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ جونہی اس نے امیر المومنین حضرت عمرؓ کا دروازہ کھٹکھٹایا، ایک خاتون کو بلند آواز میں کہتے سنا: اللہ تعالیٰ نے تمھیں جو کام سونپے ہیں، انھیں انجام دینے میں اللہ سے ڈرو اے عمر!‘‘
بدو واپس لوٹنے کا ارادہ کرتے ہوئے خود سے بولا، جب امیر المومنین کا یہ حال ہے، تو آج کے بعد میں اس صورت حال کی ہرگز پروا نہیں کروں گا۔ اسی وقت حضرت عمرؓ باہر تشریف لے آئے۔ ایک بدو کو اپنے در سے واپس جاتے دیکھا، تو پکار اٹھے:
حضرت عمرؓ: اے مسلمان بھائی تمھیں کیا کام ہے؟
بدو: مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے۔
حضرت عمرؓ اپنی فراست سے اس کی پریشانی جانچ گئے۔ لمحہ بھر اسے دیکھ کر فرمایا: میں تمھیں قسم دیتا ہوں کہ تم اپنی بات بیان کرو۔‘‘ بدو: اے امیر المومنین! میں آپ کے پاس اپنی بیوی کے برے اخلاق کی شکایت لیے آیا تھا، جس کا میں مدت سے شکار ہوں۔ لیکن آپ کے ساتھ بھی وہی معاملہ دیکھ کر شکایت سے بے نیاز ہو گیا۔ میں نے سوچا کہ آپؓ پر تو یہ معاملہ مجھ سے زیادہ گراں گزرتا ہو گا (کہ آپ امیر المومنین ہیں اور میں ایک عام آدمی)۔ پس یہ سوچ کر واپس لوٹنے کا ارادہ کر لیا کہ جب حاکمِ وقت کا یہ حال ہے، تو میں بھی تقسیمِ الٰہی پر راضی رہوں گا۔
یہ سن کر حضرت عمرؓ مسکرا اٹھے اور فرمایا: ’’اے مسلمان بھائی! میں اپنی بیوی کی باتیں اس لیے برداشت کر لیتا ہوں کہ ان کے مجھ پر بہت سے حقوق و احسانات ہیں۔ وہ میرے لیے کھانا بناتی، روٹیاں پکاتی، بچوں کو دودھ پلاتی اور کپڑے دھوتی ہے۔ میں جتنا ان کی باتوں کو برداشت کروں گا، اتنا ہی مجھے ثواب ملے گا۔‘‘ بدو…اے عمرؓ! اپنے گھر والوں سے میل جول میں آپؓ کتنے نرم دل ہیں اور معاملاتِ حکومت میں کتنے سخت۔
حضرت عمرؓ: میں تو صرف ان امور میں سختی کرتا ہوں جو عامۃ المسلمین کے حقوق سے متعلق ہیں اور وہ بھی اس وقت جب راہ حق سے کسی کو دور ہوتا یا ہٹتا ہوا دیکھوں، یا جب کوئی واجبات کی ادائیگی میںتاخیر کرے۔ بدو: اور جوکام آپ کی ذات سے متعلق ہیں، ان میں؟ حضرت عمرؓ: ان امور میں عفوو درگزر کا معاملہ کرتا ہوں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا: اور جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا، تو بے شک یہ بڑی باتوں میںسے ہے۔ کیا ہمیں اسلام نے یہ نہیں سکھایا کہ ہم پر بیویوں کے بڑے حقوق ہیں اور وہ ہمارے پاس امانت ہیں۔
اور جو شخص امانت کا پاس نہ رکھے،اس کا ایمان ناقص ہے۔ کیا ایمان والے آپس میں محبت اور شفقت کے لحاظ سے ایک وجود کے مانند نہیں کہ جب اس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے، تو پورا وجود درد محسوس کرتا ہے۔ تو پھر تمھیں کیا ہو گیا ہے اے شخص کہ تم قرآن کریم کے بیان کردہ اخلاق سے خود کو مزّین نہیں کرتے؟
بدو: اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے، لیکن میری بیوی تو بچوں کا بوجھ اٹھانے کو بھی تیار نہیں۔ حضرت عمرؓ: کیا تم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پیار محبت اور خوشی طبعی سے کچھ وقت گزارتے ہو؟ بدو: میں دن بھر کا تھکا ہارا شام کو گھر لوٹتا ہوں۔ مجھ میں اتنی ہمت و سکت ہی نہیں ہوتی کہ ان کے ساتھ خوش طبعی کر سکوں۔
حضرت عمرؓ: اور تم بچوں کو اس حال میں چھوڑ کر جاتے ہو کہ تمھاری موجودگی میں (ڈرکی وجہ سے) وہ جو خود کو بڑی مشکل سے دبائے بیٹھے ہوتے ہیں، تمھارے جاتے ہی اپنی ماں پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ (اس پر سارا غبار نکالتے اور اسے ستاتے ہیں) کیا ایسا نہیںہے؟ بدو: خاموش رہتا ہے۔ حضرت عمرؓ: اسی وجہ سے تمھاری بیوی تم سے بیزار رہتی ہے۔
بدو: کیا آپ اپنے بچوں کے ساتھ نرمی و محبت کا معاملہ فرماتے ہیں، اے امیر المومنینؓ! حضرت عمرؓ: جی ہاں! اور حضور اکرمﷺ بھی اپنے بچوں، حسنؓ و حسینؓ کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ وہ حضورﷺ کی پشت پرسوار ہو جاتے اور آپﷺ انھیں اٹھا کر یہ فرماتے ہوئے چلنے لگتے: تمھاری سواری بہترین سواری ہے اور تم بہترین سوار ہو۔
بدو: (حیرت زدہ ہو کر) کیا واقعی ایسا ہے؟ حضرت عمرؓ: میں نے کل کچھ کام ایک آدمی کے سپرد کرنے کے لیے اسے بلایا۔ جب وہ میرے پاس آیا، تو اس نے مجھے بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا۔ یہ بات اسے پسند نہ آئی۔ تب میں نے وہ کام اس کے ذمے نہیں لگایا کیونکہ وہ سخت طبیعت والا اور خشک مزاج آدمی تھا۔ بچوں کے بارے میں اس کی غلط سوچ تھی، تو وہ قوم پر کتنا ظلم اور سختی کرتا!
بدو: آپؓ نے سچ فرمایا ہے اے امیر المومنین! حضرت عمرؓ: رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے: تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ (برتائو کرنے میں) بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ (برتائو کرنے میں) تم سب سے بہتر ہوں۔ بدو: آج آپؓ نے مجھے ایسا سبق دیا جسے میںکبھی نہیں بھولوں گا۔ اب میں ان شاء اللہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پیار و محبت سے رہوں گا۔
حضرت عمرؓ: پھر تمھاری بیوی بھی تمھارے ساتھ (برتائو کرنے میں) ویسے ہی ہو جائے گی جیسے اُم حبیبہؓ، حضورﷺ کے ساتھ (برتائو کرتی) تھیں۔
بدو: وہ کیسا برتائو کرتی تھیں؟ حضرت عمرؓ: ایک دن ام المومنین کا باپ ان کے پاس آیا اور حضور اکرمﷺ کے بستر مبارک پر بیٹھ گیا۔ انھوں نے اپنے باپ کو آپﷺ کے بستر مبارک پر بیٹھنے سے منع فرمایا اور بستر لپیٹ دیا۔ بدو: اپنے باپ کے سامنے سے بستر لپیٹ دیا؟ حضرت عمرؓ: ہاں! بدو: تو ان کے باپ نے کیا کہا؟
حضرت عمرؓ: اس نے کہا: بستر میرے مقام ومرتبے کے لائق نہیں یا میںاس بستر کا اہل نہیں؟ بدو: ام المومنین نے کیا جواب دیا؟ حضرت عمرؓ: انھوں نے فرمایا،شرک نے تمھارے اور میرے شوہر حضوراکرمﷺ کے مرتبوں کے درمیان (بہت بڑا) فرق ڈال رکھا ہے۔ تم مشرک و نجس ہواور میرے شوہر پاکیزہ نبیﷺ ہیں۔
بدو: واقعی؟ پھر ان کے باپ نے کیا کہا؟ حضرت عمرؓ: ان کے باپ نے کہا،اے میری پیاری بیٹی! اللہ کی قسم مجھ سے الگ ہوکر بڑے شر میںمبتلا ہو گئی ہو۔ انھوں نے جواب دیا: نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کی طرف ہدایت دی ہے۔ پھر وہ فرمانے لگیں: تعجب تو تم پر ہے میرے باپ! تم قریش کے سردار ہو اور ان کے بڑے لیکن تمھاری حالت یہ ہے کہ تم ایسے پتھروں کو پوجتے ہو جو نہ سنتے ہیں نہ دیکھتے۔
بدو: اس نے کیا جواب دیا؟ حضرت عمرؓ: اس نے کہا: میں اپنے آبائو اجداد کے دین کو ہرگز نہیں چھوڑوں گا۔ بدو: وہ واقعتا کامل ایمان والی تھیں۔ حضرت عمرؓ: اور رسول اللہﷺ کے اخلاقِ عظیمہ نے ان کے ایمان میں مزید اضافہ فرما دیا۔ کیا رسول اللہﷺ نے نہیںفرمایا: شیشے (یعنی عورتوں) کے ساتھ نرمی کا برتائو کرو۔ اور کیا انھوں نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی غیرت پر مبنی ناراضی جو انتہائی محبت کی بنا پر تھی اور اپنے والد کی طرف ان کے شکوہ کو برداشت نہیں فرمایا؟ اور جب ان کے والد، ابوبکر صدیقؓ نے انھیں مارا، تو آپﷺ نے فرمایا: اے ابو بکرؓ! انھیں کہنے دیجیے۔
بدو: کیاواقعی ایسا ہوا تھا؟ حضرت عمرؓ: کیا تم علما کی مجالس میں حاضر نہیں ہوتے کہ دین اور آداب معاشرت سمجھ سکو؟ بدو: نہیں اے امیر المومنینؓ! میں تو صبح شام کام کرنے والا آدمی ہوں۔ میرے پاس ان امور کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ حضرت عمرؓ: تم تمام وقت کام پر کیوں صرف کرتے ہو؟ بدو: میرا کنبہ بڑا ہے اے امیر المومنینؓ! حضرت عمرؓ: اگر تم ہمارے پاس آتے اور اپنی پریشانی بیان کرتے، تو ہم تمھیں بیت المال میں سے (بقدر ضرورت) مال ضرور عطا کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بقدر استطاعت عمل ہی کا مکلف بنایا ہے۔
تم حصول علم اور عبادت کے لیے بھی وقت نکالا کرو اے آدمی! بدو: اللہ تعالیٰ آپ کو اس اعلیٰ درجے کی امارت کا بدلہ دے۔ آپ دین و دنیا (کے معاملات) میں بہترین راہنمائی کرتے ہیں۔ وہ بدو پھر اس عزم کے ساتھ لوٹ گیا کہ اب نیا انسان بننے کی سعی کرے گا، جو طالب علم بھی ہو گا۔ علما کی مجالس میں بیٹھ کر رفتہ رفتہ وہ عالم و عابد اور اپنے بیوی بچوں کی نرمی سے تربیت کرنے والا بن گیا۔ ان کے گھر محبت اور ایمان کے پاکیزہ جھونکے چلنے لگے۔ وہ گھر سکون کی چھائوں میں آ گیا۔
اس کی بیوی نوبیاہتا دلھن کی طرح ذوق و شوق سے اس کا روزانہ انتظار کرنے لگی۔ میاں بیوی نے مل کر اس گھر کو علم اور آداب عالیہ کا گہوارہ بنا دیا۔ ان کے اپنے اور اعزا کے بچوں کے ساتھ ساتھ محلہ داروں کے بچے بھی ان کے گھر تعلیم حاصل کرنے آنے لگے۔ ایک دن وہ بدو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انھیں دیکھ کر امیر المومنینؓ بہت خوش ہوئے اور ان کے چہروں پر پائے جانے والے آثارِ خیر سے نیک فال لی۔
بدو نے کہا: ’’یہ آپؓ کے بوئے ہوئے بیج کا پھل ہے اے امیر المومنین! اور آپ کی تعلیم اور راہنمائی کا نتیجہ ہے۔ بے شک آپؓ ہی وہ رہبر ہیں جنھوں نے مجھے یہ سبق دیا۔‘‘ امیر المومنینؓ نے فرمایا: ’’بلکہ تمھاری بیوی… اللہ تعالیٰ نے اسے اس (خیروبرکت) کا سبب بنایا جو میں دیکھ رہا ہوں۔ تم اس چیز کو اس کے اسباب میں سے ایک سبب کی طرف منسوب کرتے ہوئے یہ کیوں نہیں کہتے کہ مجھے میری بیوی نے (یہ سب) سکھایا ہے؟‘‘
Kamran Buneri
About the Author: Kamran Buneri Read More Articles by Kamran Buneri: 92 Articles with 260191 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.